مولانا روشن دینؒ، مولوی عبد الکریمؒ

   
تاریخ : 
۲ نومبر ۲۰۰۶ء

عید الفطر سے ایک روز قبل ہمارے ایک پرانے بزرگ مولانا روشن دین صاحب ٹیکسلا میں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ہمارے دور میں جمعیۃ علمائے اسلام ضلع راولپنڈی کے سیکرٹری جنرل اور پھر امیر رہے۔ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ سے بیعت کا تعلق تھا، اور وہ اتنے پکے مرید تھے کہ حضرت لاہوریؒ کے بتائے ہوئے اسباق کا معمول زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ سادہ اور نیک دل بزرگ تھے، اپنی کریانہ کی دکان تھی جس کے ساتھ ساتھ جمعیۃ علمائے اسلام اور تبلیغی جماعت دونوں کو اچھا خاصا وقت دیا کرتے تھے۔ تحریک نظام مصطفٰیؐ کے دوران ۱۹۷۷ء میں گرفتار ہوئے اور دیگر متعدد دینی تحریکات میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔ ان کے فرزند صلاح الدین فاروقی دینی تحریکات اور جدوجہد کے باشعور، خاموش اور فعال کارکنوں میں سے ہیں۔ وقت کی دینی ضروریات کو سمجھنا اور ان کے لیے خاموشی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ان کا معمول ہے۔ صلاح الدین فاروقی میرے انتہائی قریبی دوستوں اور ساتھیوں میں سے ہیں، گزشتہ کم و بیش پینتیس برس سے ان کا گھر میری آمد و رفت کا مرکز ہے اور اب بھی وقت اجازت دے تو آتے جاتے ایک رات ان کے ہاں گزرانے کی کوشش کرتا ہوں۔

مولانا روشن دینؒ کے ساتھ ایک عرصہ جماعتی تعلق رہا۔ ان کی سادگی، بے باکی اور استقامت نے ہمیشہ متاثر کیا اور انہوں نے ہمیشہ دعاؤں، نصیحتوں اور حوصلہ افزائی سے نوازا۔ انتیس رمضان المبارک کو ان کے پوتے حافظ محمد معاویہ نے فون پر اطلاع دی کہ داداجی کا انتقال ہوگیا ہے۔ رمضان المبارک کے آخری ایام کی مصروفیات اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ خواہش کے باوجود جنازہ میں حاضری کی کوئی صورت نہ نکال سکا۔

اس سے دو روز قبل ستائیسویں شب کو ہمارے ایک اور پرانے جماعتی ساتھی مولوی عبد الکریم کا مریدکے میں انتقال ہوا مگر بے حد خواہش کے باوجود ان کے جنازہ میں بھی حاضری نہ ہو سکی۔ مولوی عبد الکریم صاحب جمعیۃ علمائے اسلام کے پرانے کارکنوں میں سے تھے اور انہوں نے ۱۹۷۰ء کے اس دور میں خالص دیہاتی ماحول میں جمعیۃ کے لیے کام کیا جب سیاست پر چودھریوں کی اجارہ داری تھی اور کسی مولوی کا سیاست کا نام لینا اور دیہی ماحول میں چودھریوں کی سیاست کے مقابلے میں کوئی بات کرنا اپنا بہت کچھ داؤ پر لگانے کے مترادف ہوتا تھا۔ مگر ایسے بے لوث کارکن بھی تھے جو اپنا سب کچھ ہتھیلی پر رکھ کر جمعیۃ علمائے اسلام کا پرچم اٹھائے دیہات میں شریعت کے نفاذ اور بالادستی کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ مولوی عبد الرحیم اور مولوی عبد الکریم دو بھائی تھے۔ ایک کامونکی کے قریب بھروکی ورکاں نامی گاؤں میں امام مسجد تھے جبکہ اول الذکر گھمن والا کے قریب گاؤں خواسرہ میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے۔ دونوں جمعیۃ کے مخلص اور بے لوث کارکن تھے۔ میں نے اس دور میں ان کے ساتھ بھروکی ورکاں، خواسرہ اور اردگرد کے دیہات میں کئی بار حاضری دی۔ ذریعۂ سفر سائیکل ہوا کرتا تھا، مجھے کبھی سائیکل چلانا نہیں آیا مگر ایسے دوستوں کے ساتھ سائیکل کے کیریئر یا ڈنڈے پر بیٹھ کر میلوں کا سفر کیا کرتا تھا اور سچی بات ہے یہ بہت مزے کا دور تھا۔

مولوی عبد الرحیم بڑے تھے، ان کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوگیا تھا۔ مولوی عبد الکریم چھوٹے تھے، وہ مریدکے منتقل ہوگئے تھے جہاں ان کے بیٹے دکان کرتے ہیں۔ چند سال قبل فالج کے مریض ہوگئے تھے مگر اس کے باوجود تعلق آخری عمر تک باقی رکھا۔ جب بھی موقع ملتا معذوری کے باوجود جمعہ کے لیے گوجرانوالہ آجاتے تھے کیونکہ انہیں یہ اطمینان ہوتا تھا کہ جمعہ کے موقع پر ملاقات ضرور ہو جائے گی۔ جمعہ پڑھتے اور اس کے بعد تھوڑی دیر ہماری مجلس میں بیٹھ کر حال احوال پوچھ کر چلے جاتے۔ ۲۶ویں روزے کو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی عبد الکریم فوت ہوگئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی پوچھا کہ کیا آپ جنازہ کے لیے جا سکیں گے؟ بلامبالغہ عرض کرتا ہوں کہ اس دفعہ مجھے اپنی مصروفیات پر بہت غصہ آیا کہ ایک بے لوث، جاں نثار اور وفادار ساتھی کے جنازہ میں شرکت کے لیے بھی وقت نہیں نکال سکوں گا۔ مگر مجبور اور بے بس تھا اس لیے شرمندگی کے ساتھ معذرت کر دی کہ ستائیسویں شب کو پانچ مقامات پر حاضری کا پہلے سے وعدہ ہے اور دوستوں نے اہتمام کر رکھا ہے اس لیے مریدکے نہیں جا سکوں گا۔ اب جبکہ یہ سطور تحریر کر رہا ہوں ایک دو روز میں تعزیت کے لیے مریدکے جانے کا پروگرام ہے ان شاءا للہ تعالیٰ۔

مولانا روشن دین کے جنازے میں بھی حاضری نہیں ہو سکی تھی، البتہ مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کے ساتھ طے ہوگیا کہ ہم دونوں عید کے بعد تیسرے روز جمعہ کی شام کو تعزیت کے لیے ٹیکسلا جائیں گے۔ اس موقع پر صلاح الدین فاروقی نے ایک مسجد میں عشاء کے بعد تعزیتی جلسہ کا پروگرام رکھ لیا اور ہم نے ان کے خاندان کے ساتھ ساتھ ٹیکسلا کے عام دوستوں سے بھی ایک نیک اور بزرگ راہنما کی وفات پر تعزیت کی۔ ابھی ہم ٹیکسلا نہیں پہنچے تھے کہ مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کو فون پر اطلاع موصول ہوئی کہ ان کے معاون خاص اور پاکستان شریعت کونسل لاہور کے کنوینر مولانا حافظ ذکاء الرحمان اختر کے والد محترم کا انتقال ہوگیا ہے اور شکر گڑھ کے قریب ان کے آبائی گاؤں میں اگلے دن صبح جنازہ ہوگا، قاری صاحب ٹیکسلا سے واپس آگئے جبکہ مجھے اگلے روز تلہ گنگ اور ہزارہ جانا تھا۔

   
2016ء سے
Flag Counter