مولانا علی احمد جامیؒ

   
۲۰ جنوری ۲۰۰۶ء

مولانا علی احمد جامیؒ کھیالی گوجرانوالہ کے رہائشی تھے اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے طالب علمی کے دور سے میرے ساتھی تھے۔ انہوں نے ساری زندگی دینی جدوجہد میں گزاری، جمعیۃ علمائے اسلام (س) کے ضلعی امیر تھے، اور اب صاحبزادہ پیر عبد الرحیم نقشبندی نے صوبائی امارت کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا مگر مسلسل علالت کی وجہ سے وہ کسی عملی ذمہ داری کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ متحدہ مجلس عمل ضلع گوجرانوالہ کے صدر رہے اور تحریک ختم نبوت میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا۔ گوجرانوالہ سے شیخوپورہ جاتے ہوئے تتلے عالی کے مقام پر قادیانیوں نےاب سے ربع صدی قبل اپنا مرکز قائم کرنا چاہا۔ مولانا علی احمد جامی اس دور میں وہاں کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھانے جایا کرتے تھے، انہوں نے قادیانیوں کے اس پروگرام کی مزاحمت کا فیصلہ کیا اور اردگرد کے علماء کرام اور احباب کے تعاون سے احتجاج کی ایسی صورت پیدا کر دی کہ قادیانی اپنے پروگرام کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ بلکہ اس کے رد عمل میں وہاں تین ایکڑ زمین خرید کر دینی ادارہ قائم کیا گیا جو مدرسہ فیض الاسلام کے نام سے کام کر رہا ہے۔ مولانا علی احمد جامی اس کے پہلے محرک تھے اور انہوں نے اس کے لیے شب روز محنت کی لیکن بعد میں باہمی اختلافات کی وجہ سے ان کے دوسرے رفقاء نے اس کا نظم سنبھال لیا۔

مولانا جامی مرحوم نے تحریک نظام مصطفٰیؐ میں بھی فعال کردار ادا کیا اور متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ خوش الحان واعظ اور بے باک خطیب تھے۔ انتھک سیاسی کارکن تھے اور دینی معاملات میں غیرت و حمیت سے بہرہ ور رہنما تھے۔ ان کا ایک بیٹا محمد اکمل جامی اس سالہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث میں شریک ہے اور کنگنی والا کے قریب ان کی تعمیر کردہ مسجد میں خطابت کے فرائض بھی سرانجام دے رہا ہے۔ عید سے دو روز قبل ان کے انتقال کی خبر مجھے جھنگ میں ملی، بہت کوشش کے باوجود جنازہ میں شریک نہ ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور متوسلین کو صبر جمیل کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter