اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اشاعت کے اسباب خود پیدا کرتا ہے

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کی تاریخ کا سب سے زیادہ قابل ذکر باب یہ ہے کہ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے والد محترم شیخ حبیب اللہ مرحوم نے، جو گکھڑ کے قریب بستی جلال کے رہنے والے تھے، اسی مسجد میں مولانا سراج الدین احمدؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ اسی زمانہ میں گکھڑ کے قریب دو بستیوں ترگڑی اور تلونڈی کھجور والی کے دو اور غیر مسلم بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ایک کا نام شیخ عبد الرحیمؒ ہے جو ضلع گوجرانوالہ کے معروف صنعتکار الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم (راہوالی گتہ مل والے) کے والد محترم تھے، وہ ترگڑی کے رہنے والے تھے اور ہندو تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ مارچ ۲۰۰۲ء

تنزانیہ کے حکمران خاندان کا قبولِ اسلام

مالیر کوٹلہ (بھارت) سے مولانا مفتی فضیل الرحمان ہلال عثمانی کی زیر ادارت شائع ہونے والے دینی جریدہ ماہنامہ دارالسلام نے مئی 2000ء کے شمارہ میں افریقہ کے مسلم اکثریت رکھنے والے ملک تنزانیہ کے سابق صدر جولیس نریرے اور ان کے خاندان کے قبول اسلام کے واقعہ اور اس کے پس منظر پر جناب منظور الحق آف کامٹی کی رپورٹ شائع کی ہے جو انہی کے الفاظ میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۲۰۰۰ء

بسنت کے بارے میں حکومتِ پنجاب کا موقف

ہمیں حیرت پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل مقبول انور ملک صاحب کے اس ارشاد پر ہوتی ہے کہ انہیں بسنت پر پابندی لگانے کے لیے کوئی قانون نہیں مل رہا۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے سامنے شریعت اسلامیہ کے قوانین نہیں ہیں۔ ورنہ انہیں یہ بات معلوم ہوتی کہ فقہاء اسلام نے ’’سد ذرائع‘‘ کا ایک مستقل اصول بیان کیا ہے کہ جو چیز کسی غلط نتیجہ کا باعث بن رہی ہو اور جس سے کسی نقصان کا واضح خطرہ نظر آرہا ہو اسے جائز ہونے کے باوجود شرعاً ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ فروری ۲۰۰۱ء

’’دینِ الٰہی‘‘ اور حضرت مجدد الفؒ ثانی: آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں

حضرت مجدد الفؒ ثانی کی حیات د خدمات کے بارے میں ارباب فکر و دانش اس محفل میں اظہار خیال کر رہے ہیں جو حضرت مجددؒ کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کے حوالہ سے ہوگی، میں ان میں سے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت مجددؒ نے اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دین الٰہی‘‘ کو اپنی مخلصانہ جدوجہد کے ذریعہ ناکام بنا دیا تھا۔ وہ دین الٰہی کیا تھا اور اس کے مقابلہ میں حضرت مجددؒ کی جدوجہد کیا تھی؟ اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کے خدوخال اور حدود اربعہ کے بارے میں تاریخ بہت کچھ بتاتی ہے جسے میں چار دائروں یا مراحل میں تقسیم کروں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ نومبر ۲۰۱۶ء

دینی نظامِ تعلیم ۔ اصلاحِ احوال کی ضرورت اور حکمتِ عملی

جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے جن دینی مدارس کے بارے میں آج ہم بحث و گفتگو کر رہے ہیں وہ اس وقت عالمی سطح کے ان اہم موضوعات میں سے ہیں جن پر علم و دانش اور میڈیا کے اعلیٰ حلقوں میں مسلسل مباحثہ جاری ہے۔ مغرب اور عالم اسلام کے درمیان تیزی سے آگے بڑھنے والی تہذیبی کشمکش میں یہ مدارس اسلامی تہذیب و ثقافت اور علوم و روایات کے ایسے مراکز اور سرچشموں کے طور پر متعارف ہو رہے ہیں جو مغربی تہذیب و ثقافت کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت اور ایڈجسٹمنٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اگست ۲۰۰۰ء

