حضرت مولانا سید انور حسین نفیس الحسینیؒ

حضرت سید نفیس شاہ صاحبؒ بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق رائے پور کی عظیم خانقاہ سے تھا اور وہ اپنی منفرد طرز کے باعث علمی و دینی حلقوں میں ایک امتیازی پہچان رکھتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر ضلع سیالکوٹ کے ایک خوشنویس خاندان کے چشم و چراغ تھے، اس فن میں انہوں نے ایسی پیش قدمی کی کہ ان کا شمار عالم اسلام کے ممتاز خطاطوں میں ہوا اور ان کی اجتہادی صلاحیتوں نے اس فن کو حسن و نزاکت کی نئی جہتوں سے متعارف کرایا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۸ء

صدام حسین اور عرب قومیت

عید قربان پر سابق عراقی صدر صدام حسین امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی انا کی سولی پر لٹک گئے اور اتحادیوں نے عید کے روز عراقی عوام اور امت مسلمہ کو صدام حسین کی لاش کا تحفہ دے کر ایک بار پھر دنیا کو بتا دیا کہ مسلم دنیا میں امریکہ کی ’’ون قطبی طاقت‘‘ کے سامنے جھکنے سے انکار کرنے والوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اور اتحادی جب چاہیں اپنے باغیوں کی گردن میں پھندا فٹ کر کے انہیں زندگی کے حق سے محروم کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جنوری ۲۰۰۷ء

اسامہ بن لادن کے ساتھ ملاقات

اسامہ بن لادن کا نام سب سے پہلے جہاد افغانستان کے دوران خوست میں سنا تھا جہاں یاور کے مقام پر مجاہدین کی عسکری تربیت گاہ تھی ۔دنیا کے مختلف ممالک سے نوجوان جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر وہاں آتے اور چند دن ٹریننگ حاصل کرکے افغان مجاہدین کے ہمراہ روسی استعمار کے خلاف برسر پیکار ہوجاتے۔راقم الحروف کو متعدد بار حرکت الانصار کی ہائی کمان کی فرمائش پر ایسی تربیت گاہوں میں جانے کا موقع ملا ۔میرے جیسے لوگ وہاں جاکر عملا تو کچھ نہیں کرپاتے مگر مجاہدین کا خیال تھا کہ ہمارے جانے سے ان کو حوصلہ ملتاہے،خوشی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ مارچ ۱۹۹۷ء

محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ

پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو گزشتہ روز راولپنڈی میں ایک خودکش حملہ کے نتیجہ میں جاں بحق ہوگئیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ملک بھر میں ان کا سوگ منایا جا رہا ہے اور ہر طبقہ کے افراد ان کے اس المناک قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس سوگ میں شریک ہیں۔ حکومت نے قومی سطح پر تین دن او رپاکستان پیپلز پارٹی نے چالیس روز تک سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ اور اس دوران احتجاجی مظاہروں، تعزیتی اجتماعات اور قرآن خوانی کی محافل کے ساتھ ساتھ کاروباری زندگی تین روز سے تا دمِ تحریر معطل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ دسمبر ۲۰۰۷ء

کرنل امیر سلطان تارڑ شہیدؒ

کرنل امام کی شہادت اور حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے عرس کے موقع پر خودکش حملہ بظاہر دو الگ الگ واقعات ہیں جن میں کوئی جوڑ اور تعلق دیکھنے والوں کو نظر نہیں آتا لیکن حالات میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے پس منظر پر نظر رکھنے والوں سے یہ بات اوجھل نہیں ہو سکتی کہ کراچی میں ہونے والے خودکش حملے سمیت ان تینوں واقعات کے پس منظر کو ایک دوسرے سے الگ کرنا آسان نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جنوری ۲۰۱۱ء

حضرت مولانا شاہ احمدؒ نورانی

مولانا شاہ احمد نورانی بھی ہم سے رخصت ہو گئے،انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔نواب زادہ نصراﷲ خان مرحوم کی وفات کے بعد یہ دوسرا بڑا صدمہ ہے جو سال رواں کی آخری سہ ماہی میں قومی سیاست کو برداشت کرنا پڑا۔ وہ دینی جماعتوں کے مشترکہ محاذ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘کے صدر اور جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ تھے۔ ایک سینئر پالیمنٹیرین، بزرگ عالم دین، تجربہ کار سیاستدان اور بااصول رہنما کے طور پر ان کا احترام تمام دینی و سیاسی حلقوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے تمام طبقات اور سیاسی و دینی حلقوں میں ان کی اچانک وفات کا غم شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۲۰۰۳ء

عامر چیمہ شہیدؒ

عامر چیمہ شہید کو اس کے آبائی گاؤں ساروکی چیمہ تحصیل وزیر آباد میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ جنازے کے وقت کو آخر تک ابہام میں رکھا گیا اور پوری کوشش کی گئی کہ عوام کو نماز جنازہ کے پروگرام کی کوئی کنفرم اطلاع نہ مل سکے، اس کے باوجود عوام کے جم غفیر نے شہید کے جنازے میں شرکت کی۔ میری خواہش بھی جنازے میں شرکت کی تھی مگر اطلاعات متضاد تھیں، بعض اخبارات اور ایک ٹی وی چینل نے شام ۴ بجے کی خبر دی تھی مگر فون پر ساروکی سے اطلاع ملی کہ نماز جنازہ دس بجے کے لگ بھگ ادا کی جائے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ مئی ۲۰۰۶ء

مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ

حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کا نام پہلی بار طالب علمی کے دور میں سنا جب ان کی خطابت کا ہر طرف شہرہ تھا اور توحید و سنت کے پرچار کے ساتھ ساتھ شرک و بدعات کے تعاقب میں وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ خطابت کے محاذ پر سرگرم تھے۔ ہم طالب علم تھے گوجرانوالہ شہر اور گرد و نواح میں جہاں بھی ان کی تقریر ہوتی ہم جتھہ بن کر جاتے اور ان کے پرجوش خطابت کا حظ اٹھاتے۔ یہ ان کی خطابت کے عروج کا دور تھا، وہ پورے جوش و جذبہ کے ساتھ دو دو تین تین گھنٹے بولتے اور پرجوش خطابت کے ساتھ ترنم کا جوڑ ملا کر عجیب سماں باندھ دیتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۳ء

حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، ایک بذلہ سنج شخصیت

۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیؐ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو مذاکرات ہوئے، ان میں حکومتی ٹیم وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، مولانا کوثر نیازی مرحوم، اور جناب عبد الحفیظ پیرزادہ پر مشتمل تھی۔ جبکہ اپوزیشن یعنی پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے مولانا مفتی محمودؒ ، نواب زادہ نصر اللہ خانؒ اور پروفیسر عبد الغفورؒ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے۔ ان میں سے پیرزادہ صاحب کے علاوہ سب وفات پا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائیں اور پیر زادہ صاحب محترم کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اگست ۲۰۱۴ء

حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی

مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی، چنیوٹ کے رہنے والے تھے اور دینی تعلیم کے حصول کے بعد چنیوٹ ہی ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ وہ بیک وقت دینی جدوجہد، سماجی خدمت اور سیاسی تگ ودو کے میدان کے آدمی تھے اور تینوں شعبوں میں انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ اور قادیانیوں کا تعاقب تھا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے چنیوٹ میں دینی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جون ۲۰۰۴ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter