بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حافظ منیر احمد صاحب محترم نے میرے عمرے کا حوالہ دے ہی دیا ہے تو میں یہ بتا دوں کہ یہ عمرہ مجھے آپ لوگوں کے اس محلے نے ہی کرایا ہے۔ صوفی محمد صادق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو آپ جانتے ہیں، ان کے بیٹے عبد الرؤف صاحب مرحوم، ان کے بیٹے مولانا مفتی نعمان صاحب، جو ہمارے شہر گوجرانوالہ کے بڑے فعال اور متحرک علماء میں سے ہیں، ان کے بھائی مفتی محمد اسامہ میرے شاگرد ہیں، جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں اور جی مگنولیہ میں مسجد بنا بھی رہے ہیں، چلا بھی رہے ہیں اور پڑھا بھی رہے ہیں۔ رمضان سے کوئی دو تین ہفتے پہلے اسامہ میرے پاس آیا کہ استاد جی میں رمضان میں عمرے پر جا رہا ہوں۔ میں نے کہا، جاؤ، اللہ برکت دے۔ کہنے لگا، استاد جی آپ کو بھی لے کر جا رہا ہوں۔ میں نے کہا، لے جاؤ، اللہ برکت دے۔ پوچھا، پاسپورٹ؟ میں نے کہا، یہ لو۔ بس یہی بات ہوئی۔ اور پرسوں میں عمرہ کر کے واپس آیا ہوں۔ جب آپ نے ذکر چھیڑا ہے تو میں نے یہ بتانا ضروری سمجھا ہے کہ یہ عمرہ مجھے آپ کے الٰہ آباد نے کروایا ہے۔ مجھے دو تین ہفتے پہلے اس کا تصور بھی نہیں تھا، بس اللہ تعالیٰ انتظام کرتا ہے، بلاوا آتا ہے اور کوئی نہ کوئی سبب بن جاتا ہے، اس دفعہ سبب الٰہ آباد بنا ہے، اس لیے میرے عمرے کی آپ کو مبارک ہو۔
قرآن کریم پڑھا اور سنا گیا ہے اور ہم دعا کے لیے اکٹھے یہاں بیٹھے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب ایک بات فرما رہے تھے، ایک تو ان کی بات پر کچھ حاشیہ لگاؤں گا، اور ایک اس سے ملتی جلتی بات کروں گا، پھر دعا کریں گے۔ وہ فرما رہے تھے کہ توبہ کرتے رہنا، اور اگر پھر گڑبڑ ہو جائے یا گڑبڑ کی نیت بھی ہو تب بھی توبہ کرتے رہو۔ توبہ کیا ہے؟ اس پر میں ایک مثال دوں گا کہ کپڑے جو ہم پہنتے ہیں، کیا انہیں ایک ہی دفعہ دھویا جاتا ہے یا بار بار دھویا جاتا ہے؟ کپڑوں پر داغ لگتے رہتے ہیں اور یہ بار بار دھلتے رہتے ہیں۔ توبہ کا یہی کام ہے۔ اور توبہ کرنے والے کے گناہوں پر اللہ تعالیٰ پردہ رکھتے ہیں۔
ایک حدیث مبارکہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کا ایک منظر یہ ہوگا کہ ایک بندے کو بلایا جائے گا، وہ اللہ تعالیٰ سے باتیں کرے گا، اور فرشتے اس پر پردہ ڈال دیں گے تاکہ یہ باتیں اور کوئی نہ سنے۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ فلاں گناہ کیا تھا، یاد ہے؟ وہ کہے گا ہاں یاد ہے۔ پھر پوچھیں گے کہ فلاں گڑبڑ بھی کی تھی؟ وہ کہے گا ہاں کی تھی۔ اب اللہ کے سامنے کیسے کہے کہ نہیں کی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھیں کہ فلاں حرکت کی تھی، یاد ہے؟ وہ کہے گا ہاں یاد ہے۔ اب پانچ سات حرکتیں اللہ تعالیٰ یاد کروائیں گے تو بندہ گھبرا جائے گا کہ مارے گئے۔ اللہ تعالیٰ دیکھیں گے کہ بندہ گھبرا گیا ہے تو فرمائیں گے کہ کیا میں نے دنیا میں کسی کو پتہ چلنے دیا تھا؟ یا اللہ، نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، تسلی رکھو اب بھی نہیں پتہ چلے گا۔ اس کو کہتے ہیں ’’ستار‘‘ کہ دنیا میں تیرا پردہ رکھا تھا اب بھی تیرا پردہ رہے گا۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ پہلی امتوں میں کچھ کام ہوتے تھے جو اب نہیں ہوتے۔ ان میں ایک کام یہ تھا کہ گھروں میں جو کچھ گڑبڑ ہوتی تھی وہ گھر کے سامنے اوپر لکھی جاتی تھی۔ آج کی زبان میں جسے کہتے ہیں کہ ’’پٹی چل جاتی تھی‘‘۔ یعنی رات کو جو کچھ گھر کے اندر ہوتا تھا وہ صبح گھر کی پیشانی پر لکھ دیا جاتا تھا کہ اس گھر میں یہ کچھ ہوتا رہا ہے۔ اللہ پاک نے یہ سلسلہ بعد میں منسوخ کر دیا۔ ذرا خیال کریں کہ اگر یہ سلسلہ آج بھی باقی ہوتا تو ہم میں سے کوئی آدمی گھر سے باہر نکلنے اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہوتا؟
