۲۰ جون کو جناب انیق احمد کے ساتھ ’’روح رمضان‘‘ کے افطاری پروگرام سے فارغ ہوا تو جامعہ بنوریہ کراچی کے مولانا سیف اللہ ربانی مجھے وہاں لے جانے کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے، ان کے ساتھ جامعہ بنوریہ پہنچا۔ جامعہ بنوریہ کا ٹی وی نشریات کا اپنا نظام ہے جس سے دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ اس میں درس قرآن کریم کی ایک نشست کی صورت میں شرکت کی۔ معلوم ہوا کہ مولانا مفتی محمد نعیم اپنی رہائش گاہ کی چھت پر تراویح پڑھاتے ہیں اور چھ روز میں قرآن کریم مکمل کرنے کے بعد مختصر سورتوں اور آیات کے ساتھ تراویح کا سلسلہ سارا رمضان جاری رہتا ہے۔ میں نے بھی شرکت کا پروگرام بنا لیا کہ تراویح کے ساتھ مفتی صاحب محترم سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ کچھ تراویح اور نماز وتر ان کی اقتداء میں ادا کیے۔ وہیں اقرأ روضۃ الاطفال کے مولانا مفتی خالد محمود سے ملاقات ہوئی۔ تراویح کے بعد جامعہ بنوریہ کے مولانا عبد الحمید کی طرف سے دیے گئے عشائیہ میں بھی اتفاقیہ طور پر شرکت کی سعادت حاصل ہوگئی۔ ان حضرات کے ساتھ مختصر نشست رہی اور مختلف امور پر بات چیت ہوئی۔
اس کے بعد ملیر کینٹ کی طرف روانہ ہوا جہاں ہمارے ایک فاضل دوست مولانا عبد الجبار طاہر جامع مسجد توحید میں خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ ملتان سے تعلق رکھتے ہیں، جامعہ قادریہ ملتان کے سربراہ حضرت مولانا محمد نواز صاحب کے رفقاء میں سے ہیں اور صاحب فکر و دانش عالم دین ہیں۔ ان کا تقاضہ ہوتا ہے کہ جب بھی کراچی آؤں ان کے ہاں ضرور حاضری دوں۔ ایئرپورٹ کے قریب ہونے کی وجہ سے مجھے بھی آسانی رہتی ہے۔ رات ان کے ہاں گزاری، پروگرام کے مطابق اگلے روز ۲۱ جون کو رات نو بجے لاہور واپسی کی فلائٹ تھی، مسجد میں درس دیا اور شام افطاری کے بعد ایئرپورٹ جانے کی ترتیب بنا لی۔ مگر میزبان حضرات نے فون پر بتایا کہ رات نو بجے کی فلائٹ پر سیٹ کنفرم نہیں ہو سکی اس کی بجائے ۲۲ جون کو صبح آٹھ بجے کی فلائٹ پر سیٹ ملی ہے۔
چنانچہ ایک رات جامعۃ الرشید میں گزارنے کا موقع مل گیا۔ مولانا مفتی عبد الرحیم اسی شام عمرہ سے واپس تشریف لائے تھے اس لیے سیٹ کا کنفرم نہ ہونا ایک اور خیر کا باعث بن گیا۔ سحری وہیں کی اور صبح نماز فجر کے بعد بڑے مفتی صاحب کے ہمراہ مولانا مفتی محمد اور مولانا مفتی ابولبابہ شاہ منصور کے ساتھ ایک نشست میں مختلف امور پر گفت و شنید کا موقع ملا۔ مفتی ابو لبابہ صاحب باذوق اور محنتی عالم دین ہیں، نوجوان علماء کی مختلف شعبوں میں تربیت و تعلیم کے لیے مفید اور مؤثر کام کر رہے ہیں۔ بالخصوص عربی کے فروغ اور تعلیم کے حوالہ سے ان کی محنت کا ہمیشہ معترف رہا ہوں بلکہ خود بھی ان کے ’’متاثرین‘‘ میں شامل ہوں۔ اس موقع پر ان کے ایک قیمتی تحفہ سے فیض یاب ہوا جو حضرت مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم آف ظاہر پیر کے تفسیری افادات پر مشتمل ہے۔ یہ افادات مولانا مفتی ابولبابہ شاہ منصور نے قرآن کریم کے متن کے ساتھ حاشیہ کی صورت میں مرتب کیے ہیں جو طلبہ اور مدرسین کے لیے بہت مفید ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے انہوں نے دورۂ تفسیر پڑھا تھا اور ان کے تفسیری افادات کو بھی وہ اسی انداز میں مرتب کر کے شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس بابرکت محفل سے فارغ ہو کر ایئرپورٹ پہنچا اور لاہور جانے کے لیے پی آئی اے کے جہاز پر سوار ہوگیا جسے پونے دس بجے کے لگ بھگ لاہور پہنچنا تھا۔ مگر جب لاہور کے قریب پہنچے تو اطلاع ملی کہ لاہور ایئرپورٹ شدید بارش اور آندھی کی زد میں ہے۔ جہاز کی کپتان ایک خاتون محترمہ کیپٹن عائشہ رابعہ تھیں، ان کی طرف سے اعلان ہوا کہ جہاز اتارنے کے لیے لاہور کا موسم سازگار نہیں ہے اس لیے اگر مناسب موقع نہ ملا تو ہم کراچی واپس چلے جائیں گے۔ میں پہلے ہی اپنے طے شدہ شیڈول سے لیٹ ہوگیا تھا، جبکہ میرے لیے طے شدہ پروگرام میں گڑبڑ سب سے مشکل مسئلہ ہوتی ہے، اس لیے پریشانی ہوئی کہ ایک دن اور لیٹ ہو جاؤں گا۔ دل میں کئی بار خیال آیا کہ کیپٹن عورت ذات ہے شاید رسک نہ لے۔ پھر خیال آیا کہ نام عائشہ ہے ممکن ہے ہمت کر ہی لے۔ اسی شش و پنج میں کم و بیش نصف گھنٹہ تک جہاز فضا میں بادلوں کے اوپر چکر کاٹتا رہا۔ پھر بی بی نے ہمت کی اور دوچار ہلکے سے جھٹکوں کے ساتھ جہاز کو لاہور ایئرپورٹ پر اتار ہی لیا۔ جوں ہی جہاز کے پہیوں نے رن وے کو چھوا تو میرے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا ’’عائشہ بی بی زندہ باد‘‘۔ میرے ساتھ والے مسافر چونکے تو میں نے کہا کہ جہاز کی کیپٹن کا نام عائشہ ہے۔ اور اس نے جس حوصلہ اور مہارت کے ساتھ جہاز اتارا ہے اس نے مجھے ہیتھرو ایئرپورٹ یاد دلا دیا ہے جہاں کم و بیش اسی قسم کا ماحول اکثر رہتا ہے۔
میرے دل کے کسی کونے میں یہ بات موجود تھی کہ نام کے اثرات شخصیت پر ہوتے ہیں، اس لیے جہاز کے اترتے وقت اس قسم کے خیالی تانے بانے بنتا رہا۔ پانچ روز کے بعد لاہور واپس آیا تو یہاں کے اخبارات میں صوبہ پنجاب کا بجٹ زیر بحث تھا جو صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث نے پیش کیا تھا اور ان کی پریس کانفرنس کی تفصیلات اخبارات میں مختلف زاویوں سے نمایاں تھیں۔ دو تین روز گزرے تو ایک اور ڈاکٹر عائشہ کی خبریں سامنے آنے لگیں، یہ پنجاب فوڈ کنٹرول اتھارٹی کی ڈاکٹر عائشہ ممتاز ہیں جو ملاوٹ کے خلاف جرأتمندانہ اقدامات کی خاصی شہرت رکھتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے چند بڑے ہوٹل خود معائنہ کرنے کے بعد سیل کر دیے تھے او رخوراک میں ملاوٹ کی روک تھام کے لیے بہت متحرک تھیں۔ اب انہوں نے لاہور کی ایک بڑی منڈی میں سرخ مرچوں کا ایک ذخیرہ سیل کر دیا ہے جس میں کچھ مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ پائی گئی ہے۔ انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ وہ اس قسم کی ملاوٹ کو کسی جگہ بھی برداشت نہیں کریں گی اور جہاں موقع ملا سخت کاروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ اس پر ایک اور محترمہ عائشہ بھی یاد آگئیں جنہوں نے لاہور کے بادامی باغ کے جنرل بس اسٹینڈ کا چارج سنبھال کر اس کے نظم و نسق کو ایسا سیدھا کر دیا تھا کہ مسافروں کے منہ سے ان کے لیے بے ساختہ دعائیں نکلتی ہیں۔
’’عائشہؓ ‘‘ تاریخ کا ایک بڑا نام ہے جو سامنے آتے ہی علم، عصمت، حوصلہ، تدبر، جرأت، اور حکمت کی ایک کہکشاں سی نگاہوں کے سامنے سج جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں یہ نام ہوگا وہاں اس کے کچھ نہ کچھ اثرات تو ضرور ہوں گے۔