میں عام طور پر عرض کیا کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے خود جو تقاضے کیے ہیں اپنے بارے میں ہم مسلمانوں سے، وہ بہت سے ہیں، میں تین چار کا ذکر کر دیتا ہوں۔
(۱) قرآن کریم نے پہلا تقاضہ یہ کیا ہے ’’فاقرءوا ما تیسر من القرآن‘‘۔ قرآن کریم کچھ نہ کچھ آسانی کے ساتھ پڑھتے رہا کرو، یعنی ایک مسلمان کے معمولات میں قرآن کریم کی تلاوت ہونی چاہیے۔ اور دن رات کی جو روٹین ورک ہے، معمولات میں قرآن کریم کی تلاوت کا کوئی نہ کوئی معمول ہونا چاہیے۔
(۲) دوسری بات یہ فرمائی قرآن کریم نے ’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘۔ قرآن کریم کو ترتیل سے، صحیح تلفظ کے ساتھ، صحیح لہجے میں پڑھا کرو۔ یہ ضروری ہے۔ ہر زبان میں ضروری ہوتا ہے کہ زبان کو صحیح تلفظ کے ساتھ، صحیح لہجے میں بولا جائے۔ کسی بھی زبان کا کوئی لفظ اگر صحیح تلفظ سے نہیں بولا جاتا تو معنٰی بگڑ جاتا ہے۔ ایک دفعہ میں تقریر کر رہا تھا تو ایک نوجوان کچھ لکھ رہا تھا، میں نے پوچھا بیٹا کیا کر رہے ہو؟ کہتا ہے آپ کی تقریر کے نوٹس (Notice ) لے رہا ہوں۔ میں نے کہابیٹا ’’نوٹس لینا‘‘ تمہارا کام نہیں، یہ تھانے والوں کا کام ہے، نوٹس (Notes) لینے ہیں تو لے لو۔ ایک لفظ کے صرف تلفظ بگڑنے سے معنٰی کہاں سے کہاں جا پہنچا۔ تو یہ سیکھے بغیر نہیں ہوتا، انگریزی کے الفاظ اسپیلنگز سیکھے بغیر ہم نہیں بول سکتے، اردو میں سیکھنا پڑتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی سیکھنا پڑتا ہے، سیکھے بغیر قرآن کریم صحیح نہیں پڑھا جاتا۔ اور ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا کہ دوسری کسی زبان میں، اردو میں، پنجابی میں، پشتو میں، انگلش میں، فارسی میں کوئی لفظ غلط بولیں تو معنٰی بدلتا ہے،لیکن قرآن کریم میں صرف معنٰی نہیں بدلتا، قرآن کریم میں اگر معنٰی بدل جائے تو بسا اوقات ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ورتل القراٰن ترتیلاً۔
(۳) قرآن کریم کا تیسرا تقاضا یہ ہے، اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ’’بل ھو اٰیات بینات فی صدور الذین اوتوا العلم‘‘۔ قرآن کریم اللہ کی آیات ہیں، اہل علم کے سینوں میں ہوتی ہیں۔ یہاں شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ نے ایک جملہ لکھا ہے کہ قرآن کریم کی اصل جگہ سینہ ہے، کتابت امر زائد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں تو یاد ہونا چاہیے، کتابت تو ہماری ضرورت ہے کہ یاد نہ ہو تو لکھا ہوا پڑھ لو۔ تو یہ سینے کے اندر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم پورا یاد ہو جو سب سے بہتر ہے۔ نہیں تو کم از کم کچھ نہ کچھ تو یاد ہو۔ اتنا کہ، میں اس کی مقدار عرض کیا کرتا ہوں، اتنا کم از کم ضرور یاد ہونا چاہیے ہر مسلمان مرد اور عورت کو کہ پانچ وقت کی نماز فجر سے عشاء، فرائض، سنتیں اور واجبات وغیرہ پڑھ سکے، اور ان میں جو قراءت کرنی ہے وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کر سکے، اتنا تو کم از کم ضرور یاد ہونا چاہیے۔
(۴) چوتھی بات قرآن کریم نے یہ فرمائی ہے ’’حتٰی تعلموا ما تقولون‘‘۔ جو کہہ رہے ہو تمہیں سمجھ بھی آ رہا ہو۔ یہ قرآن کریم ہی کے بارے میں ہے اور قرآن کریم ہی کا جملہ ہے کہ جو تم زبان سے بول رہے ہو تمہیں سمجھ بھی آ رہا ہو۔ قرآن کریم سمجھ کر پڑھنا یہ قرآن کریم کا تقاضا ہے۔ قرآن کریم سمجھ کر پڑھنا، یہ عام آدمی کی ذمہ داری ہے، اور قرآن کریم کو سمجھا کر پڑھانا یہ علماء کی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم کے ساتھ ایک مسلمان کا فہم کا تعلق اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ وہ جو پڑھ رہا ہو اسے سمجھ میں آ رہا ہو۔ ویسے بھی کامن سینس کی بات ہے کہ اللہ کا کلام ہے، اللہ کا پیغام ہے، میرے لیے ہے، اللہ مجھے پیغام دے رہا ہے تو مجھے سمجھنا چاہیے۔ پیغام کو قبول کرنا، عمل کرنا بعد کی بات ہوتی ہے، سب سے پہلا حق ہوتا ہے کہ اس کو سمجھا جائے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہماری عجیب حالت ہے، ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی ہم سے باتیں کرتا ہے، لیکن ہم سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے۔ نماز میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ سے باتیں کر رہے ہیں، اور وہ بھی ہم سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اللہ کیا کہتا ہے، مجھے کچھ پتہ نہیں۔ میں اللہ سے کیا باتیں کر رہا ہوں، مجھے کچھ پتہ نہیں۔ تو قرآن کریم کا تقاضا یہ ہے کہ سمجھ کر پڑھو جو بھی پڑھ رہے ہو۔
(۵) قرآن کریم کا ایک تقاضا اور ہے جو اللہ رب العزت نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ’’انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس‘‘۔ ہم نے آپ پر کتاب اتاری ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان حکم کریں، فیصلے کریں، یہ قرآن کریم حکم کی کتاب ہے، فیصلوں کی کتاب ہے۔ ہم نے کوئی رہنمائی لینی ہے تو قرآن سے لیں گے، اور کسی معاملے میں فیصلے کی کوئی بات الجھ گئی ہے تو قرآن کریم سے پوچھیں گے۔ قرآن کریم حکم، قانون، ضابطہ، فیصلہ کی کتاب ہے، یہ تو ہم نے بالکل ہی نظر انداز کر رکھا ہے۔ ہمارے گھریلو، خاندانی، معاشرتی، تجارتی، سیاسی، قانونی، اجتماعی معاملات میں قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کی جائے، قرآن کریم ہمارے درمیان میں پڑا ہو، اور ہم اپنے مسائل کو قرآن کریم کھول کر حل کریں، اور قرآن کریم کو جاننے والے ہمارے مسائل کے فیصلے کر رہے ہوں۔ یہ قرآن کریم کا تقاضا ہے، آج کل ہماری اس پر توجہ نہیں ہے۔
یہ دو تین تقاضے قرآن کریم کے میں نے عرض کیے ہیں، اللہ تعالٰی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس میں اپنا اپنا حصہ کچھ نہ کچھ ادا کر سکیں۔