خیر، قرآن کریم ختم ہوا ہے اور ہم دعا کے لیے بیٹھے ہیں۔ پہلی بات تو ہم یہ طے کریں کہ ہم نے دعا پڑھنی ہے یا دعا کرنی ہے؟ ایک ہے دعا پڑھنا، ایک ہے دعا کرنا۔ ہم دعائیں بے شمار پڑھتے ہیں، لیکن دعا ایک بھی نہیں کرتے۔ یہ دعا پڑھنے اور کرنے کا فرق کیا ہے؟ یہی کہ مجھے پتہ کچھ نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے کیا مانگ رہا ہوں، بس دعائیں پڑھتا جا رہا ہوں۔ ہم جو دعائیں پڑھتے ہیں، ہمیں ان کا مطلب آتا ہے؟ ہمیں تو نماز کا مطلب نہیں آتا۔ ہم جب نماز پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ ہم اللہ سے کیا کہہ رہے ہیں۔ اور جب قرآن کریم پڑھ رہے ہوتے ہیں تو اللہ ہم سے باتیں کر رہا ہوتا ہے، اس کا بھی ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اللہ ہم سے کیا کہہ رہا ہے؟
نماز میں ہم اللہ اکبر سے شروع کرتے ہیں اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ تک اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتے چلے جاتے ہیں، قیام میں بھی، رکوع میں بھی، ہاتھ باندھ کر بھی، ہاتھ چھوڑ کر بھی، سجدے میں بھی، بیٹھ کر بھی۔ اور قرآن کریم پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہم سے باتیں کرتا چلا جاتا ہے۔ نہ ہمیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کیا کہہ رہے ہیں، اور نہ یہ پتہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کیسا ڈائیلاگ ہے؟ ایسا مکالمہ آپ نے کبھی دیکھا ہے؟ اس لیے میں یہ بات ائمہ مساجد سے بھی کہا کرتا ہوں اور مسجدوں کی کمیٹیوں سے بھی کہ قرآن کریم کے ترجمہ کی کوئی نہ کوئی کلاس چلتی رہنی چاہیے اور نوجوانوں کو اس کی ترغیب دیں تاکہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات ہو کہ نماز میں ہم اللہ تعالیٰ سے کیا کہہ رہے ہیں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ ہم سے کیا کہہ رہا ہے۔
ہم جو دعائیں مانگتے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے۔ دعا سمجھ کر مانگی جائے تو دو جملے ہی کافی ہوتے ہیں۔ اس پر میں دو واقعے عرض کرنا چاہوں گا کہ سمجھ کر مانگی گئی دعا کیسی ہوتی ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ایک دفعہ قحط کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ جب پورے موسم میں کوئی بارش نہ ہو تو کیا ہوتا ہے، وہی کچھ ہوا اور لوگ تنگ پڑ گئے۔ حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہوئے کہ یا امیر المومنین! بارش نہیں ہو رہی، نماز اور دعا کی ترتیب بنائیں۔ ایسے موقع پر دعا اور نماز استسقاء ہوتی ہے۔ فرمایا ٹھیک ہے اعلان کر دو کل صبح چاشت کے وقت اکٹھے ہو جائیں ہم دعا کریں گے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ کافی عرصے کے بعد یہ موقع بن رہا ہے تو حضرت عمرؓ خطاب بھی فرمائیں گے اور نماز بھی پڑھائیں گے، اس خیال سے لوگ منبر بھی ساتھ لے کر عید گاہ پہنچ گئے۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ حضرت عمرؓ آئے، منبر پر چڑھے، استغفار کا کوئی جملہ تین دفعہ پڑھا اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر چل دیے۔ اب لوگ پیچھے پیچھے کہ حضرت یہ کیا، ہم تو اکٹھے ہوئے تھے کہ آپ خطاب فرمائیں گے، نماز پڑھائیں گے، لمبی چوڑی دعا کریں گے۔ فرمایا، دعا کر دی ہے۔ لوگوں نے کہا، حضرت ہم بھی تو یہاں آپ کے ساتھ ہی تھے۔
یہ حضرت عمرؓ کا بات سمجھانے کا انداز تھا۔ فرمایا، میں نے کیا کہا ہے؟ لوگوں نے کہا، آپ نے تین دفعہ استغفار کیا ہے۔ فرمایا، استغفار پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو وعدے کر رکھے ہیں، کیا وہ تمہیں معلوم نہیں ہیں؟ فرمایا، دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے یہ بات کہلوائی ہے کہ ’’استغفروا ربکم انہ کان غفارا‘‘ استغفار کا پہلا پھل یہ ہے کہ اللہ پاک معاف کر دے گا۔ ’’یرسل السماء علیکم مدرارا‘‘ آسمان سے تمہارے لیے بارش برسائے گا۔ ’’ویمددکم باموال وبنین‘‘ مال اور اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا۔ ’’ویجعلکم جنات ویجعلکم انہارا‘‘ (نوح ۱۰-۱۲) تمہارے لیے باغات ہی باغات ہوں گے اور نہریں ہی نہریں ہوں گی۔ استغفار کے چھ فائدے تو یہ ہیں۔
ایک جگہ فرمایا ’’یمتعکم متاعاً حسناً الیٰ اجل مسمًی‘‘ تمہیں زندگی بھر زندگی کے اچھے اسباب دیتا رہے گا۔ ’’ویؤتِ کل ذی فضل فضلہ‘‘ (ہود ۳) کسی فضل کے مستحق کو اس کے فضل اور مقام سے محروم نہیں کرے گا، ضرور دے گا۔ اور ’’ویزدکم قوۃ الیٰ قوتکم‘‘ (ہود ۵۲) تمہاری قوت میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے یہ نو وعدے استغفار پر ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ سمجھ کر پڑھے اور یہ جانتا ہو کہ میں اللہ سے کیا مانگ رہا ہوں۔ دعا اگر سمجھ کر کی جائے تو دو جملے بھی کافی ہیں۔
ایک واقعہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے معروف صحابی ہیں اور حدیث کے بڑے راویوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑا فضل فرمایا تھا کہ انہیں عمر بھی بہت لمبی دی اور مال و اولاد بھی بہت عطا فرمایا۔ سو سال سے زیادہ عمر پائی ہے اور اپنے مال کے بارے میں خود بتاتے ہیں کہ میں اندازے سے بھی نہیں بتا سکتا میرے پاس کتنا مال ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں جو بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں اپنے ہاتھوں سے دفن کی ہیں ان کی تعداد نوے ہے۔ اور محدثین بتاتے ہیں کہ ان کی وفات کے وقت ان کی جو آل اولاد زندہ تھی وہ دو سو سے زیادہ تھے۔
میں دعا کے حوالے سے حضرت انس بن مالکؓ کا ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ ان کی ہمشیرہ محترمہ ان سے ملنے کے لیے بصرہ آئیں۔ کسی دوسرے شہر میں رہتی تھیں وہ بھائی سے ملنے آ گئیں کہ مجھے آپ سے دعا کرانی ہے۔ اس زمانے میں یہ واٹس ایپ وغیرہ تو ہوتا نہیں تھا، کوئی کام ہوتا تھا تو آنا ہی پڑتا تھا۔ کہنے لگیں کچھ مشکلات اور پریشانیاں ہیں اس لیے آئی ہوں کہ بھائی جان سے مل لوں گی اور ساتھ دعا کی درخواست کروں گی۔ حضرت انسؓ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ (البقرۃ ۲۰۱)۔ بہن کہنے لگی بھائی جان! اتنی دور سے آئی ہوں اور آپ نے تین جملوں پر ٹرخا دیا ہے۔ حضرت انسؓ فرمانے لگے، میں نے جو دعا کی ہے اس میں کوئی چیز میں نے چھوڑی ہے؟ میں نے زندگی میں اس سے زیادہ جامع دعا سنی ہی نہیں۔
