گزشتہ روز مسلم ٹاؤن لاہور میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے دفتر میں ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن آف پاکستان کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس تھا۔ یہ فاؤنڈیشن چند ہم خیال دوستوں نے انسانی حقوق کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات و احکام کو اجاگر کرنے اور انسانی حقوق کے نام پر اسلام اور پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے والی این جی اوز کو بے نقاب کرنے کے لیے چند ماہ قبل قائم کی تھی۔ اس کے چیئرمین لاہور ہائی کورٹ کے وکیل چوہدری محمد ظفر اقبال ایڈووکیٹ اور سیکرٹری جنرل سیالکوٹ کے پروفیسر شجاعت علی مجاہد ہیں۔ اول الذکر کا تعلق احرار سے ہے اور ثانی الذکر بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں تحریک ختم نبوت کے سرگرم کارکنوں میں سے ہیں۔ جبکہ ان کے علاوہ دیگر عہدے داروں اور مرکزی کمیٹی کے ارکان میں لاہور سے میاں اویس احمد، جناب سیف اللہ خالد اور گلزار احمد ایڈووکیٹ، چیچہ وطنی سے عبد اللطیف خالد چیمہ، خوشاب سے جناب عبد الرشید ارشد، اور پتوکی سے خالد لطیف گھمن کے علاوہ گوجرانوالہ سے راقم الحروف کے نام بھی شامل ہیں۔ فاؤنڈیشن کا دفتر ۱۳ فین روڈ لاہور میں یکم اکتوبر سے باقاعدہ کام کا آغاز کررہا ہے۔
اجلاس کے دوران جناب حامد میر کا وہ کالم بھی زیر بحث آیا جو اسی دن روزنامہ اوصاف میں چھپا تھا جس میں انہوں نے قادیانی حلقے کی اس پیشکش کا ذکر کیا ہے کہ اگر پاکستان کی قومی اسمبلی انہیں غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کر لے تو پاکستان کے ذمہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ احباب نے حامد میر کی دینی حمیت پر مسرت کا اظہار کیا، ایک دوست نے کہا کہ یہ تائید غیبی ہے کہ قومی صحافت میں حامد میر نے حق اور اہل حق کی ترجمانی کا پرچم بلند کر رکھا ہے اور پورے حوصلہ و استقامت کے ساتھ اسے بلند تر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس پر راقم الحروف نے عرض کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ہے کہ وہ ہر دور میں اس زمانے کی ضروریات کے مطابق ہر شعبہ میں حق کی نمائندگی کے لیے کسی نہ کسی شخص کو کھڑا کر دیتے ہیں۔ ہماری قومی صحافت کی تاریخ اس حوالہ سے مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، اور شورش کاشمیریؒ جیسے اصحاب عزیمت کے روشن کارناموں سے مزین ہے۔
مولانا محمد علی جوہرؒ کا ’’کامریڈ‘‘ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کا ’’الہلال‘‘ ایک دور میں ہماری ملی امنگوں اور جذبات کی علامت ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں ملی حمیت کا جذبہ بیدار رکھنے اور انہیں عالمی استعمار کی سازشوں سے خبردار کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ انہوں نے ملت اسلامیہ کو داخلی محاذ پر درپیش فتنوں کی طرف رخ نہیں کیا اور اپنی تمام تر توجہ خارجی محاذ پر مرکوز رکھی۔ مگر مولانا ظفر علی خانؒ اور شورش کاشمیریؒ نے داخلی محاذ پر بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ قادیانیت کے فتنہ کو بے نقاب کرنے میں ’’زمیندار‘‘ اور ’’چٹان‘‘ کی خدمات سے کون ناواقف ہے؟ اور پھر آغا شورش کاشمیری مرحوم کی یہ جدوجہد ہماری فکری تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کہ انہوں نے علامہ محمد اقبالؒ کے فکر و فلسفہ کو دین بے زار دانشوروں کا یرغمال بننے سے بچایا اور تحریک آزادی کے مجاہدین کی کردار کشی کرنے والوں کے سامنے خود ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے۔
مولانا ظفر علی خانؒ کا تعلق میرے علاقے سے ہے۔ میری پیدائش گکھڑ کی ہے جبکہ مولانا مرحوم کا گاؤں ’’کرم آباد‘‘ وزیرآباد سے دو میل کے فاصلے پر ہے۔ مگر میں نے انہیں دیکھا نہیں صرف پڑھا ہے اور ایک زمانے میں بہت پڑھا ہے۔ البتہ شورش کاشمیری مرحوم کو دیکھا بھی ہے، سنا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے۔ ان کے ساتھ تحریک ختم نبوت کے کئی مراحل میں شرکت کا موقع بھی ملا ہے اور ان کے جلوسوں میں بازو لہرا لہرا کر نعرے بھی لگائے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی آج زندہ ہوتا تو وہی کچھ لکھتا جو حامد میر لکھ رہے ہیں اور وہی کچھ کرتا جو حامد میر کر رہے ہیں۔
آج جبکہ عالمی استعمار اور مجاہدین اسلام کے درمیان تاریخی معرکہ کے آخری راؤنڈ کا بگل بج چکا ہے اور امریکہ کی قیادت میں پوری دنیائے کفر بوریہ نشین اور حریت پسند ملاؤں کو صفحہ ہستی سےمٹانے کے لیے کیل کانٹوں سے لیس ہو کر میدان جنگ میں اتری ہوئی ہے، میرے جیسے نظریاتی کارکنوں کو ایک عدد ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کا انتظار تھا جو قافلہ حق کا حدی خواں ہو اور باطل کو انہی کے بے لچک لہجے میں للکارے۔ یوں لگتا ہے کہ حامد میر کی صورت میں ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے صحافتی کردار کا تسلسل ایک بار پھر قائم ہو رہا ہے اور میں اس کے لیے بارگاہ ایزدی میں سراپا تشکر ہو کر حامد میر کی ثابت قدمی اور استقامت کے لیے دعاگو ہوں، آمین یا رب العالمین۔