سب سے پہلے تو اِس خطاب یعنی ’’مجددِ الفِ ثانی‘‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ’’الف‘‘ ہزار کو کہتے ہیں۔ ’’الفِ ثانی‘‘ یعنی دوسرا ہزاریہ۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک ہزار سال گزرنے کے بعد جو دوسرا ہزاریہ شروع ہوا تھا مجدد صاحب اس کے آغاز میں آئے۔ وہ دسویں صدی ہجری کے آخر میں پیدا ہوئے اور ان کی محنت کا جو دورانیہ ہے وہ گیارہویں صدی کے پہلے تین عشرے ہیں۔ ۱۰۳۲ء تک حضرت مجدد الفؒ ثانی نے اپنی علمی و دینی خدمات سر انجام دیں۔ چنانچہ انہیں دوسرے ہزاریے کا مجدد کہا جاتا ہے۔
’’مجدد‘‘ ہماری شرعی اصطلاح ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ پاک ہر صدی کے آغاز میں ایک عالم، ایک شخصیت کو بھیجتے ظاہر کرتے ہیں جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دین میں جو کمی بیشی ہوتی ہے ان کی اصلاح کرتا ہے اور دین کو اصلی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ ایک فرد بھی ہوتا ہے، کئی افراد بھی ہوتے ہیں، جماعتیں بھی ہوتی ہیں۔ الغرض حالات کے مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ دین کی تجدید کا کام اشخاص سے یا جماعتوں سے لیتے رہتے ہیں۔ اور تجدید کا معنٰی یہ ہے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دین میں جو رسوم وغیرہ شامل ہوتی رہتی ہیں ان کی چھانٹی کر کے اسلام کو اس کی اصل صورت میں پیش کرے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ دین کا اصل ہے اور فلاں فلاں چیزیں اس میں زائد ہیں۔ یا پھر یہ کہ دین کے جو احکام و تعلیمات پس پشت چلے جاتے ہیں ان کو از سر نو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
حضرت مجدد صاحبؒ صدی کے مجدد تھے لیکن انہیں ہزار سال کا مجدد کہا جاتا ہے۔ مجدد الف ثانی ، یعنی دوسرے ہزار سال کے مجدد۔ حالانکہ مجدد تو ہزار سال کا نہیں ہوتا مجدد کی ضرورت تو وقتاً فوقتاً پڑتی رہتی ہے۔ اگر اس اصطلاح میں بھی بات کریں تو یہ گیارہویں صدی کے مجدد ہیں لیکن معروف ’’مجدد الف ثانی‘‘ یعنی دوسرے ہزار سال کے مجدد کے نام سے ہوئے۔ اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ دسویں صدی کے اختتام پر ہندوستان میں اکبر بادشاہ کے نام سے ایک بادشاہ گزرا ہے، اسے مغلِ اعظم بھی کہتے ہیں اور اکبراعظم بھی۔ دنیا کے اعتبار سے بڑا با جبروت حکمران تھا، اس کی بڑی سلطنت تھی اور اس نے بڑی حکومت کی۔ اکبر نے دین کے حوالے سے کچھ اضافے اورتبدیلیاں کی تھیں۔ ان تبدیلیوں کے بارے میں اس سے یہ کہا گیا کہ دین کا ایک ہزار سال پورا ہوگیا ہے اب نئے ہزار سال کے لیے دین کی نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت ہے۔ اکبر اعظم کو اگلے ہزار سال کے لیے مجتہدِ اعظم کا لقب دے کر دین کا داعی اور شارح کہا جاتا تھا کہ اگلے ہزار سال کے لیے اس کا دین چلے گا۔ اور اس کے دین کو ’’دین الٰہی‘‘ کا نام دیا گیا۔ چونکہ دین الٰہی والوں کا دعویٰ ہزار سال کا تھا کہ اگلے ہزاریے کے لیے اکبر کا دین چلے گا۔ اس لیے اس کے جواب میں مجدد صاحب کو بھی الف ثانی کا خطاب دیا گیا کہ دین الٰہی کے خلاف وہ میدان میں آئے اور انہوں نے سب سے زیادہ اس کا مقابلہ کیا چنانچہ وہ مجدد الف ثانی کہلانے لگے۔
شیخ احمد ان کا اصل نام ہے جو کہ کم لوگوں کو معلوم ہے۔ سرہند ،مشرقی پنجاب میں ایک علاقہ ہے یہ وہاں کے بزرگ تھے اور نقشبندی خاندان کے بڑے مشائخ میں سے تھے۔ اللہ پاک نے بڑے علم اور فضل سے نوازا تھا۔ روحانی اعتبار سے بھی اور علمی اعتبار سے بھی بڑے اونچے مقام پر فائز کیا تھا۔ عالم بھی چوٹی کے تھے اور صوفیاء میں بھی ان کا بڑا مقام تھا۔ نقشبندی سلسلے میں اپنے دور کے بڑے صوفی تھے اور نقشبندی سلسلے میں بھی ان کو مجدد کی حیثیت حاصل ہے کہ ان سے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔ حضرت شیخ احمد فاروقی، المعروف مجدد اَلف ثانی ؒ ۔ اکبر کا دور ان کے سامنے نہیں گزرا لیکن اکبر کے جانشین جہانگیر کا دور ان کے سامنے گزرا۔ مغل بادشاہ جہانگیر مجدد صاحب کا معاصر تھا۔ اس کے اول دور میں مجدد صاحب قید رہے جبکہ بعد کے دور میں اس کے مصاحب بھی رہے۔ مجدد صاحب کی ساری محنت کا میدان جہانگیر بادشاہ کا دور تھا۔
