بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہماری آج کی نشست کا موضوع ہے ”دینی جدوجہد کی معروضی صورتحال“ اس وقت دینی جدوجہد کن کن دائروں میں تقسیم ہے اور ہر دائرے میں اس کی صورتحال کیا ہے، پاکستان کے دائرے میں، دنیا کا دائرہ تو بہت وسیع ہے۔ اپنے ملک کے دائرے میں دینی جدوجہد کی موجودہ صورتحال کیا ہے، صرف صورتحال کو سمجھنے کے لیے ایک سرسری سی بریفنگ۔
پہلے تھوڑا سا اس پر نظر ڈال لیں کہ دینی جدوجہد کے دائرے کیا ہیں، اس کے لیول اور اس کے شعبے کون کونسے ہیں؟
دینی جدوجہد کے حوالے سے سب سے پہلی بات ترتیب میں یہ آتی ہے کہ بحیثیت امت ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہمارے ساتھ ملک میں جو غیر مسلم رہتے ہیں ان کے لیے دین کی دعوت کا ہمارے پاس کوئی نظام موجود ہونا چاہیے۔ کیا کوئی ایسا نظام یا ترتیب موجود ہے یا نہیں۔ ہمارے پڑوس میں اردگرد عیسائی، ہندو، سکھ اور یہودی رہتے ہیں، بحیثیت انسان ان کا یہ حق ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارا یہ فرض ہے کہ ان تک دین کی بات پہنچائیں۔ میں نے دو جملے عرض کیے ہیں کہ بحیثیت انسان ان کا ہم پر حق ہے اور بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ کم از کم اپنے ملک میں اپنے اردگرد رہنے والے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیں، بات پہنچائیں اور سمجھائیں۔ بالخصوص اس ماحول میں کہ ہمارے مقابلے پر اس ملک میں محنت موجود ہے، جو ہمارے مسلمان بھائیوں کو غیر مسلم بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ دو مورچے موجود ہیں، سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے ہمارا کوئی مورچہ ہے یا نہیں؟
عیسائی مشنریاں سینکڑوں کی تعداد میں گوجرانوالہ اور لاہور سمیت پورے ملک میں ہیں، مسلمانوں کو عیسائیت کی دعوت دینے کے لیے عالمی سرپرستی میں پورا نیٹ ورک ہے، کیتھولک کا اپنا ہے اور پروٹسٹنٹ کا اپنا ہے اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ان کے اٹھارہ ریڈیو اسٹیشن اس وقت عیسائیت کی تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔ تبشیر کے نام سے وہ اپنے مبلغین بھیجتے ہیں، لٹریچر تقسیم کرتے ہیں اور پورا وسیع نیٹ ورک ہے جو پورے ملک میں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ میں اس سے اگلی بات اشارتاً کرتا ہوں کہ ان کا ٹارگٹ یہ ہے کہ ۲۰۲۵ء تک پاکستان میں سے ایک عیسائی ریاست انہوں نے الگ کرنی ہے۔ باقاعدہ پروگرام چھپا ہوا ہے، ریکارڈ پر ہے۔ جیسے انہوں نے انڈونیشیا میں سے مشرقی تیمور نکالا ہے اور سوڈان کو تقسیم کروا کے جنوبی سوڈان عیسائی ریاست بنوائی ہے، ویسے ہی ان کا پروگرام یہ ہے اور اس کے لیے انہوں نے بات اخفا میں نہیں رکھی، بلکہ حدود بھی مقرر کر دی ہیں کہ خانیوال سے سیالکوٹ تک عیسائی ریاست بنے گی اور ہیڈ کوارٹر بھی بتایا ہے کہ اس کا دارالحکومت گوجرانوالہ ہوگا۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کو غیر مسلم بنانے کا ایک یہ مورچہ کام کر رہا ہے اور دوسرا قادیانی مستقل کام کر رہے ہیں، یونیورسٹیوں میں، کالجوں میں اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو قادیانی بنانے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔
یہ دو مورچے تو ہمارے سامنے ہیں، لیکن ہمارا کوئی مورچہ ایسا نہیں ہے کہ ہم غیر مسلموں کو، عیسائیوں، سکھوں، یہودیوں اور قادیانیوں کو مسلمان بنانے کے لیے دعوت کے انداز میں محنت کر رہے ہوں۔ مقابلے کی محنتیں تو ہمارے ہاں بہت ہیں، لیکن دعوت کے انداز کی محنت نہیں ہے۔ دعوت کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے، اپنا ایک میدان ہوتا ہے۔ جس طرح عیسائیوں کے مشنری ادارے دعوت کے انداز میں کام کرتے ہیں، اس طرح ہمارا دعوت کے انداز کا کوئی ادارہ سرکاری یا غیر سرکاری پاکستان میں میرے علم میں نہیں ہے، جو مشنری طور پر دعوت کے طور پر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے منظم کام کر رہا ہو۔ افراد کام کر رہے ہیں ٹھیک ہے، لیکن کوئی ادارہ نہیں ہے۔
دینی جدوجہد کا پہلا دائرہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو عیسائیت قبول کرنے کی دعوت کا جس طرح عیسائیوں کا مشنری اداروں کا نیٹ ورک ہے، جس طرح قادیانیوں کا مسلمان نوجوانوں کو ورغلانے کا نیٹ ورک ہے، ہمارا غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں لانے کا کوئی انتظام موجود ہونا چاہیے۔
دینی جدوجہد کا دوسرا دائرہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں الحمدللہ، اکثریت میں ہیں، بتایا جاتا ہے کہ ستانوے فیصد مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق قائم رہے، یہ اصلاً تو ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن وہ توقع ہی فضول ہے۔ لیکن عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق قائم ہو اور عام مسلمان دین کے ماحول میں واپس آئے۔ اس میدان میں ہمارا کام کیا ہے؟ چار مورچے ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔
(۱) تبلیغی جماعت اپنے انداز میں کام کر رہی ہے۔ ان کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ مسلمان کا مسجد اور دین سے تعلق ہو اور دین کا ماحول واپس آ جائے۔ یہ اپنے دائرے میں بڑا وسیع کام ہے اور ہر سطح پر ہو رہا ہے۔
(۲) دینی مدارس ہیں جو قرآن پاک کی تعلیم بنیادی بھی، اعلیٰ بھی اور درمیانی بھی دے رہے ہیں، نورانی قاعدے سے لے کر تخصص فی الحدیث تک مختلف دائروں میں کام کر رہے ہیں اور جو لوگ ان کے دائرے میں آتے ہیں دینی مدارس کی تعلیم کے دائرے میں یا دینی مدارس سے متعلقہ سکولوں اور دیگر اداروں کے دائرے میں، ان کو دین سے وابستہ کرنا، دین پڑھانا یہ دینی مدارس کا مستقل دائرہ اور نیٹ ورک ہے جو عام مسلمان کا دین کے ساتھ، قرآن کے ساتھ اور حدیث و سنت کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
(۳) ہمارا مساجد کا نظام ہے۔ مسجدیں تقریباً ہر جگہ موجود ہیں جہاں اذان ہوتی ہے، نماز ہوتی ہے، رمضان کی رونقیں ہوتی ہیں اور کبھی جلسے اور تقریبات ہوتی ہیں تو لوگ اس بہانے سے مسجد میں آ جاتے ہیں۔ جس سے عام آدمی کا مسجد اور دین کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلق جڑا رہتا ہے۔ جس طرح تبلیغی جماعت عام مسلمان کا مسجد اور دین کے ساتھ جوڑ قائم رکھنے کا بڑا سبب ہے، جس طرح مدارس عام آدمی کا دین اور دین کی تعلیم کے ساتھ تعلق رکھنے کا ایک بڑا سبب ہیں اسی طرح مساجد بھی بہت بڑا سبب ہیں اور شاید اپنی وسعت کے اعتبار سے یہ بڑا سبب ہے کہ اس سے عام آدمی کا دین سے جوڑ قائم رہتا ہے اور آدمی مسجد مانوس ہوتا ہے۔
(۴) چوتھے نمبر پر ہمارا خانقاہی نظام اپنے اپنے دائرے میں یہ کام کر رہا ہے۔ کوئی آدمی کسی پیر سے، کسی بزرگ سے متاثر ہو کر اس سے جڑ جاتا ہے، اس کے در سے وابستہ ہوتا ہے تو اپنے ذہن میں بنیادی طور پر دین سے ہی وابستہ ہوتا ہے، آگے پیر صاحب کی مرضی ہے جدھر مرضی لے جائیں، لیکن آدمی کسی دینی شخصیت سے، کسی بزرگ کی بزرگی سے متاثر ہو کر اس سے جڑتا ہے تو وہ دین کے اعمال کی طرف واپس آتا ہے۔
دینی جدوجہد کا دوسرا دائرہ میں نے بیان کیا ہے کہ عام آدمی کا دین کے ساتھ تعلق قائم رہے۔ اس کے لیے یہ چار ذرائع ہیں جو عام آبادی کا دین کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے اس وقت کام کر رہے ہیں اور ہمارے سامنے موجود ہیں۔
تیسرے نمبر پر اگلا مرحلہ آ جاتا ہے اصلاح کا۔ عقائد کی اصلاح اور رسوم و بدعات کی اصلاح۔ عام آدمی کو دین کے ساتھ جوڑنا مستقل کام ہے اور جوڑنے کے بعد اس کی اصلاح کی طرف توجہ دینا مستقل دائرہ ہے۔ عقائد کی اصلاح، عقائد کی غلط تعبیر و تشریح کی اصلاح، معاشرے کے رسوم و رواجات کی اصلاح اور عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی اصلاح دینی جدوجہد کا تیسرا محاذ ہے۔ اس محاذ پر کام ہو رہا ہے، لیکن بطور ادارے کے نہیں ہو رہا۔ اس میں صرف ایک شعبہ بطور ادارے کے کام کر رہا ہے۔ عقیدے کی خرابی کا جو سب سے بڑا میدان اور سب سے بڑا لیول ہے وہ عقیدہ ختم نبوت کا انکار ہے۔ اس محاذ پر کئی جماعتیں بطور ادارہ کے کام کر رہی ہیں، مثلاً مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار اسلام، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ۔ مسلکی دائرے میں ہمارے یہ تین بڑے ادارے ختم نبوت کے محاذ پر ایک عام مسلمان کو قادیانیت کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے، اس کا عقیدہ صحیح رکھنے کے لیے اور عقیدہ ختم نبوت کے تقاضوں کو واضح کرنے کے لیے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ مسلک سے باہر دوسرے مسالک کے ادارے بھی اس محاذ پر کام کر رہے ہیں۔
اس کے بعد عقائد کی اصلاح کے میدان کا ایک دائرہ اور ہے، جو ہمارے ہاں شروع سے حضرت مجدد الف ثانیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کے دور سے ہی چلا آ رہا ہے۔ وہ ہے اہل سنت والجماعت کے عقائد کا تحفظ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع۔ یہ مستقل محاذ ہے جو ہر دور میں رہا ہے، آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی جدوجہد کو دیکھیں تو اس میں یہ بڑا پہلو دکھائی دے گا اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خاندان نے بھی اس پر مستقل کام کیا ہے اور پھر آگے روایت چلی آ رہی ہے، حضرت گنگوہیؒ، حضرت نانوتویؒ، مولانا عبدالشکور لکھنویؒ ایک تسلسل چلا آ رہا ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں ایک اہل سنت والجماعت کے عقائد کی وضاحت، تحفظ اور اعتراضات کا جواب اور دوسرا حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزت و ناموس کا تحفظ اور ان کے بارے میں پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات کا جواب اور ان کا دفاع۔ یہ بھی ایک مستقل محاذ ہے اور اس پر بھی مختلف جماعتیں کام کرتی آ رہی ہیں۔
اس کے بعد اہل سنت کے دائرے سے نیچے ایک ہمارا حنفیت کے دفاع کا محاذ ہے۔ اس میں بھی کچھ ادارے اور کچھ شخصیات کسی نہ کسی درجے میں کام کر رہے ہیں۔ اس کے بعد مسلکی دائرہ ہے، مسلک علمائے دیوبند کا تحفظ، اس میں بھی کچھ ادارے اور کچھ شخصیات کام کر رہی ہیں۔ اگرچہ میں اگلی بات نہیں کروں گا کہ ہونا کیا چاہیے، ابھی صرف اتنا بتا رہا ہوں کہ ہو کیا رہا ہے۔
میں نے کہا کہ پہلے محاذ پر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے شعبے میں کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ عام آدمی کے دین کے ساتھ تعلق جوڑنے کے میدان میں مساجد، مدارس کام کر رہے ہیں، تبلیغی جماعت بطور کمپین اور مہم کے کام کر رہی ہے اور پیران کرام بھی بہرحال اس کا ذریعہ ہیں۔ اس کے بعد عقائد کی اصلاح میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے میدان میں جماعتیں کام کر رہی ہوں اور اہل سنت والجماعت کے عقائد کے تحفظ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دفاع اور ان کے ناموس کی سربلندی کے محاذ پر بھی کام ہو رہا ہے۔ میں نے دینی جدوجہد کے چند دائروں کا ذکر کیا ہے کہ یہ اس کے چار پانچ بڑے محاذ ہیں۔ کہیں کام ہو رہا ہے، کہیں نہیں ہو رہا، کہیں منظم کام ہو رہا ہے کہیں غیر منظم ہو رہا ہے، لیکن میں نے یہ واضح کیا ہے کہ دینی جدوجہد کے دائرے کون کونسے ہیں۔
یہ سارے دینی جدوجہد کے دائرے ہیں، لیکن ان سے ہٹ کر دینی جدوجہد کا ایک بہت بڑا دائرہ اور ہے، وہ ہے پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بنانے اور ملک میں نفاذِ اسلام اور نفاذِ شریعت کا دائرہ۔ چونکہ پاکستان کے مقاصد میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ اسلامی ریاست ہو گی اور پاکستان کے بانیان کے واضح بیانات پاکستان بننے سے پہلے بھی اور پاکستان بننے کے بعد بھی موجود ہیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہاں اسلامی نظام کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے فہم کے مطابق اس کو تجربہ گاہ کہتے تھے، جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلامی ریاست کی تشکیل، قرآن و سنت کے احکام کا نفاذ اور ایک اسلامی مذہبی معاشرہ وجود میں آئے۔ دینی جدوجہد کا ایک بہت بڑا میدان یہ بھی ہے، اس پر بھی جماعتیں کام کر رہی ہیں، لیکن میں اس کی تھوڑی سی صورتحال واضح کرنا چاہوں گا۔
ایک وقت تک ہم اس ملک میں پیش قدمی کی پوزیشن میں رہے ہیں، پھر اس کے بعد مسلسل پسپائی شروع ہو گئی اور ہم دفاع کی پوزیشن میں آ گئے۔ اب ہم دفاع کی پوزیشن میں ہیں کہ جتنا کام ہم کر چکے ہیں اس کو بچا لیں۔ اس وقت ہم اس پوزیشن میں کھڑے ہیں کہ جو تھوڑا بہت کام ہمارے بڑوں کے کرنے سے ہو گیا تھا اس کو کسی طریقے سے ہم بچا لیں اور مزید پیش قدمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ میں کچھ تاریخ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم نے پیش قدمی کہاں کہاں کی ہے، پھر بریک کہاں لگی ہے اور اب کہاں کھڑے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد پہلا بڑا نازک مرحلہ تھا جو اب پھر ہو گیا ہے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں بڑی شدومد سے یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ پاکستان کو اسلامی ریاست ہونا چاہیے یا سیکولر ریاست۔ ایک طویل بحث کے بعد قرارداد مقاصد کی صورت میں یہ بات طے ہو گئی کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریاست ہی رہے گا۔ دستور کی بنیادیں طے کی گئیں کہ پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ، حاکمیت مطلقہ اللہ تعالیٰ کی ہو گی، حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہو گا اور حکومت اپنی پالیسیوں میں اور قانون سازی میں آزاد نہیں ہوگی بلکہ قرآن و سنت کی پابند ہو گی۔ قرارداد مقاصد ان تین اصولوں کا نام ہے۔ یہ آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کی بڑی معقول بنیادیں تھیں جو ہم نے طے کر لیں۔
اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ یہ پیش ہوا کہ پاکستان میں اسلام کس کا؟ یہاں تو فرقے ہیں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، شیعہ، سنی۔ ایک بنیادی جھگڑا یہ کھڑا کیا گیا کہ کس کا اسلام؟ اس چیلنج کے جواب میں ۱۹۵۱ء میں تمام مکاتب فکر کے اکتیس اکابر علماء اکٹھے مل کر بیٹھے اور انہوں نے کہا کہ نفاذ اسلام کے مسائل میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بائیس دستوری نکات طے کیے کہ ہمارا دستوری ڈھانچہ یہ ہے، اس پر ہم سب متفق ہیں۔ ہمارا اور مسائل میں اختلاف ہے، لیکن نفاذ اسلام سے متعلقہ مسائل پر ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اکتیس علماء نے دستخط کر کے وہ منہ بند کر دیا اور منہ بند ہو گیا۔
ہمارے آپس کے جھگڑے اور مسئلوں میں ہیں، لیکن وہ مسئلے نافذ نہیں ہونے، جن مسئلوں نے نافذ ہونا ہے ان میں ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ سب سے بڑا جھگڑا تو شیعہ سنی کا ہے، ایک مجلس میں بات ہو رہی تھی تو میں نے کہا کہ نفاذ اسلام اور شرعی قوانین کے نفاذ میں میں نے بہت تلاش کیا ہے کہ ہمارا کہیں کوئی جھگڑا ہو، ایک مسئلہ پر مجھے اختلاف نظر آیا ہے کہ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے گا۔ شیعہ کا موقف ہے کہ انگلیاں کاٹیں گے اور ہمارا موقف ہے کہ ہاتھ کاٹیں گے، البتہ ہاتھ کاٹنے پر دونوں متفق ہیں۔ اس کے سوا نفاذ اسلام کے مسائل میں مجھے کوئی اختلاف نظر نہیں آیا۔ دیوبندی اور بریلوی حضرات کی تو فقہ ہی ایک ہے فقہ حنفی، لہٰذا عملی مسائل پر ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
۱۹۵۱ء میں تمام مکاتب فکر کے چوٹی کے علماء نے بائیس نکات طے کیے تھے کہ اس پر ہم سب متفق ہیں، لیکن وہ ساٹھ سال پہلے کی متفقہ دستاویز ہے اور ساٹھ سال میں حالات بدل جاتے ہیں۔ چنانچہ تین سال پہلے ۲۰۱۱ء میں ہم نے مشورہ کیا کہ ان بائیس نکات کی دوبارہ توثیق کروانی چاہیے۔ ہمارا ایک چھوٹا سا فورم ہے ”ملی مجلس شرعی“ کے نام سے، جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ سب ہیں۔ میں اس کا نائب صدر ہوں۔ اس میں دس بارہ آدمی ہیں، ہم متحرک نہیں ہیں، لیکن غیر متحرک بھی نہیں ہیں۔ ہمارا ایک ہی کام ہے کہ جس مسئلے پر جھگڑے کا خطرہ ہو کہ آپس میں جھگڑا نہ ہو جائے تو اس مسئلے پر مل بیٹھ کر ایک مشترکہ رائے دے دیتے ہیں اور جھگڑے کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارا بس اتنا ہی کام ہے۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان بائیس نکات کی دوبارہ توثیق کروانی چاہیے تو الحمدللہ ہم نے لاہور میں بہت بڑی کانفرنس کی۔ تمام مکاتب فکر کو لائے، کسی کو نہیں چھوڑا۔ تقریباً ایک سو کے لگ بھگ تمام مکاتب فکر کے سرکردہ اکابر علماء سے دوبارہ دستخط لیے اور دوبارہ اعلان کیا کہ ہم سب اکٹھے ہیں، ہمارا نفاذ اسلام میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ میں فکری محاذ پر اس کو ایک بڑی کامیابی سمجھتا ہوں، چنانچہ اب تک کسی کو یہ کہنے کا حوصلہ نہیں ہے کہ مولوی اسلام پر متفق نہیں ہیں۔ ہم کل بھی اکٹھے تھے، آج بھی اکٹھے ہیں، کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ الحمدللہ فکری محاذ پر یہ بہت بڑی پیشرفت اور بہت بڑی کامیابی ہے۔
اس کے بعد نفاذ اسلام میں ہمیں دوسری کامیابی تب حاصل ہوئی جب ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا، پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکے گی اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کے قوانین کو نافذ کرنے کی پابند ہوگی۔ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا یہ الگ بات ہے، لیکن اصولی قانون کے درجے کی بات یہ طے ہوئی کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کی پابند ہو گی۔ اس میں ہمارے بڑے بڑے علماء کرام مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مولانا شاہ احمد نورانیؒ جیسی بڑی بڑی شخصیات تھیں اور سب نے اپنا اپنا زور لگایا۔ مختصر سی اپوزیشن تھی، لیکن بالآخر کامیاب ہوئے اور یہ ہماری بہت بڑی پیشرفت تھی کہ ۱۹۷۳ء کے دستور کی بنیاد بہرحال یہی طے ہوئی کہ اسلام ریاستی مذہب ہوگا، قرآن و سنت کے قوانین نافذ ہوں گے اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں ہوگا۔ عملاً جو کچھ ہوا، سو ہوا، لیکن میں فکری اور دستوری پیش قدمیاں ذکر کر رہا ہوں۔
اس کے بعد جنرل ضیاء الحق مرحوم کا دور آیا تو کچھ کام انہوں نے بھی کیے۔ ہوا یوں کہ جب مارشل لاء آیا تو سپریم کورٹ نے مارشل لاء تسلیم کیا اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو اختیارات دے دیے کہ دستور میں جو چاہو ترمیم کر لو۔ ہمارے ہاں سپریم کورٹ ہمیشہ سے ایسے کرتی آ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے اختیار دینے پر ایوب خان، صدر ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف سب نے ترامیم کی ہیں۔ یہ ہمارا ریکارڈ ہے کہ مارشل لاء سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا، سپریم کورٹ نے جائز قرار دے دیا کہ ٹھیک ہے مجبوری تھی، حالات کا تقاضا تھا اور ساتھ یہ اختیار بھی دے دیا کہ اگر کوئی ردوبدل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ ہم جمہوری طور پر آئین میں ردوبدل کرنا چاہیں تو پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت چاہیے، لیکن مارشل لاء کے دور میں ایک آدمی کو آئین میں ترمیم کا اختیار دے دیا جاتا ہے۔
بہرحال مارشل لاء کے تحت جنرل ضیاء الحق مرحوم نے آئین میں کچھ ترامیم کیں۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے بھی کچھ باتیں کیں جو ہر آدمی کرتا ہی ہے، لیکن کچھ ترامیم ایسی ہیں جو ہمارے کام آ رہی ہیں۔ میں نے اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے آپ کو بتایا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل بھٹو کے دور میں قائم ہوئی تھی اور اس کا بنیادی کام اسلام کے خلاف قوانین کی نشاندہی، ان کی تبدیلی کے سفارش اور متبادل قوانین کی تشکیل کرنا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بہت کام کیا ہے، اس کا کام اگر دیکھا جائے تو ایمانداری سے کہتا ہوں کہ فی الواقع اتنا کام ہے کہ دنیا میں کہیں بھی اسلامی قانون سازی کے لیے بنیاد بن سکتا ہے۔ لیکن اس کی حیثیت سفارش کی ہوتی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل سفارش کر سکتی ہے، سفارش اسمبلی میں پیش ہو گی، وزارتِ قانون کی مرضی ہے کہ پیش کرے یا نہ کرے اور اسمبلی پاس کرے یا نہ کرے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی بہت وقیع اور بہت اچھی سفارشات موجود ہیں، اس لحاظ سے علمی فکری حوالے سے ہمارا کام تقریباً ننانوے فیصد مکمل ہے۔
