امارت اسلامی افغانستان کا خاتمہ اور نئی افغان حکومت کے رجحانات

جہاں تک شرعی قوانین کے نفاذ کو جہاد افغانستان کا منطقی تقاضا قرار دینے کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی استعمار کے خلاف جہاد کا اعلان ہی اس بنیاد پر ہوا تھا کہ کمیونزم کا کافرانہ نظام نافذ ہوگیا ہے اور اسے ختم کر کے شرعی نظام کا نفاذ مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر اب بھی افغانستان میں صدر داؤد کے دور کے قوانین نے ہی واپس آنا ہے تو سرے سے اس جنگ کی شرعی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے جو جنگ کمیونسٹ نظام کے خاتمہ کے لیے ’’جہاد افغانستان‘‘ کے نام سے لڑی گئی تھی اور جس میں موجودہ شمالی اتحاد میں شامل اہم راہنما بھی پیش پیش تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ دسمبر ۲۰۰۱ء

میدان جنگ سے فرار ۔ بزدلی اور حکمت عملی کا فرق

حضرت خالد بن ولیدؓ غزوۂ موتہ سے مسلمانوں کا لشکر لے کر مدینہ منورہ واپس پہنچے تو مدینہ منورہ میں غم و حزن کی فضا تھی۔ علامہ شبلیؒ نعمانی نے اپنی تصنیف سیرت النبیؐ میں لکھا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غم اور پریشانی کے عالم میں مسجد نبویؐ کے ایک کونے میں جا بیٹھے جبکہ مدینہ کے عام لوگوں نے آنے والے لشکر کا استقبال اس طرح کیا کہ ان کے چہروں پر خاک پھینک رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میدان جنگ سے بھاگنے والو واپس آگئے ہو؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ دسمبر ۲۰۰۱ء

مغربی اقوام کی وحشت و بربریت ۔ تاریخ کے آئینے میں

امریکہ کا یہ طرز عمل خلاف توقع اور قابل تعجب نہیں ہے کہ اس نے افغانستان کےخلاف باقاعدہ اعلان جنگ کرنے اور ہر مرحلہ پر اسے جنگ قرار دینے کے باوجود اپنے شکست خوردہ مخالفین میں سے گرفتار شدگان کو ’’جنگی قیدی‘‘ تسلیم نہیں کیا۔ اور امریکہ پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود کیوبا کے تفتیشی مرکز میں لے جائے جانے والے قیدیوں کو وہ حقوق اور سہولتیں دینے کے لیے تیار نہیں ہے جو ’’جنیوا کنونشن‘‘ کے واضح فیصلوں کے مطابق انہیں ہر حال میں حاصل ہونی چاہئیں۔ یہ طاقت کی حکومت اور جنگل کے قانون کا مظاہرہ ہے جو پہلی بار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ فروری ۲۰۰۲ء

سلطان ٹیپو شہیدؒ اور افغان طالبان ۔ تاریخی مماثلت

اگر خدانخواستہ طالبان کا وجود ختم بھی ہوگیا اور وہ افغانستان کا کنٹرول دوبارہ حاصل نہ کر سکے تو بھی تاریخ میں ان کا یہ کردار کم نہیں ہے کہ انہوں نے ساری دنیا کی مخالفت اور دشمنی کے باوجود افغانستان میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ اور اس کی برکات کا عملی نمونہ آج کے دور میں دنیا کو دکھا دیا۔ اور شرعی قوانین کے ذریعہ ایک تباہ شدہ معاشرہ میں مکمل امن قائم کر کے ثابت کر دیا ہے کہ آج بھی انسانی سوسائٹی کو امن قرآن و سنت کے فطری قوانین کے ذریعہ ہی مل سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ دسمبر ۲۰۰۱ء

افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ پاکستان کیوں مجبور تھا؟

افغانستان کے مسئلہ میں حکومت پاکستان کی موجودہ پالیسی کو عالمی جبر کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ مگر اس بے بسی اور مجبوری کے اسباب کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں یہ بات سرفہرست دکھائی دیتی ہے کہ امیر ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے ہوئے قرضے ہمارے لیے وبال جان بن گئے ہیں اور قرضوں کے اس خوفناک جال نے ہماری معیشت کے ساتھ ساتھ قومی پالیسیوں اور ملی مفادات کو بھی جکڑ لیا ہے۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم شمال مغربی سرحد پر ایک دوست حکومت سے محروم ہو چکے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ نومبر ۲۰۰۱ء

یہ جنگ فراڈ ہے ۔ برطانوی صحافی جان پلجر کا تجزیہ

امریکہ گیارہ ستمبر کے واقعات کا ذمہ دار اسامہ بن لادن کو ٹھہرانے کے ثبوت پیش کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں مگر یہ بات دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے کہ خود مغرب کی رائے عامہ امریکہ کے اس دعویٰ کو کسی واضح دلیل کے بغیر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور عام آدمی حتیٰ کہ بچوں پر بھی یہ حقیقت کھلتی جا رہی ہے کہ اصل قصہ کچھ اور ہے اور امریکہ اپنے اصل اہداف پر پردہ ڈالنے کے لیے اسامہ بن لادن اور طالبان کا نام استعمال کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ نومبر ۲۰۰۱ء

افغانستان کی صورتحال پر ایک پینل انٹرویو

اے آر وائی ڈیجیٹل کے پی جے میر صاحب نے پروگرام کنڈکٹ کیا، ان کا پہلا سوال مجھ سے تھا کہ کیا آپ طالبان کی حمایت کرتے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو دوسرا سوال ہوا کہ طالبان کی حمایت کس وجہ سے کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا اس لیے کہ طالبان ایک جائز موقف کے لیے لڑ رہے ہیں، وہ جہاد افغانستان کے منطقی اور نظریاتی نتائج کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ان پر یہ جنگ ٹھونسی گئی ہے اور وہ مظلوم ہیں اس لیے میں ان کی حمایت کرتا ہوں۔ اس پر لارڈ نذیر احمد صاحب نے کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کے حوالہ سے طالبان کے موقف سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ نومبر ۲۰۰۱ء

افغانستان پر جاری امریکی حملہ ۔ برطانوی رائے عامہ کا ردعمل

جلسہ میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث مکاتب فکر اور جماعت اسلامی کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی۔ بعض حاضرین کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر کے سانحہ کے بعد پہلا موقع ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام مشترکہ فورم سے اس مسئلہ پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ گلاسگو کی مقامی آبادی افغانستان پر امریکی حملوں کے خلاف دو بار مظاہرہ کر چکی ہے۔ 27 اکتوبر کو ہونے والے مظاہروں میں راقم الحروف نے بھی جمعیۃ علماء برطانیہ کے رہنما مولانا امداد الحسن نعمانی، مجلس احرار اسلام کے رہنما عبد اللطیف خالد چیمہ، اور شیخ عبد الواحد کے ہمراہ شرکت کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ نومبر ۲۰۰۱ء

افغانستان میں عالمِ اسلام کی آرزوؤں کا خون

جہاد افغانستان کی کامیابی اور کابل میں مجاہدین کی مشترک حکومت کے قیام کے بعد دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کو یہ امید تھی کہ اب افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہوگی اور مجاہدین کی جماعتیں اور قائدین مل جل کر افغانستان کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ اسلام کے عادلانہ نظام کا ایک مثالی عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے جو دیگر مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکات کے عزم و حوصلہ میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، بعض افغان راہنماؤں کی ناعاقبت اندیشی اور ہوسِ اقتدار نے عالم اسلام کی آرزوؤں کا سربازار خون کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری مارچ ۱۹۹۴ء

طالبان کی اسلامی حکومت اور ڈاکٹر جاوید اقبال

معاصر قومی اخبار روزنامہ نوائے وقت نے یہ خوشگوار انکشاف کیا ہے کہ فرزند اقبالؒ ڈاکٹر جاوید اقبال نے گزشتہ دنوں افغانستان کا دورہ کیا ہے اور واپسی پر اکوڑہ خٹک میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کے اسلامی انقلاب کی تعریف کی ہے اور اسے ایک کامیاب انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح طالبان نے افغانستان میں امن قائم کیا آج کے دور میں اور کوئی نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں طالبان اور ان کے طرزِ حکومت کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے آواز اٹھائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اپریل ۲۰۰۰ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter