خدمتِ خلق اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ

حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ دار العلوم دیوبند کے ممتاز فضلاءمیں سے تھے، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے شاگرد تھے اور میرے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے دورۂ حدیث کے ساتھی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی کو اپنی علمی ودینی جولان گاہ بنایا اور بہت جلد ملک کے بڑے مفتیان کرام میں ان کا شمار ہونے لگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۲ء

امریکہ سے وطن واپسی اور مولانا نذیر احمدؒ کا سانحۂ ارتحال

۴ جولائی کو رات ڈیڑھ بجے کے لگ بھگ گھر پہنچا تو یہ غمناک خبر ملی کی شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد کا فیصل آباد میں انتقال ہو گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھے، چند ماہ قبل احوال پرسی کے لیے ان کے ہاں حاضری ہوئی تھی، اس وقت طبیعت کچھ بہتر تھی مگر تقدیر الٰہی کے فیصلوں میں ہر شخص کا وقت مقرر ہے اور ہر ایک نے اپنے مقررہ وقت پر دنیا سے رخصت ہو جانا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جولائی ۲۰۰۴ء

مولانا عبد الغنیؒ

مولانا عبد الغنیؒ دار العلوم دیوبند کے فضلاءمیں سے تھے، آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں بیس بگلہ کے ساتھ ’’جھڑ‘‘ نامی جگہ کے رہنے والے تھے جسے اب غنی آباد کا نام دے دیا گیا ہے۔ وہ تحریک آزادی کشمیر کے سرکردہ رہنماؤں میں سے تھے، ۱۹۴۷ء میں انہوں نے ڈوگرہ شاہی سے آزادی کے لیے نہ صرف خود عملاً جہاد میں حصہ لیا بلکہ علاقہ کے سینکڑوں لوگوں کو اس کے لیے تیار کیا، ان کی عسکری ٹریننگ کا اہتمام کیا اور میدان جہاد میں ان کے شانہ بشانہ شریک جنگ رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اپریل ۲۰۰۱ء

سائیں محمد حیات پسروری مرحوم

ملک کے دینی و قومی حلقوں کے لیے یہ خبر انتہائی رنج و غم کا باعث ہوگی کہ تحریک آزادی کے ممتاز شاعر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے رفیق اور دینی قومی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے بزرگ راہنما سائیں محمد حیات پسروری گزشتہ روز طویل علالت کے بعد پسرور میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۱۹۸۷ء

جامعہ اشرفیہ لاہور کے ساٹھ سال

جامعہ اشرفیہ لاہور اپنی عمر کی ساٹھ بہاریں مکمل کر کے ساتویں عشرہ میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ تعلیمی ادارہ جو صرف ایک درسگاہ اور ادارہ نہیں بلکہ تحریک ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے قیام کی جدوجہد کا وارث بھی ہے۔ جامعہ اشرفیہ کے بانی حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ کا شمار برصغیر کے ان نامور علماء کرام میں ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اپریل ۲۰۰۷ء

مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب اور شمس العلماء حضرت مولانا شمس الحق افغانی قدس اللہ سرہما کی جدائی کا غم ابھی مندمل نہیں ہو پایا تھا کہ علمی دنیا کو ایک اور محقق عالم، وسیع المطالعہ مصنف اور نکتہ رس خطیب کی مفارقت کا غم بھی اٹھانا پڑ گیا ہے۔ یہ شخصیت حضرت مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ کی ہے جن کے بارے میں گزشتہ روز اخبارات میں غیر نمایاں طور پر ایک کالمی خبر شائع ہوئی ہے کہ ان کا ملتان میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجون ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جنوری ۱۹۸۴ء

مولانا سید محمد شمس الدین شہیدؒ

شہید حریت حضرت مولانا سید شمس الدین شہیدؒ کو ہم سے جدا ہوئے چھ برس ہوگئے ہیں مگر ان کی متحرک اور جری و جسور شخصیت ابھی تک نگاہوں کے سامنے پھر رہی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ابھی وہ ساتھ بیٹھے کام کرتے کرتے تھوڑی دیر کے لیے اٹھ کر باہر چلے گئے ہوں۔ دراصل شہیدؒ نے مختصر سی عملی زندگی میں اپنے اکابر احباب اور رفقاء کے دلوں میں جرأت و جسارت اور غیرت و حمیت کے کچھ ایسے نقوش قائم کر دیے ہیں کہ بڑے سے بڑے زخم کو مندمل کر دینے والا مرہم ’’وقت‘‘ بھی ان کی جدائی کے صدمہ کی شدت کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ مارچ ۱۹۸۰ء

مولانا سید محمد شمس الدین شہیدؒ

شہید حریت مولانا سید شمس الدین شہیدؒ کو ہم سے جدا ہوئے ۱۳ مارچ ۱۹۷۸ء کو چار برس ہو جائیں گے لیکن ان کی جرأت و استقامت اور عزم و استقلال کے مظاہر ابھی تک نظروں کے سامنے ہیں او ریوں لگتا ہے جیسے وہ ہم سے جدا ہو کر بھی ہمارے درمیان موجود ہیں متحرک ہیں اور سرگرم ہیں کہ جرأت و جسارت کا ہر واقعہ ان کی یاد کو دل میں تازہ کیے دیتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ مارچ ۱۹۷۸ء

مولانا سید محمد شمس الدین کے ساتھ ایک نشست

برادرِ مکرم حضرت مولانا سید محمد شمس الدین صاحب امیر جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان و ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی میرے ساتھی اور دوست ہیں۔ دورۂ حدیث میں ہم اکٹھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عزم و استقامت کے میدان میں جو سبقت عطا فرمائی ہے وہ موصوف کے میرے جیسے ساتھیوں کے لیے قابل فخر بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزم و ہمت میں برکت دیں۔ مولانا گزشتہ دنوں گوجرانوالہ تشریف لائے تو ایک مختصر محفل میں تعارف و خیالات کی رپورٹ قلمبند ہوگئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ نومبر ۱۹۷۳ء

حضرت مولانا مفتی محمودؒ

مولانا مفتی محمودؒ کو ہم سے جدا ہوئے ایک برس ہو چکا ہے۔ مفتی محمودؒ بنیادی طور پر ایک عالم دین تھے لیکن ان کی صلاحیتیں اور خوبیاں اس قدر متنوع تھیں کہ ان کے باعث موافق اور مخالف سب حلقوں میں ان کا دلی احترام پایا جاتا تھا اور ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی ان کے علم، تدبر اور حوصلہ کا معترف تھا۔ مرحوم کا نمایاں وصف ٹھوس اور ہمہ گیر علم تھا جو انہوں نے اپنے وقت کے جید علماء اور اساتذہ کی صحبت میں حاصل کیا اور پھر اسے افتاء و تدریس کی برس ہا برس کی علمی و تجرباتی زندگی میں پختہ کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اکتوبر ۱۹۸۱ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter