بعد الحمد والصلٰوۃ۔ غیر مسلموں کے ساتھ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات کی نوعیت کیا تھی یہ ایک بڑا موضوع ہے جس کے بیسیوں پہلو ہیں۔ یہ ایک حساس اور پیچیدہ موضوع بھی ہے جس پر میں اصولی طور پر چند گزارشات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ قرآن کریم اور جناب رسول اللہؐ کی سنت و سیرت کے حوالے سے کافروں کے ساتھ تعلقات دیکھے جائیں تو اس کی الگ الگ نوعیتیں اور درجات سامنے آتے ہیں جن کے الگ الگ احکام ہیں۔
نبی کریمؐ کی امتِ دعوت
مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کی سب سے پہلی نوعیت وہ ہے جس کا دائرہ پوری دنیا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں جناب نبی کریمؐ کی امتِ دعوت ہیں۔ رسول اللہؐ کی امت دو طبقوں میں منقسم ہے، ایک امت دعوت اور دوسری امت اِجابت۔ امت دعوت تو ہر انسان ہے خواہ کسی نسل کسی علاقے اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ اس لیے کہ حضورؐ کی سب سے پہلی دعوت یہ تھی ’’یا ایھا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا‘‘ کہ اے لوگو! کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ جناب نبی کریمؐ نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر کھلے بندوں یہ سب سے پہلی دعوت دی تو آپؐ کے سامنے عرب والے، قریش والے اور مکہ والے بیٹھے تھے۔ لیکن حضورؐ نے ’’یا اہل عرب‘‘ کہہ کر ’’یا اہل مکہ‘‘ کہہ کر ’’یا قریش‘‘ کہہ کر خطاب نہیں کیا بلکہ ’’یا ایھا الناس‘‘ کہہ کر خطاب کیا۔ آپؐ کے سامنے جو لوگ موجود تھے وہ محدود اور مقامی تھے لیکن آپؐ کی دعوت صرف ان کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے تمام بنی نوع انسانوں کے لیے تھی۔ قرآن کریم نے حضورؐ کی اس دعوت کی تائید اس طرح سے کی ’’قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعًا الذی لہ ملک السماوات والارض (سورۃ الاعراف ۱۵۸) کہ آپ کہہ دیجیے کہ اے (دنیا جہان کے) لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا (پیغمبر) ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے۔
آج کے دور میں جدید تہذیب کے علمبرداروں کا ایک بڑا مغالطہ ہے کہ گلوبلائزیشن اور انٹرنیشنلزم کے داعی وہ ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں گلوبلائزیشن کا سب سے پہلا اعلان صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر جناب رسول اللہؐ نے کیا، یہ گلوبلائزیشن کا اور انٹرنیشنلزم کا پہلا اعلان تھا۔ حضورؐ نے جب یہ اعلان فرمایا تو اس کے ٹھیک اکیس سال بعد اسی صفا کے دامن میں منٰی کے مقام پر حضورؐ نے خطبہ حجۃ الوداع کی صورت میں گلوبلائزیشن کے چارٹر کا اعلان کیا۔ میں نے عرض کیا کہ پوری نسل انسانی جناب نبی کریمؐ کی امتِ دعوت ہے اور ظاہر بات ہے کہ جب ہم مسلمان کسی کو دعوت دیں گے تو دعوت کا ماحول پیدا کرنا بھی ضروری ہے اس لیے کہ دعوت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ہم عملی طور پر جیسے کیسے بھی ہیں بہرحال جناب رسول اکرمؐ کے مشن کے نمائندے ہیں۔ جناب رسول اللہؐ نے اس کام میں جو تکلیفیں برداشت کیں، بھوک برداشت کی، طعنے برداشت کیے اور جس طرح سے اس مشن کی راہ میں آپؐ نے صبر و حوصلے سے کام لیا، یہ دعوت کے اس میدان میں آج بھی آپؐ کی سنت ہے اور قیامت تک آپؐ کی سنت رہے گی۔ چنانچہ جب ہم دعوت کی بات کریں گے اور نسل انسانی کو اسلام کے دائرے میں لانے کی کوشش کریں گے تو ہمیں دعوت کے یہ تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔
غیر مزاحم کفار
غیر مسلموں سے مسلمانوں کے تعلقات کی دوسری نوعیت میں وہ کافر آتے ہیں جنہیں اسلام کی دعوت ملی لیکن انہوں نے نہ تو اس دعوت کو قبول کیا اور نہ ہی اس کی راہ میں مزاحم بنے۔کافروں کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جنہیں ہماری دعوت پہنچتی ہے تو وہ اسے قبول نہیں کرتے لیکن ہماری دعوت میں رکاوٹ بھی نہیں بنتے۔ یعنی وہ یہ کہتے ہیں کہ تم دنیا میں لوگوں کو مسلمان بناتے رہو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہم مسلمان نہیں بنیں گے۔ ایسے کافر جو دعوتِ اسلام بھی قبول نہ کریں اور اس کی راہ میں رکاوٹ بھی نہ بنیں، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کی کیٹیگری اس طرح بیان کی ہے ’’لا ینھٰکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین‘‘ (سورۃ الممتحنۃ: ۸) کہ اللہ تعالٰی تمہیں ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، اللہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔ یعنی وہ کافر جو تم سے لڑتے نہیں، تمہاری دعوت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے، تم پر ظلم و ستم نہیں کرتے اور ایسے لوگ بطور انسان تمہارے ساتھ معاملات رکھنا چاہتے ہیں، تمہارے خلاف کسی مہم میں شریک نہیں ہیں تو اسلام کہتا ہے کہ تم ایسے لوگوں کے ساتھ کاروبار بھی کر سکتے ہو اور حسن سلوک و برابری کا معاملہ بھی کر سکتے ہو۔ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جیسے دنیا میں اقوام کے ساتھ برابری کے اور خوش اسلوبی کے تعلقات ہوتے ہیں ایسے ہی تم بھی بین الاقوامی برادری میں رہتے ہوئے ان کافروں کے ساتھ برابری کے معاملات رکھ سکتے ہو۔
دعوتِ اسلام کی راہ میں حائل کفار
مسلم و غیر مسلم تعلقات کی تیسری نوعیت میں وہ کافر آتے ہیں جو دعوتِ اسلام میں رکاوٹ ہوں۔ ’’انما ینھٰکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاھروا علٰی اخراجکم ان تولوھم‘‘ (سورۃ الممتحنۃ ۹) کہ اللہ تعالٰی تمہیں ان لوگوں (کے ساتھ دوستی) سے منع کرتا ہے جو تم سے دین کے بارے میں لڑے ہوں اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہو اور تمہیں گھر سے نکالنے میں (نکالنے والوں کی) مدد کی ہو اور جو شخص ایسوں سے دوستی کرے گا سو وہ گناہ گار ہوں گے۔ یعنی جو غیر مسلم دعوتِ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، تم سے لڑتے ہیں، تم پر ظلم و ستم کرتے ہیں، تمہیں گھروں سے نکالتے ہیں ان کے ساتھ دوستی نہیں کرو بلکہ ان کے ساتھ جیسے دنیا میں دشمنی کا معاملہ ہوتا ہے ویسے ہی معاملہ ہونا چاہیے۔ جناب نبی کریمؐ کی سنت مبارکہ بھی یہی ہے۔
اسلامی ریاست میں رہنے والے کفار
