ضلعی حکومتیں اور عالمی بینک
گزشتہ دنوں آزادکشمیر کے دو اضلاع باغ اور سدھنوتی کے مختلف مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا تو اس دوران خاص طور پر یہ منظر دیکھ کر حیرت اور تعجب میں اضافہ ہوا کہ قدم قدم پر عالمی بینک کے تعاون سے مکمل کیے جانے والے آب رسانی کے منصوبوں کی تفصیلات کے بورڈ نصب ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں نے ورلڈ بینک کے تعاون سے پینے کے پانی کے حصول اور گھروں تک اسے پہنچانے کے بہت سے منصوبے مکمل کیے ہیں جن کے لیے بتایا جاتا ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور چشموں سے آبادی اور گھروں تک پہنچانےکے لیے پانی کے پائپ ورلڈ بینک نے مہیا کیے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی خدمات
حضرت تھانویؒ کو 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی اور برطانوی استعمار کے مکمل تسلط کے تناظر میں دیکھا جائے تو صورتحال کا نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد اس خطہ کے مسلمان اپنا سب کچھ کھو کر نئے سرے سے معاشرتی زندگی کا آغاز کر رہے تھے۔ صدیوں اس خطہ پر حکومت کرنے کے بعد مسلمانوں کا سیاسی نظام ختم ہو چکا تھا، عدالتی اور انتظامی سسٹم ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا، عسکری قوت اور شان و شوکت سے وہ محروم ہو چکے تھے، اور ان کا علمی و تہذیبی ڈھانچہ بھی شکست و ریخت سے دوچار تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم
سیٹھی صاحب مرحوم نے قرآن کریم کے مدارس کے قیام کو اپنی زندگی کا مشن قرار دے رکھا تھا۔ اس مقصد کے لیے تعلیم القرآن ٹرسٹ قائم تھا اور اس کے ذریعہ انہوں نے پاکستان کے مختلف حصوں میں مذکورہ بالا ترغیب کے ساتھ حفظ قرآن کریم کے مدارس کے قیام کی مہم چلائی۔ بعد میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں آنے سے قبل مجھے گتہ مل کالونی کی مسجد میں کم و بیش ڈیڑھ دو سال خطابت کے فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا تو اس کام سے زیادہ واقفیت حاصل ہوئی اور معلوم ہوا کہ تعلیم القرآن ٹرسٹ کے تحت ملک بھر میں کم و بیش گیارہ سو مدارس کی امداد کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
الحاج مولانا محمد زکریاؒ
مولانا محمد زکریا مرحوم کے ساتھ میرے روابط اور مراسم کا سلسلہ بہت پرانا تھا۔ وہ جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے ان پرجوش، متحرک اور بے لوث ارکا ن میں شامل رہے جنہوں نے ایوبی مارشل لاء کے بعد جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کو ایک متحرک سیاسی قوت بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیے، اور وسائل کی کمی بلکہ فقدان کے باوجود اپنی جدوجہد کے تسلسل میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ مجھے ان کے ساتھ ان گنت اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا، وہ بحث میں پرجوش حصہ لینے اور دوٹوک رائے دے کر اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے کے عادی تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ
حضرت مولانا جمیل احمد میواتی دہلویؒ بھی اسی قافلہ کے فرد تھے، اس لیے انہوں نے بھی اپنی تگ و تاز کے لیے کسی ایک شعبے پر قناعت نہیں کی بلکہ تصوف و سلوک کو اپنی جولانگاہ بنانے کے ساتھ ساتھ نفاذِ اسلام کی جدوجہد، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی تحریک، دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تدریس کے شعبوں میں بھی فکر و عمل کا حصہ ڈالا۔ ان کا تعلق میوات سے تھا لیکن تقسیم ہند کے وقت ان کے والدین دہلی میں آباد تھے۔ 1947ء میں دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ حضرت مولانا کا روحانی تعلق پہلے شیخ الاسلام حضرت حسین احمدؒ مدنی سے تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ
حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ پاکستان میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے آخری خلفاء میں سے تھے اور ان کے بعد ہمارے علم کے مطابق پاکستان میں اب ایسے کوئی بزرگ باقی نہیں رہے جنہیں حضرت مدنی نے اپنے روحانی سلسلہ میں خلافت سے نوازا ہو۔ بنگلہ دیش میں دو تین بزرگ ابھی موجود ہیں جن میں سے ایک بزرگ حضرت مولانا عبد الحق صاحب آف درگاپور ضلع سونام گنج کا میں ایک کالم میں تذکرہ کر چکا ہوں۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین 1914ء کے دوران ضلع چکوال کے گاؤں بھیس میں پیدا ہوئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولوی محمد نبی محمدیؒ
گزشتہ روز ایک قومی اخبار کے آخری صفحہ پر چھوٹے سے چوکھٹے میں یہ خبر نظر سے گزری کہ افغانستان کے بزرگ عالم دین مولوی محمد نبی محمدیؒ انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اسے نیرنکئی زمانہ کا کرشمہ کہیے یا گردشِ حالات کا نتیجہ کہ مولوی محمد نبی محمدیؒ جیسے بزرگ عالم دین کی وفات پر چند سطروں کی ایک خبر کے بعد قومی پریس میں مکمل خاموشی کی کیفیت طاری ہے۔ ورنہ اگر یہی بات اچھے دنوں میں ہوتی تو نہ صرف افغانستان میں قومی سطح پر ان کا سوگ منایا جاتا بلکہ پاکستان میں بھی کئی دنوں تک ان کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ رہتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ
گزشتہ دنوں راولپنڈی کے ایک بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ ٹریفک کے حادثہ میں زخمی ہونے کے بعد انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا علویؒ بھیرہ کے رہنے والے تھے، دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ باپ دادا سے قرآن کریم کی خدمت کا ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ ایک عرصہ سے راولپنڈی میں قیام پذیر تھے۔ امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا۔ مجلس احرارِ اسلام میں طویل عرصہ رہے اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ساتھ بھی کچھ عرصہ وابستگی رہی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کے ساتھ میرا تعلق 1974ء سے تھا جب وہ مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھے اور تحریک ختم نبوت کے کارکنوں میں شامل تھے۔ تحریک ختم نبوت کے لیے گوجرانوالہ میں جو کل جماعتی مجلس عمل تشکیل دی گئی مجھے اس میں سیکرٹری کی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور چونکہ مرکزی جامع مسجد شہر اور ضلع کے لیے تحریک کا ہیڈکوارٹر تھی اس لیے علماء کرام اور کارکنوں کے ساتھ رابطہ زیادہ تر میرا ہی رہتا تھا۔ اس دوران مجھے جن نوجوانوں کا بطور خاص تعاون حاصل رہا ان میں مدرسہ اشرف العلوم کے ہونہار طالب علم محمد جمیل خان نمایاں تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مولانا اعظم طارق شہیدؒ
مولانا اعظم طارقؒ بھی اپنے پیشرو رہنماؤں مولانا حق نواز جھنگویؒ، مولانا ضیاء الرحمانؒ فاروقی، اور مولانا ایثار الحق القاسمیؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سفاک قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں نے یہ افسوسناک خبر امریکہ کے شہر بفیلو میں سنی جہاں 6 اکتوبر کو مولانا عبد الحمید اصغر کے ہمراہ دارالعلوم مدنیہ کی ختم بخاری شریف کی تقریب میں شرکت کے لیے عصر کے وقت پہنچا۔ اس تقریب سے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے خطاب کرنا تھا اور مجھے بھی کچھ معروضات پیش کرنے کے لیے حضرت مولانا ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن نے حکم دیا تھا جو دارالعلوم مدنیہ بفیلو کے سربراہ ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
Pages
- « شروع
- ‹ پچھلا صفحہ
- …
- 333
- 334
- …
- اگلا صفحہ ›
- آخر »