بلکہ ایک لطیفہ بھی عرض کر دوں۔ اس مسئلے پر کراچی میں اے آر وائی نے چار سال پہلے ٹی وی چینل کا ایک پروگرام کروایا۔ سوال یہ تھا کہ آپ مولویوں کے پاس اسلام کے نفاذ کے لیے کوئی پیپر ورک، کوئی ہوم ورک، کوئی فکری بنیاد موجود بھی ہے یا ویسے نعرے لگا رہے ہیں؟ کیونکہ انقلاب کی بنیاد فکر پر ہوتی ہے، اس سے پہلے ہوم ورک ضروری ہوتا ہے، انقلاب ویسے نہیں آتا، تو سوال یہ تھا کہ آپ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کا کوئی ہوم ورک بھی ہے جس کی بنیاد پر آپ نفاذ اسلام کی بات کر رہے ہیں؟ پروگرام میں تین چار حضرات اور تھے، مجھے بھی بلایا ہوا تھا۔ جو ہمارے چینل پروگرام کرواتے ہیں اور مذاکرے کرواتے ہیں ان کی اپنی تکنیک ہوتی ہے۔ تکنیک یہ تھی کہ اینکر نے یہ سوال ایک ایسے صاحب سے مخاطب ہو کر کیا، جن کے بارے میں میں جانتا تھا کہ ان کا اس موضوع کا مطالعہ نہیں ہے اور جس کا کسی موضوع کا مطالعہ نہ ہو وہ الٹا سیدھا جواب دیتا ہے۔ میں جانتا تھا کہ ان صاحب سے کوئی بات نہیں بنے گی اور مجھ سے کوئی رسمی سا سوال کر کے یہ تاثر دیں گے کہ یہ بھی وہاں موجود تھا اور اس کو جواب نہیں آیا۔ یہ الزام میں اپنے سر لینے کو تیار نہیں تھا۔ میں تکنیک سمجھ رہا تھا کہ یہ کیا کر رہا ہے۔ مجھے ساتھ بٹھا کر ایک اور آدمی سے سوال کر کے اوٹ پٹانگ جواب دلوا کر پبلک کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ ساتھ یہ بیٹھا ہوا ہے اور کسی کو جواب نہیں آیا۔
جب اینکر نے ان صاحب سے یہ سوال کیا تو میں نے کہا کہ اس کا جواب میں دوں گا۔ میں بہرحال تحریک نفاذ شریعت کا پرانا کارکن ہوں، مجھے جانتے ہیں کہ یہ کون ہے تو اینکر کہنے لگا کہ نہیں مولانا! آپ سے میں نے کچھ اور سوال کرنا ہے۔ میں نے کہا نہیں، میں نے اس سوال کا جواب دینا ہے۔ اس نے کہا نہیں تو میں نے کہا میں اس سوال کا جواب دوں گا، ورنہ میں جا رہا ہوں۔ مجھے پتہ تھا کیا ہو رہا ہے اور یہ کیا کرنا چاہتا ہے، میں وہ نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں اڑ گیا اور کہا کہ اس سوال کا جواب میں دوں گا۔ اینکر نہیں نہیں کرتا رہا، مگر میں نے مائیک پکڑ لیا۔ لائیو پروگرام تھا، اس لیے وہ بھی زیادہ ضد نہیں کر سکا۔ چنانچہ میں نے دس پندرہ منٹ اس پر گفتگو کی کہ اسلاملائزیشن کے حوالے سے ہمارے پاس قرارداد مقاصد ہے، بائیس نکات ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ہیں اور فقہی کونسل کے فیصلے ہیں، ہمارے پاس ہزاروں صفحات پر مشتمل ہوم ورک ہے اور نفاذ اسلام کے حوالے سے ہمارا ہوم ورک اور پیپر ورک اتنا مکمل ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس حوالے سے ہم سے رہنمائی طلب کرے تو ہم اس کی رہنمائی کی پوزیشن میں ہیں۔
لیکن چونکہ اسلامی نظریاتی کونسل صرف سفارش کر سکتی ہے تو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں یہ طے ہوا کہ کوئی بااختیار ادارہ اور اتھارٹی بھی ہونی چاہیے جو آرڈر دے سکے کہ یہ قانون غلط ہے، اس کو ختم کرو۔ چنانچہ اس کے لیے وفاقی شرعی عدالت بنی۔ وفاقی شرعی عدالت ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ان کی آئین میں کی ہوئی ترامیم کے ذریعے بنی۔ وفاقی شرعی عدالت کے لیے اصول یہ طے ہوا کہ اس میں علماء بھی ہوں گے اور جج صاحبان بھی ہوں گے۔ وفاقی شرعی عدالت مشترکہ طور پر کسی قانون کا جائزہ لے گی اور اس کا تعین کرے گی کہ یہ قانون یا اس کی فلاں شق قرآن و سنت کے منافی ہے اور پھر آرڈر کرے گی کہ اس کو ختم کریں اور حکومت اس کو ختم کرنے کی پابند ہو گی۔
یہ اس سے آگے پیشرفت تھی۔ یوں سمجھ لیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی بااختیار شکل وفاقی شرعی عدالت ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بڑے بڑے اچھے فیصلے کیے ہیں، کچھ نافذ بھی ہوئے، لیکن ایک بنیادی فیصلے کا حوالہ دوں گا کہ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا کہ سودی قوانین غیر شرعی، غیر قانونی ہیں، انہیں ختم کریں۔ آرڈر دے دیا، لیکن وہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گیا۔ بالآخر سپریم کورٹ نے بھی متفقہ فیصلہ دے دیا کہ وفاقی شرعی عدالت ٹھیک کہہ رہی ہے اور یہ تمام قوانین غیر شرعی، غیر اسلامی ہیں اور قرآن و سنت اور دستور کے منافی ہیں۔ لیکن نظر ثانی کی اپیل میں اس کو پھر ڈیڈ لاک لگ گیا اور وہ فیصلہ معطل ہو گیا، لیکن بہرحال یہ ایک پیشرفت تھی۔
وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل اور قرارداد مقاصد کو دستور کا باقاعدہ حصہ بنانا یہ ضیاء الحق مرحوم کی دستوری ترمیم کے بنیادی کام ہیں، جو پیشرفت شمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ حدود آرڈیننس نافذ کیے اور اسی دور میں ناموس رسالت کے تحفظ کا قانون بھی اسمبلی نے پاس کیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور تک ہم پیشرفت کی پوزیشن میں تھے، اس کے بعد سے اب تک ہم مسلسل دفاع کی پوزیشن میں ہیں کہ کبھی ختم نبوت والا قانون چیلنج ہو جاتا ہے تو ہم اس کے دفاع میں لگ جاتے ہیں، کبھی ناموس رسالت کے تحفظ کا قانون چیلنج ہو جاتا ہے تو ہم اس کے دفاع میں لگ جاتے ہیں اور کبھی قرارداد مقاصد پر چیلنج ہو جاتا ہے تو ہم اس کے دفاع میں لگ جاتے ہیں۔ کہیں دفاع کر پاتے ہیں اور کہیں نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ میں تقریباً پچاس سال سے عملاً اس فیلڈ میں ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ اصل میں دو قوتیں ہمارے ہاں رہی ہیں۔
(۱) ایک قوت ہمارے پاس یہ رہی ہے کہ ہم نے جب بھی جس مسئلے پر تمام مکاتب فکر نے متحد ہو کر کسی مشترکہ فورم سے بات کی ہے تو ہمیں کبھی ناکامی نہیں ہوئی۔ یہ ہماری قوت ہے اور یہ قوت اگر آج ہم استعمال کریں تو آج بھی ہے۔
(۲) ہماری دوسری قوت ہمیشہ سٹریٹ پاور رہی ہے یعنی پرامن احتجاجی تحریک۔ پاکستان میں احتجاجی تحریک کے امام نوابزادہ نصر اللہ خانؒ تھے۔ نصف صدی میں تحریکات کے پیچھے ان کا ہاتھ ہوتا تھا کہ تحریک کیسے ہوتی ہے، کیسے اٹھائی جاتی ہے، کیسے چلائی جاتی ہے، سٹریٹ پاور کیسے بنائی جاتی ہے اور کیسے منظم کی جاتی ہے۔ میں تحریکات کے حوالے سے نوابزادہ نصر اللہ خان کا شاگرد ہوں۔ میں نے ان کے ساتھ تیس سال کام کیا ہے۔ لیکن آج ہم اس محاذ پر سٹریٹ پاور کو کھو چکے ہیں۔ میرا اپنے دینی سیاست کے قائدین سے یہ اختلاف رہتا ہے کہ ہم نے پارلیمانی سیاست پر انحصار کر لیا ہے اور سٹریٹ پاور ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔
ہم آج اگر گوجرانوالہ میں کوئی احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہیں تو سوائے مدرسے کے طلباء کے کوئی نہیں ہوگا اور مدرسے کے طلباء بھی سارے نہیں ہوں گے، مدرسے کے مہتمم صاحب کا جی چاہے گا تو ہوں گے ورنہ نہیں ہوں گے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ہم نے لاکھوں کے جلوس کی قیادت کی ہے، آواز دی ہے تو سب لوگ آئے ہیں، لیکن اب ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس کے اسباب میں یہ دو بڑے سبب ہیں کہ اس درجے کی ہماری اوپر کی سطح پر وحدت نہیں ہے اور نیچے ہمارے پاس سٹریٹ پاور نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے آج ہم دفاع کی پوزیشن میں کھڑے ہیں، کبھی دفاع کر لیتے ہیں اور کبھی نہیں کر سکتے۔
یہ میں نے معروضی صورتحال پیش کی ہے، میں نے اسباب و نتائج کا تجزیہ نہیں کیا۔ صرف یہ ذکر کیا ہے کہ اس وقت ہم دینی جدوجہد کے حوالے سے کس کس شعبے میں کہاں کہاں کھڑے ہیں۔ آگے کیا کرنا چاہیے یہ پھر کسی کو موقع پر ان شاءاللہ العزیز۔