مسلم و غیر مسلم تعلقات کی چوتھی نوعیت میں وہ کافر آتے ہیں جو مسلمان ریاست میں رہتے ہوئے ریاست کی بالادستی کو قبول کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو ذمی کہا جاتا ہے۔ ذمی حقارت کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہ ایک اعزاز ہے کہ اسلامی ریاست اپنے اندر رہنے والے غیر مسلموں کی جان، مال اور آبرو کی ذمہ دار ہے۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ کے زخمی ہونے کے بعد جب طبیبوں نے ان سے کہا کہ اب تو بظاہر زندگی کا امکان نہیں ہے اس لیے جو وصیت وغیرہ کرنی ہے کر دیں۔ حضرت عمرؓ زخمی ہونے کے بعد گھر لائے گئے تھے، انہیں دودھ پلایا گیا تو وہ زخمی انتڑیوں کے راستے سے باہر نکل گیا، پھر شہد پلایا گیا تو وہ بھی انتڑیوں کے راستے نکل گیا۔ طبیبوں نے کہہ دیا کہ حضرت ہمارے حساب سے تو آپ کا وقت آگیا ہے اللہ زندگی دے تو دے بظاہر امکان نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس حالت میں چند وصیتیں کیں، ان میں سے ایک وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہیں بطور خاص ہدایت کرتا ہوں کہ اپنے درمیان رہنے والے غیر مسلموں کی جان، مال اور آبرو کے تم محافظ ہو، ان کی بابت قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا۔
محدثین فرماتے ہیں کہ اس وصیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ حضرت عمرؓ کو زخمی کرنے والا ایک غیر مسلم مجوسی شخص تھا، حضرت عمرؓ کو یہ خدشہ تھا کہ مسلمان کہیں رد عمل میں غیر مسلموں پر نہ چڑھ دوڑیں۔ امیر المؤمنین کے قتل سے زیادہ سنگین جرم کیا ہوگا، کسی غیر مسلم کا مسلمانوں پر اس سے بڑا حملہ کیا ہوگا کہ حضرت عمرؓ جیسے امیر المؤمنین کو شہید کر دیا جائے۔ چنانچہ یہ کافروں کی چوتھی کیٹیگری ہے کہ وہ اسلامی ریاست کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں، ریاست ان کی جان، مال اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔
منافقین
مسلم و غیر مسلم تعلقات کی پانچویں نوعیت میں وہ لوگ آتے ہیں جنہیں قرآن کریم نے منافقین کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رسول اللہؐ کے دور میں جب حضورؐ مدینہ منورہ کے حکمران تھے اور ریاست کا انتظام آپؐ کے ہاتھ میں تھا اس دور میں منافقین سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ غزوۂ احد میں ان کا تناسب یہ تھا کہ ایک ہزار میں سے تین سو منافقین نکل گئے تھے اور مسلمان لشکر میں سات سو باقی بچے تھے۔ منافقین نے فتنے بھی پیدا کیے اور سازشیں بھی کیں۔ قرآن کریم میں ان کے فتنوں کا ذکر ہے، غزوہ تبوک کے حوالے سے بھی اور دیگر متعدد حوالوں سے بھی۔ منافقین نے مسجد کے نام پر مخالف مورچہ بھی لگایا جسے قرآن کریم نے مسجد ضرار کا نام دیا ’’والذین اتخذوا مسجدًا ضرارًا وکفرًا وتفریقًا بین المؤمنین وارصادًا لمن حارب اللہ ورسولہ‘‘ (سورۃ التوبہ ۱۰۷) اور جنہوں نے نقصان پہنچانے اور کفر کرنے اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے لیے مسجد بنائی ہے اور ان لوگوں کے لیے مورچہ بنانے کے واسطے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے لڑ چکے ہیں۔ چنانچہ مدینہ کے منافقین نے منافقت کی وہ ساری حرکتیں کیں جو وہ کر سکتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کے متعلق صاف کہا ’’اذا جاءک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ واللہ یعلم انک لرسولہ واللہ یشہد ان المنافقین لکاذبون‘‘ (سورۃ المنافقون ۱) کہ جب منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ (یہ بات) جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافقین (دل سے گواہی دینے میں) جھوٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں لیکن یہ لوگ آپؐ کو دل سے اللہ کا رسول ماننے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ یعنی ان کے کافر اور منافق ہونے پر قرآن کریم نصِ قطعی کے طور پر گواہی دے رہا ہے۔ ایک موقع پر تو یہ کہا ’’ومن الناس من یقول اٰمنا باللہ وبالیوم الاٰخر وما ھم بمؤمنین۔ یخٰدعون اللہ والذین اٰمنوا وما یخدعون الّا انفسھم وما یشعرون‘‘ (سورۃ البقرہ: ۸۔۹) اور کچھ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں۔ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور نہیں سمجھتے۔قرآن کریم میں یہ صراحتیں موجود ہیں کہ یہ مومن نہیں ہیں بلکہ جھوٹے اور دھوکے باز ہیں۔
بظاہر تو یہ منافقین مسلمانوں کے ساتھ رہے، صحابہ کرامؓ کے ساتھ مل کر نمازیں بھی پڑھتے رہے، روزے بھی رکھتے رہے اور جہاد میں بھی جاتے رہے۔ لیکن درپردہ وہ فتنے کھڑے کرتے تھے اور سازشوں کے تانے بنتے تھے۔ چند مرتبہ تو ایسا ہوا کہ جناب نبی کریمؐ سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا ان منافقین کو قتل نہ کر دیا جائے؟ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بھی حضورؐ سے سوال کیا اور حضرت عمرؓ نے بھی۔ ایک دفعہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے بیٹے نے بھی آپؐ سے سوال کیا۔ باپ اور بیٹے دونوں کا نام عبد اللہ تھا۔ باپ پکا منافق جبکہ بیٹا پکا مسلمان تھا۔ عبد اللہ بن عبد اللہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! یہ لوگ اتنا فتنہ پھیلاتے ہیں اتنا شر پیدا کرتے ہیں کیا ہم انہیں قتل نہ کر دیں؟ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے منع کر دیا اور آپؐ نے پھر اس کی وجہ بیان کی۔ آپؐ اللہ کے پیغمبر تھے اور اللہ کے پیغمبر سے زیادہ صاحبِ بصیرت کون ہوسکتا ہے۔ فرمایا کہ یہ بات تو صرف تم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ لوگ بے ایمان ہیں، باقی دنیا کی نظر میں تو یہ مسلمان ہیں، انہیں قتل کرو گے تو دنیا میں یہ پروپیگنڈہ ہوگا کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ ہمارے ساتھ دین و دنیا کے تمام معاملات میں شریک ہوتے ہیں اور ان میں ایسی بات نہیں ہے جس سے ظاہر ہو کہ یہ لوگ کافر اور منافق ہیں۔ اس لیے چند مخصوص مسلمانوں کے علاوہ باقی لوگ تو یہی کہیں گے کہ محمدؐ نے کسی وجہ سے اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیا ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے عمومی تاثر کا لحاظ رکھتے ہوئے ان منافقین کی شر پسندی کو برداشت کیا۔ یہ جناب نبی کریمؐ کی سنت مبارکہ ہے کہ کوئی بھی کام کرنے اور بالخصوص اجتماعی قدم اٹھانے سے پہلے اس کے معاشرتی اثرات و نتائج اور پبلک ری ایکشن دیکھا جائے کہ لوگ اسے کس نظر سے دیکھیں گے۔ حضرت عمرؓ نے تو آپؐ سے اجازت مانگی کہ یا رسول اللہ! منافق کی گردن اڑا دوں؟ آپؐ نے فرمایا خدا کے بندے ! لوگ کیا کہیں گے کہ مسلمانوں نے اپنے ساتھی کو مار دیا، یہ بات دعوتِ اسلام میں رکاوٹ بنے گی۔ گویا جناب نبی کریمؐ نے یہ تعلیم دی کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے عمومی تاثر دیکھا جانا چاہیے۔
