حج کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور لاکھوں خوش نصیب مسلمان دنیا کے کونے کونے سے اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ حرم کعبہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صداؤں سے گونج رہی ہیں اور حرم مدینہ میں لاکھوں مسلمان شب و روز اطمینان اور سکون کے ساتھ روضۂ اطہر کی مقدس جالیوں کے سامنے با ادب کھڑے ہو کر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نذرانۂ درود و سلام پیش کر رہے ہیں۔
حج اسلام کے بنیادی ارکان و فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی ادا ہوتا تھا، بلکہ جب سے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ تعمیر کیا ہے تب سے حج کا فریضہ اب تک مسلسل ادا ہو رہا ہے اور منیٰ میں حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کی یاد بھی ہر سال تازہ کی جا رہی ہے۔ اسلام نے اس فریضہ اور قربانی دونوں کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ اسے اور زیادہ تقدس و حرمت سے نوازا ہے۔ البتہ جاہلیت کے دور کے حج کے معمولات میں اسلام نے کچھ اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ آج کی صحبت میں ہم ان اصلاحات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جو قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ نے حج کے نظام اور معمولات میں نافذ کیں۔ ان اصلاحات کے بعد گزشتہ چودہ سو برس سے یہ فریضہ ایک خالص اسلامی عبادت کے طور پر ادا ہوتا چلا آرہا ہے۔
- حضور نبی اکرمؐ سے پہلے ہر عقیدہ اور مذہب کے لوگ حج کے لیے آتے تھے۔ مشرک و مؤحد اور کافر و مسلمان اکٹھے حج کیا کرتے تھے لیکن اسلام نے اسے صرف اور صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد ۹ ہجری کو آنحضرتؐ خود حج پر تشریف نہیں لے گئے تھے بلکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امارت میں مسلمانوں کو حج کے لیے بھجوایا تھا۔ البتہ اس موقع پر حرمِ مکہ میں اہتمام کے ساتھ یہ اعلان کرا دیا کہ اگلے سال سے کوئی کافر اور مشرک حج کے لیے بیت اللہ میں نہیں آسکے گا۔ چنانچہ ۱۰ ہجری میں جناب نبی اکرمؐ نے جب خود حج کی امارت و قیادت فرمائی تو اس موقع پر صرف مسلمان ہی ان کے ساتھ تھے، کسی کافر و مشرک کو حج میں شریک ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
- جاہلیت کے دور میں حج کرنے والوں میں سے بیشتر افراد بیت اللہ کا طواف برہنہ حالت میں کرتے تھے۔ عورتیں ایک معمولی سی لنگوٹی باندھتی تھیں جبکہ مرد بالکل برہنہ ہوتے تھے۔ ان میں سے کسی کو قریشِ مکہ (بیت اللہ کے مجاورین) میں سے کوئی لباس دے دیتا تو وہ پہن لیتا تھا ورنہ بے لباس ہو کر طواف کرنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ اور ان کی دلیل وہی ہوتی تھی جو آج کل مغرب کے نیچرل کلبوں میں جانے والے پیش کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں چونکہ برہنہ آئے ہیں اس لیے ہماری نیچرل کیفیت وہی ہے اور ہم اسی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا پسند کرتے ہیں۔ لیکن جناب رسول اکرمؐ نے اس پر پابندی لگا دی۔ چنانچہ جہاں کافروں اور مشرکوں کو حج بیت اللہ کے لیے حرم کعبہ میں آنے سے روک دیا وہاں یہ بھی اعلان کرا دیا کہ آج کے بعد کوئی بھی برہنہ شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکے گا۔
- جاہلیت کے دور میں ایک رواج یہ بھی تھا کہ حج کا احرام باندھ کر منیٰ جانے والوں میں سے کسی شخص کو اگر کسی ضرورت کے لیے مکہ مکرمہ میں اپنے گھر آنا پڑتا تو وہ گھر کے عام دروازے سے داخل نہیں ہوتا تھا بلکہ پشت کی جانب سے چھت کے ذریعے گھر میں آتا، یا دیوار میں نقب لگا کر راستہ بناتا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ حج مکمل ہونے سے پہلے گھر کے دروازے سے واپس آنے کی صورت میں شاید حج ناقص رہ جاتا ہے اس لیے انہوں نے یہ حیلہ اختیار کیا تھا۔ مگر قرآن کریم نے اس سے منع فرما دیا اور کہا کہ احرام کی حالت میں اگر کسی ضرورت سے گھر واپس آنا پڑے تو عام دروازے سے ہی گھر میں داخل ہوں، اس سے حج پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
- جاہلیت کے دور میں ایک رسم یہ تھی کہ باہر سے آنے والے حاجی حضرات تو عرفات کے وقوف کے لیے عرفات میں ہی جاتے تھے لیکن قریشی حضرات حرم کی حدود سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ’’حمس‘‘ ہیں اس لیے ہم عرفات نہیں جائیں گے۔ حمس کا لفظی ترجمہ بہادر ہے لیکن اگر اس کا ترجمہ ’’وی آئی پی‘‘ کر لیا جائے تو زیادہ بہتر طور پر اس کا مفہوم سمجھ میں آسکتا ہے کہ ہم چونکہ وی آئی پی ہیں اس لیے ہم پر عرفات تک جانا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اسلام نے اس رسم کو توڑ دیا اور حضور نبی اکرمؐ نے خود عرفات میں وقوف کیا۔ جبکہ قرآن کریم میں قریشیوں کو ہدایت کی گئی کہ حج کے وقوف کے لیے جہاں دوسرے لوگ جاتے ہیں تم بھی وہاں جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کوئی وی آئی پی سسٹم نہیں ہے۔
- جاہلیت کے دور میں حج کے ایام میں عمرہ ادا نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی اسے پسند کیا جاتا تھا۔ وہ لوگ کہتے تھے کہ حج کے دنوں میں صرف حج کیا جائے، عمرہ کے لیے باقی سارا سال پڑا ہے۔ لیکن جناب رسول اللہؐ نے یہ رسم توڑ دی اور حجۃ الوداع میں اپنے ساتھ آنے والے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ وہ عمرہ ادا کر کے احرام کھول دیں اور آٹھ ذی الحجہ کو حج کے لیے نیا احرام باندھیں۔ بہت سے لوگوں کو اس پر تعجب ہوا لیکن آپؐ نے حج کے ایام میں لوگوں سے عمرہ کرایا۔ اس پر ایک صحابی حضرت سراقہ بن مالکؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ سہولت صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ سہولت ہمیشہ کے لیے ہے کہ حج کے لیے آؤ تو عمرہ بھی کر لو تاکہ ایک ہی سفر میں دونوں سعادتیں حاصل ہو جائیں۔
- جاہلیت کے دور میں حج کے دوران ایک اور بات بھی ہوتی تھی کہ صفا و مروہ کی سعی سارے حاجی نہیں کرتے تھے، اسے صرف قریش کے لیے مخصوص سمجھا جاتا تھا۔ قریش اور ان کے حلیف قبائل بیت اللہ کے طواف کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرتے تھے۔ جبکہ دوسرے قبائل جن میں انصارِ مدینہ کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج بھی شامل ہیں، طوافِ کعبہ کے بعد اپنے اپنے بت خانوں کا رخ کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صفا و مروہ کی سعی صرف قریش کے لیے ہے اس لیے کہ جس خاتون (حضرت ہاجرہؓ) کی سنت کے طور پر یہ سعی کی جاتی ہے وہ قریش کی ماں تھی۔ لیکن آنحضرتؐ نے فتح مکہ کے بعد تمام بت خانے ختم کرا دیے اور پورے جزیرۂ عرب میں کوئی بت خانہ باقی نہ رہنے دیا تو انصارِ مدینہ کو بطور خاص یہ الجھن پیش آئی کہ وہ طوافِ کعبہ کے بعد کیا کریں گے؟ اس پر قرآنِ کریم میں حکم نازل ہوا کہ صفا و مروہ بھی بیت اللہ کی طرح شعائر اللہ میں سے ہیں، اس لیے جو لوگ حج یا عمرہ کے لیے آئیں وہ بیت اللہ کے طواف کے ساتھ صفا و مروہ کی سعی بھی کریں۔ اس طرح حج یا عمرہ کے لیے آنے والے تمام حضرات کے لیے صفا و مروہ کی سعی کو ضروری قرار دیا گیا۔
- سب سے بڑی تبدیلی یہ کی گئی کہ بیت اللہ اور اس کے اردگرد کے ماحول میں مشرکین عرب نے سینکڑوں بت نصب کر کے اسے بت خانہ بنا رکھا تھا جہاں اللہ تعالیٰ کی بندگی کے ساتھ ساتھ ان بتوں کی پوجا پاٹ بھی ہوتی تھی۔ جناب رسول اللہؐ نے بیت اللہ اور مسجد حرام کو ان بتوں سے پاک کر کے اس ماحول کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے خاص کر دیا کہ اب یہاں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوگی، اس کے علاوہ کسی اور کو یہاں نہیں پکارا جائے گا۔
یہ وہ چند تبدیلیاں اور اصلاحات ہیں جو حج کے پہلے سے چلے آنے والے نظام میں حضور نبی کریمؐ نے نافذ فرمائیں۔ انہی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس مقدس فریضہ سے اسلام کا مقصود کیا ہے اور وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس مرکز میں ہر سال جمع کر کے انہیں کیا سبق دینا چاہتا ہے۔