دینی مدارس کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر ایک اہم سیمینار

انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اسلام آباد نے ۳ اگست ۲۰۰۰ء کو ’’دینی مدارس اور درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان سے ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ملک کے منتخب ارباب علم و دانش نے شرکت کی اور دینی مدارس کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ مجلس مذاکرہ کی تین نشستیں ہوئیں۔ پہلی نشست کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان، دوسری نشست کی صدارت قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا گوہر رحمان اور تیسری نشست کی صدارت نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ و ۱۸ اگست ۲۰۰۰ء

مولانا مفتی عبد الباقی / مولانا منظور عالم سیاکھوی

گزشتہ ہفتہ کے دوران ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست اعلیٰ اور ویمبلڈن پارک لندن کی جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الباقی انتقال فرماگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے فالج کے مریض تھے اور وفات کے وقت ان کی عمر ساٹھ برس سے زائد تھی۔ مفتی صاحب مرحوم کا تعلق صوبہ سرحد پاکستان کے ضلع مردان سے تھا، وہ حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے معتمد شاگردوں میں شمار ہوتے تھے اور 1970ء کے لگ بھگ مولانا بنوریؒ ہی کے ارشاد پر لندن آگئے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۴ء

مولانا حکیم نذیر احمدؒ آف واہنڈو

ضلع گوجرانوالہ کے بزرگ عالم دین اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن مولانا حکیم نذیر احمدؒ 22 نومبر 1993ء کو واہنڈو میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر اَسی برس تھی اور زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے دین کی تعلیم و تبلیغ میں بسر کیا۔ مولانا حکیم نذیر احمدؒ کی ولادت 1913ء میں واہنڈو میں ہوئی، زمیندار گھرانے سے تعلق تھا۔ دینی تعلیم انہوں نے ہنجانوالی نامی گاؤں میں مولانا حافظ عبد الغفور صاحب سے حاصل کی جو اس زمانہ میں علاقہ میں دینی تعلیم کا ایک بڑا مرکز شمار ہوتا تھا اور اس درسگاہ کا تعلق اہل حدیث مکتب فکر سے تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۴ء

صومالیہ، مشرقی افریقہ کا افغانستان

صومالیہ غلامی کے دور میں تین حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک پر برطانیہ کی عملداری تھی، دوسرا حصہ فرانس کے قبضہ میں تھا، جبکہ تیسرے پر اٹلی کی آقائی کا پرچم لہرا رہا تھا۔ آزادی کے بعد برطانوی و صومالی لینڈ نے مشترکہ جمہوریت قائم کر لی جبکہ فرانسیسی صومالیہ بدستور الگ حیثیت رکھتا ہے۔ صومالیہ کا اکثر علاقہ بنجر ہے، کچھ حصہ کاشت ہوتا ہے، کیلا زیادہ پیدا ہوتا ہے، مویشیوں اور کھالوں کی تجارت بھی ہوتی ہے، اور اب کچھ معدنی ذخائر اور تیل کا سراغ لگا ہے جو ابھی تحقیقی و تجزیہ کے مراحل میں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۴ء

لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام

ان دنوں پاکستان کی وفاقی حکومت کے ایک مبینہ فیصلہ کے حوالہ سے لاؤڈ اسپیکر دینی حلقوں میں پھر سے موضوع بحث ہے اور لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو مساجد کی چار دیواری کے اندر محدود کر دینے کے فیصلہ یا تجویز کو مداخلت فی الدین قرار دے کر اس کی پرجوش مخالفت کی جا رہی ہے۔ ایک دور تھا جب لاؤڈ اسپیکر نیا نیا متعارف ہوا تو مساجد میں اس کے استعمال کے جواز و عدم جواز اور نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچنے کی شرعی حیثیت کی بحث چھڑ گئی تھی۔ ایک مدت تک ہمارے فتاوٰی اور علمی مباحث میں اس کا تذکرہ ہوتا رہا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۱۹۹۴ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter