روزنامہ پاکستان لاہور ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کی خبر کے مطابق افغانستان میں برطانیہ کے سینئر کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نک پارکر نے، جو افغانستان میں نیٹو افواج کے ڈپٹی کمانڈر بھی ہیں، ایک اخباری انٹرویو میں کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کے لیے بہتر جنگی ساز و سامان کی نہیں بلکہ لوگوں کے دل اور ذہن کو جیتنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا افغانستان میں جنگ جیتنے کے لیے مزید اور جدید ہتھیاروں کی ضرورت نہیں بلکہ نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کا اعتماد حاصل کیا جائے اور انہیں اس بات کا یقین دلایا جائے کہ اتحادی فوج ان کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
برطانوی کمانڈر کا یہ کہنا کہ افغان عوام کا دل اور ذہن جیتنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت ہے، جہاں اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اتحادی افواج اپنی تمام تر قہر سامانیوں کے باوجود افغان عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں، وہاں اس معروضی حقیقت کے لیے بھی مستند شہادت کا درجہ رکھتی ہے کہ طالبان کے مقابلہ میں اتحادی افواج کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور عسکری جنگ میں انہیں اپنے جیتنے کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اتحادی ممالک کو افغان عوام کے دل و ذہن جیتنے اور انہیں اعتماد میں لینے کی کوئی نئی حکمت عملی طے کرنے سے پہلے اپنی اس پسپائی کے اسباب کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کی کون سی غلط پالیسیوں نے انہیں یہ دن دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ہمارے نزدیک امریکی اتحاد کی سب سے پہلی غلطی یہ تھی کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد افغانستان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد امریکہ نے یہ سمجھ لیا کہ شاید افغان مجاہدین بھی صرف اسی لیے لڑ رہے تھے کہ عالمی سرد جنگ میں امریکہ کو کامیابی حاصل ہو اور سوویت یونین اس کے مقابلہ میں پسپا ہو جائے۔ حالانکہ افغان مجاہدین کے جہاد اور قربانیوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ ان کے ملک کی خود مختاری بحال ہو اور افغانستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست بنے۔ امریکہ اور دوسرے ممالک نے جہاد افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کر لیے مگر افغان مجاہدین کے اصل مقصد کو نہ صرف نظر انداز کر دیا بلکہ اس میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے۔ اب بھی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان کی خود مختاری کو اسی طرح یرغمال بنا رکھا ہے جس طرح دو عشرے قبل سوویت یونین نے یرغمال بنایا ہوا تھا اور افغانستان میں شرعی نظام کے نفاذ میں امریکہ اسی طرح رکاوٹ بنا ہوا ہے جس طرح سوویت یونین ایک عرصے تک رکاوٹ بنا رہا۔ چنانچہ افغان مجاہدین کے لیے جن کی قیادت اس وقت طالبان کر رہے ہیں صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ جو جنگ سوویت یونین کے خلاف لڑ رہے تھے اسی جنگ کا انہیں اب امریکی اتحاد سے سامنا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے غلط طور پر یہ سمجھ لیا تھا کہ طالبان صرف ایک طبقے کا نام ہے جسے فوجی قوت کے ذریعے شکست دی جا سکتی ہے، وقت نے جلد ہی ان کی یہ غلط فہمی دور کر دی ہے اور ان پر واضح کر دیا ہے کہ اتحادی فوجوں کا مقابلہ کسی ایک طبقے سے نہیں بلکہ افغان قوم سے ہے، اور ایک عشرے کے بیشتر حصے پر محیط جنگ کے بعد اب انہیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ افغان عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اور ان کے دل و ذہن کو جیتنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہم جنرل نک پارکر سے یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ اگر وہ اپنی قیادت کو یہ مشورہ دینے میں سنجیدہ ہیں کہ افغان عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کے دل و ذہن جیتنے کی کوشش کی جائے تو وہ اس کے ساتھ یہ مشورہ بھی دیں کہ افغان عوام کی عزت نفس، آزادی اور افغانستان کی خود مختاری کا احترام کیا جائے۔ اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے کہ افغان قوم ہمیشہ آزاد رہی ہے اور اس کا سب بڑا قومی مقصد اسلامی شریعت کا نفاذ اور اس کے ساتھ بے لچک وابستگی رہا ہے۔
جنرل نک پارکر کا کہنا ہے کہ دل و دماغ جیتنے کے لیے مزید فوجی ساز و سامان کی ضرورت نہیں اور ہم بھی ان سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ دل و دماغ فوجوں کے ذریعے نہیں جیتے جاتے، امریکی فوجوں نے دنیا کے جس ملک میں وہاں کے عوام کے دل و دماغ جیتنے کے لیے ڈیرے ڈالے ہیں وہاں سے انہیں نفرت کے سوا کچھ نہیں ملا، تو فوجوں کے ذریعے غیور اور حریت پسند افغان عوام کا اعتماد آخر کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