یہ دیکھنا کہ جو کام ہم کرنے جا رہے ہیں اس کا عوام میں کیا اثر ہوگا، اسلام کے حق میں ہوگا یا یا اسلام کے خلاف، اس کا لحاظ رکھنا حکمت کے تقاضوں میں سے ہے۔ بیت اللہ شریف کی موجودہ عمارت ابراہیمی ؑ بنیادوں پر نہیں ہے۔ کعبہ کے باہر جو حطیم کی جگہ ہے یہ اصل میں بیت اللہ کا حصہ تھی۔ کعبہ کے دو دروازے ہوا کرتے تھے اور یہ دروازے زمین کی سطح کے برابر ہوتے تھے۔ قریش نے جب حضورؐ کی بعثت سے پہلے آپؐ کی جوانی کے زمانے میں خانہ کعبہ کی تعمیر نو کی تو یہ تبدیلیاں انہوں نے کیں کہ حطیم کو کعبہ کی عمارت سے باہر نکال دیا، دو کی جگہ صرف ایک دروازہ باقی رہنے دیا اور دروازے کی سطح زمین سے اونچی کر دی۔ ایک دفعہ رسول اللہؐ نے فتح مکہ کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر کو پرانی طرز پر واپس لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا، بخاری شریف میں حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں قریش کی اس تعمیر کو ختم کر کے ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کر دوں۔ پھر آپؐ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ ابراہیمی تعمیر کیا تھی۔ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کروں گا اس لیے کہ ’’لولا حدیث عہد قوم بالجاھلیۃ‘‘ تیری قوم قریش نئی نئی مسلمان ہوئی ہے کہیں یہ تاثر نہ لے لے کہ ان لوگوں نے ہمارا تعمیر کیا ہوا قبلہ بھی برداشت نہیں کیا۔ ورنہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس تعمیر کو گرا کر ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کروں۔
اللہ کی قدرت کہ عبد اللہ بن زبیرؓ نے اپنی خالہ حضرت عائشہؓ سے یہ بات سن رکھی تھی کہ رسول اللہؐ کی یہ خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر ہو۔ جب عبد اللہ بن زبیرؓ حجاز کے حاکم بنے تو انہوں نے حجاج بن یوسف کے ساتھ جنگ کے دوران خانہ کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچنے کے بعد خالہ محترمہ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ کی خواہش کی تکمیل کے لیے بیت اللہ کی عمارت گرائی اور اسے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کر دیا۔ زمین کی سطح کے برابر کعبہ کے دو دروازے بنائے اور حطیم کو چھت کے اندر کر دیا۔ عبد اللہ بن زبیرؓ کے خلاف حجاج بن یوسف نے چڑھائی کر کے بیت اللہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا ، اس لڑائی میں عبد اللہ بن زبیرؓ شہید ہوگئے اور حجاز پر بنو امیہ کی خلافت کا قبضہ ہوگیا۔ حجاج بن یوسفؓ نے بیت اللہ کی عمارت گرا کر دوبارہ قریش کی طرز پر کعبہ تعمیر کروا دیا۔ بنو امیہ کی خلافت کا زمانہ ختم ہوا تو بنو عباس کی خلافت کا زمانہ آگیا، بنو عباس کے ابتدائی دور میں انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم اسے پھر گراتے ہیں اور ابراہیمی طرز پر دوبارہ تعمیر کر دیتے ہیں۔ یہ حضرت امام مالک ؒ کا دور تھا جو کہ اس وقت کے علمی فرمانروا تھے، اس وقت عالم اسلام کے سب سے بڑے عالم حضرت امام مالکؒ تھے۔ امام دارالھجرہ، امام اہل سنت، امام المدینۃ، ان کا عالم اسلام میں فتویٰ چلتا تھا۔ انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ میں امام مالک بن انسؒ بطور امام مدینہ کے فتویٰ دیتا ہوں کہ یہ بیت اللہ شریف جس طرزِ تعمیر پر ہے، قیامت تک اسی طرزِ تعمیر پر رہے گا۔ یہ تم لوگوں نے کیا تماشا لگایا ہوا ہے کہ جو صاحبِ اثر خلیفہ آتا ہے وہ پہلے سے موجود عمارت گرا کر اپنی مرضی کا کعبہ تعمیر کر دیتا ہے، ایسے تو کعبہ حکمرانوں کے لیے کھلونا بن جائے گا، اس لیے اب اس کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امام صاحبؒ کے فتوے میں اتنی برکت دی کہ کعبہ کی طرزِ تعمیر آج تک قائم ہے۔ مسلمانوں کے علمی حلقوں میں اب بھی ایک ایسی تحریک موجود ہے اور میری نظر سے ان کی ایک کتاب گزری ہے کہ کعبہ کی تعمیر ابراہیمی بنیادوں پر ہونی چاہیے لیکن امام صاحبؓ کے فتوے میں اللہ تعالیٰ نے اتنی جان ڈال دی تھی کہ یہ بحث صرف علمی حلقوں تک ہی محدود رہی۔
میں عرض کر رہا تھا کہ کسی بھی عمل کا رد عمل کیا ہوگا اور اس کے نتیجے میں عوام الناس کا تاثر کیا ہوگا، اس کا خیال رکھنا رسول اللہؐ کی سنت ہے۔ چنانچہ باوجود معلوم ہونے کے کہ یہ لوگ منافقین ہیں اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، حالات کے تقاضوں کے مطابق ان کے ساتھ عمومی طور پر مسلمانوں والا معاملہ ہی کیا گیا۔
نبی کریمؐ کا کفار کے ساتھ معاملہ
میں نے اصولی طور پر کافروں کی پانچ قِسمیں بیان کی ہیں جن کے متعلق اسلام میں الگ الگ احکام ہیں۔ کفار کے معاملے میں جناب رسول اللہؐ کا طرزِ عمل کیا تھا اس کے لیے میں چند واقعات ذکر کرنا چاہوں گا۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودی اور منافق کا آپس میں جھگڑا ہوگیا، یہ زمین کی حد بندی کے متعلق ایک تنازعہ تھا۔ دونوں اپنا مقدمہ رسول اللہؐ کے پاس لے گئے، ایک طرف کلمہ گو تھا جبکہ دوسری طرف یہودی تھا۔ کلمہ گو در اصل ایک منافق تھا اور نبی کریمؐ کے پاس اِس ارادے سے گیا تھا کہ آپؐ بہرحال اس معاملے میں ایک مسلمان کا لحاظ کریں گے۔ یعنی آپؐ اپنی جماعت کے اور اپنے دھڑے کے آدمی کا خیال کریں گے۔ لیکن اگر اللہ کے پیغمبرؐ نے بھی دھڑے بندی کی بنیاد پر ہی فیصلے کرنے تھے تو پھر دنیا میں انصاف کا فیصلہ اور کون کرتا۔ حضورؐ نے ایسے ہی ایک دوسرے موقع پر فرمایا تھا ’’من یعدل اذ لم اعدل‘‘ کہ اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون انصاف کرے گا۔ چنانچہ جناب نبی کریمؐ نے انصاف کے مطابق یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ حضورؐ کی تعلیم یہ ہے کہ ہر قسم کے مفاد سے بالاتر ہو کر اور قانونی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلہ کرو۔
غزوۂ خیبر کے موقع پر جناب نبی کریمؐ نے خیبر کے قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا، آپؐ اپنے لشکر کے ساتھ اچانک وہاں جا پہنچے تھے۔ یہ حضورؐ کی جنگی حکمت عملی ہوتی تھی کہ مدینہ سے نکلتے وقت عام اعلان نہیں فرماتے تھے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ صرف تبوک کی جنگ سے پہلے حضورؐ نے یہ اعلان کیا کہ ایک بڑی طاقت رومیوں سے مقابلہ ہے اور شام کی طرف جانا ہے اس لیے پوری تیاری کر لو۔ چنانچہ جب آپؐ کا لشکر خیبر پہنچا تو ان لوگوں کو بالکل خبر نہ تھی، ان کے کسان صبح کے وقت زمینوں پر کام کاج کے لیے نکل رہے تھے، دیکھا کہ اسلام کا لشکر آن پہنچا ہے۔ وہ بھاگے بھاگے یہ کہتے ہوئے واپس گئے ’’محمد والخمیس، محمد والخمیس‘‘ محمد آگئے، لشکر آگیا۔ محمد آگئے، لشکر آگیا۔ قلعے کے دروازے وغیرہ بند ہوگئے اور اسلامی لشکر نے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ عبد اسود کے نام سے ایک غلام تھا جو وہاں کسی خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا۔ اس نے حضورؐ سے آپؐ کی دعوت کے متعلق دریافت کیا، آپؐ نے بتایا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے اور ایک مسلمان جنت کا مستحق ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں اس لیے آپ مجھے کلمہ پڑھائیے۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن یہ بکریاں جو تم چرا رہے ہو یہ کس کی ہیں؟ اس نے بتایا کہ یہ بکریاں فلاں شخص کی ہیں اور وہ قلعے کے اندر ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جاؤ اور اس کی بکریاں واپس کر کے آؤ۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں تو اب مسلمان ہوگیا ہوں واپس کیسے جاؤں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم مسلمان ہوگئے ہو لیکن بکریاں تو بہرحال اسی کی ملکیت ہیں اس لیے جاؤ اور واپس کر کے آؤ۔ جناب نبی کریمؐ نے حالت جنگ میں ایک دشمن کی بکریاں اسے واپس دلوا کر یہ تعلیم دی کہ جنگ اپنے مقام پر ہے جبکہ دیانت و امانت اپنے مقام پر ہے۔ صلح و جنگ اور دیانت و انصاف کے تقاضوں کو بیک وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کا طرزِ عمل
مجھ سے بہت سے دوست پوچھتے ہیں کہ یہاں امریکہ کے مسلمانوں کو نائن الیون کے بعد کی اس مسلم و غیر مسلم کشمکش کی فضا میں کیا کرنا چاہیے۔ یہ ایک نازک، سنگین اور لازمی سوال ہے۔ دنیا میں اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ بہت سی جگہوں پر مسلمان اور کافر حالت جنگ میں ہیں۔ اس صورتحال میں ایسے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے جو ان غیر مسلم ممالک میں رہتے ہیں جو کسی نہ کسی درجے میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں ملوث ہیں۔ میں اس کے دو جواب دیا کرتا ہوں۔
پہلا جواب یہ کہ انہیں وہی کرنا چاہیے جو حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے کیا تھا۔ غزوۂ بدر اسلامی تاریخ کا سب سے سنگین معرکہ تھا جب مسلمانوں کے پاس بقدرِ ضرورت نہ تو افرادی قوت تھی اور نہ اسلحہ تھا۔ چند تلواریں، چند گھوڑے، ستر اونٹ اور بچے اور بوڑھے ملا کر ۳۱۳ افراد تھے۔ مقابلے پر ۱۰۰۰ کا قریشی لشکر جو ہر طرح کے اسلحہ کے ساز و سامان سے لیس تھا۔ حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد یمانؓ، یہ اپنے وطن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے لیے نکلے کہ اب مسلمانوں اور کفارِ مکہ کے درمیان لڑائی کا مرحلہ آنے والا ہے اس لیے ہم حضورؐ کی خدمت میں جاتے ہیں تا کہ قریشیوں کے ساتھ جنگ کی صورت میں ہم حضورؐ کے لشکر شامل ہو سکیں۔ راستے میں کفارِ مکہ کے قافلے نے پکڑ لیا انہوں نے پوچھا کہ تم دونوں باپ بیٹا کہاں جا رہے ہو؟ اِنہوں نے بتایا کہ یثرب جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا! ہمارے خلاف لڑائی میں شریک ہونے کے لیے جا رہے ہو؟ اِن باپ بیٹا نے گول مول جواب دینے کی کوشش کی لیکن کفار کے لوگ ان کی اصل نیت بھانپ گئے۔ چنانچہ انہوں نے گرفتار کر کے چند دن اِنہیں اپنے پاس رکھا پھر قافلے والوں نے کہا کہ ہم تم باپ بیٹے کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس شرط پر کہ تم ہمارے ساتھ وعدہ کرو کہ ہمارے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہوگے۔ چنانچہ حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد نے کفارِ مکہ سے جان چھڑانے کی خاطر یہ حلف اٹھا لیا کہ ہم مسلمانوں اور کفارِ مکہ کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔ یہ مدینہ منورہ پہنچ کر حضورؐ کو تلاش کرتے ہوئے بدر کے میدان میں آگئے۔ حضورؐ کی خدمت میں پہنچتے ہی انہوں نے سارا واقعہ آپؐ سے عرض کر دیا کہ ہم گرفتار ہوگئے تھے اور ہمیں اس شرط پر چھوڑا گیا ہے کہ ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم لوگوں نے حلف اٹھایا؟ حذیفہؓ اور ان کے والد یمانؓ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! ہاں ہم نے حلف اٹھایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم دونوں یثرب جاؤ تم لڑائی میں شریک نہیں ہو سکتے۔ یہ اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ تھا جب اسلامی لشکر کو ایک ایک آدمی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد یمانؓ کفار کے ساتھ اپنے وعدہ کی پاسداری میں بدر کے میدان میں موجود ہوتے ہوئے بھی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے، حضورؐ نے انہیں مدینہ منورہ بھیج دیا تھا۔ چنانچہ غیر مسلم ممالک میں رہائش پذیر مسلمانوں کو میرا پہلا جواب یہ ہوتا ہے کہ آپ اِن ممالک میں رہتے ہوئے جن معاہدات کے پابند ہیں ان کی پاسداری کرنا اسلام کی رو سے آپ پر لازمی ہے۔
دوسرا جواب اس سے ذرا نازک ہے۔ نائن الیون کے کچھ عرصہ بعد میں لندن گیا تو وہاں ایک ٹی وی والوں نے مجھے ایک پروگرام میں بلا لیا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ یہاں (غیر مسلم ممالک) کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ بے حد جذباتی فضا میں ایک بہت حساس سوال تھا۔ میں نے کہا کہ میرا یہاں کے مسلمانوں کو مشورہ ہے کہ انہیں اس معاملے میں یہودیوں کی پیروی کرنی چاہیے۔ انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ ایک مولوی صاحب مسلمانوں کو یہ کیا مشورہ دے رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ایک یہودی اپنی کمیونٹی کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرتا، قانون اور معاہدات کی پابندی بھی کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دین اور اپنی ریاست اسرائیل کے لیے کام بھی کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہمیں یہودیوں سے طریقہ سیکھ کر اپنا کام کرنا چاہیے۔ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا ’’کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘ کہ دانائی کی بات جہاں سے ملے لے لو وہ مومن کی گمشدہ میراث ہے۔
میں نے عرض کیا کہ جناب رسول اللہؐ نے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات میں دیانت و عدل کی تلقین کی ہے اور ہر معاملے میں اخلاقیات کی پاسداری کا سبق دیا ہے۔ آپؐ نے غیر مسلموں کے ساتھ معاملات میں توازن قائم کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبویؐ کی صحیح معنوں میں پیروی کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