دعا کے تین جملے کیا ہیں؟ ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ‘‘ یا اللہ مجھے اس دنیا میں جو دے اچھا ہی دے۔ ’’وفی الآخرۃ حسنۃ‘‘ اور آخرت میں بھی جو دے اچھا ہی دے۔ ’’وقنا عذاب النار‘‘ اور قیامت کے دن مجھے آگ کے عذاب سے بچا لینا۔ یہ میں اپنا ترجمہ کر رہا ہوں، تو کیا خیال ہے اس میں کوئی چیز باقی رہ جاتی ہے؟ اس لیے میں عرض کر رہا ہوں کہ ہمیں دعا کرنا سیکھنا چاہیے۔ دعائیں پڑھنے سے میں انکار نہیں کرتا کہ اس کا اجر تو ہو گا ہی، لیکن اگر دعا منوانی ہے تو اسے کرنے کا سلیقہ سیکھیں۔ دعا وہ ہے جو دل سے کی جائے اور سمجھ کر کی جائے کہ مجھے پتہ ہو میں کس سے مانگ رہا ہوں اور کیا مانگ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
دیکھیے، اس وقت ہماری سب سے بڑی قومی اور ملّی ضرورت کیا ہے؟ ہم اس وقت بحران میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں، ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں، کیا یہ عذابِ الٰہی نہیں ہے۔ ساری باتیں چھوڑ کر میں ایک سوال کرنا چاہوں گا کہ کیا اس وقت ہماری اجتماعی حالت اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی ہے یا ناراض ہونے کی ہے؟ دنیا کے حالات بھی دیکھ لیں اور اپنی قومی صورت بھی دیکھ لیں، اس وقت جو ہماری کیفیت ہے وہ اللہ کے راضی ہونے کی علامت ہے یا ناراض ہونے کی علامت ہے؟ اللہ ہم سے راضی ہو تو ہمارا حال یہ ہو جو ہو رہا ہے، جس سے خدا راضی ہوتا ہے، کیا اس کا یہ حال ہوتا ہے؟
تاریخ میں ایک واقعہ لکھا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب عراق کی جنگ جاری تھی اور حضرت سعد بن ابی واقاصؓ فوجیں لے کر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے اور ایرانی فوجوں کا کمانڈر رستم اپنی فوجوں کے ساتھ شکست کھاتا جا رہا تھا۔ جب آدھا ایران ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو ایک دن رستم نے اپنے کمانڈروں کی میٹنگ بلائی کہ یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے ساتھ؟ ہمارا ملک ہے، ہمارے وسائل ہیں، ہمارا اسلحہ ہے، سب کچھ ہمارے پاس ہے، اور یہ لوگ باہر سے آ کر ہم پر چڑھائی کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہم انہیں کہیں بھی روک نہیں پا رہے، ہر چیز ہمارے پاس ہے اور فتح ان کے پاس ہے، اس کی کیا وجہ ہے،؟ تاریخ والے ایک جملہ رستم سے منسوب کرتے ہیں، کہتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ خدا ان کے ساتھ ہو گیا ہے۔
جب وہ اللہ کسی کے ساتھ ہو جائے تو پھر پیچھے کوئی کسر رہ جاتی ہے؟ میں اس جملے کی روشنی میں یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ کیا وہ اللہ اس وقت ہمارے ساتھ ہے؟ اس وقت پوری دنیا کی امتِ مسلمہ کی اور ہماری پاکستانی قوم کی جو صورتحال ہے، ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ ہمارے ساتھ ہے؟ اللہ تعالیٰ سے ہمیں معافی مانگنی چاہیے، استغفار کرنا چاہیے، اس کو راضی کرنے کی ضرورت ہے، وہ راضی ہو جائے گا تو پھر اور کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی، وہ سب کچھ خود سنبھال لے گا، اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