وہ مختلف میدان جن میں حضرت مجدد الفؒ ثانی نے سب سے زیادہ محنت کی ان میں ایک میدان تصوف کا ہے۔ تصوف میں بہت سی باتیں ایسی شامل ہوگئی تھیں اور بہت سے رجحانات ایسے آگئے تھے جو شریعت سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، شرعی حدود سے بڑھ گئے تھے اور غلو کے زمرے میں آتے تھے۔ چنانچہ مجدد صاحب کا ایک میدان تھا تصوف کی اصلاح اور تصوف میں حد سے بڑھ جانے والے جو کام تھے ان کی نشاندہی۔ مجدد صاحب ؒ تصوف کو اس کے اصل رخ پر لائے کہ اصل تصوف کی بنیاد شریعت ہے۔ جو چیز شریعت کے مطابق ہے تصوف میں وہ درست ہے اور جو شریعت کے دائرے کی نہیں ہے وہ تصوف میں بھی درست نہیں ہے۔ جب ایک کام چلنے لگتا ہے تو بہت سی باتیں شامل ہونے لگتی ہیں کچھ جائز اور کچھ ناجائز۔ تو مجدد صاحب ؒ کا ایک میدان یہ تھا کہ تصوف میں جو نئے ایسے رجحانات آگئے تھے جو اسلامی عقائد اور شریعت کے احکام سے ٹکراتے تھے مجدد صاحب نے ان کی چھانٹی کی ان صفائی کی اور اصل تصوف جو شریعت اور احکام اسلام کے دائرے کی چیز ہے اسے واضح کیاہے۔ چنانچہ انہیں مجددِ تصوف بھی کہتے ہیں اور مجددِ نقشبندیت بھی کہتے ہیں کہ وہ اس میدان میں بڑے آدمی تھے۔ انہوں نے واقعتاً بہت ساری خرافات وغیرہ کی چھانٹی کر کے، جو تصوف کی باتیں شریعت کے دائرے کی تھیں، انہیں از سر نو پیش کیا۔
حضرت مجدد صاحبؒ کی جدوجہد کا ایک دائرہ اور بھی تھا اور وہ تھا اہل سنت عقائد کا دفاع۔ ہندوستان میں یہ بحران ہمیشہ سے رہا ہے بالخصوص ہمایوں بادشاہ اور اس کے بعد سے۔ شیر شاہ سوریؒ سے شکست کے بعد ہمایوں کی حکومت کی بحالی میں ایران کے صفوی حکمرانوں کا بڑا ہاتھ تھا جس کے ساتھ ہندوستان میں شیعہ فکر آگئی تھی۔ جب شیعہ فکر ایک حد سے آگے بڑھی تو مجدد صاحبؒ نے اس کا بھی مقابلہ کیا اور اہل سنت کے عقائد کی طرف توجہ دلائی۔ دین میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیثیت، صحابہؓ کی تعلیمات اور خلفائے راشدین کے مقام و عظمت کی اشاعت کی۔ چنانچہ ایک میدان مجدد صاحبؒ کی جدوجہد کا یہ بھی تھا کہ انہوں نے اہل سنت کے اصل عقائد کو ، صحابہ کرامؓ کے دینی مقام کو اور صحابہ کرامؓ کی تعظیم کو لوگوں کے سامنے واضح کرنے کے لیے اس میدان میں محنت کی۔
حضرت مجدد صاحبؒ کی جس جدوجہد کو تاریخ میں سب سے زیادہ سراہا جاتا ہے اور جس کا تمام مورخین اور مفکرین نے بڑے اہتمام سے ذکر کیاہے وہ ہے اکبر کے دین الٰہی کے خلاف جدوجہد۔ اکبر کا دین الٰہی یہ تھا کہ اس کے درباری علماء نے یہ بات آہستہ آہستہ اکبر کے ذہن نشین کرانا شروع کر دی کہ ایک ہزار سال مکمل ہوگیا ہے اور اگلا ہزار سال شروع ہوگیا ہے۔ پچھلے ہزار سال میں دین کی جو تعبیرات تھی اور دین کا جو علمی ڈھانچہ تھا وہ پرانا ہوگیا ہے۔ اب دین کی نئی تعبیر اور نئے علمی و فکری ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ اور اکبر کے درباری علماء نے اسے اس بات پر اکسایا کہ اکبر یہ کام کر سکتا ہے اس لیے کہ وہ بادشاہ ہے، اختیارات کا مالک ہے اور مجتہد اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ بات قابل تسلیم ہے کہ اکبر مغلوں میں سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ اکبر اعظم اور مغل اعظم کے نام سے اسے یاد کیا جاتا ہے۔ ہمارے مورخین کا یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ درباری علماء نے اکبر کو ورغلا کر اس معاملے میں خراب کیا لیکن تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں ایک بات اور کہنا چاہوں گا ۔ میرے تجزیے کے مطابق اصل بات یہ ہوئی کہ یورپ میں ’’اصلاح مذہب‘‘ کی تحریک چلی تھی جو مارٹن لوتھر کی تحریک کہلاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اکبر کے دین الٰہی کی تحریک بھی مارٹن لوتھر کی اصلاح مذہب کی تحریک سے متاثر ہو کر پروان چڑھی۔ کیونکہ مارٹن لوتھر کا دور دسویں صدی ہجری کا آخر ہے جبکہ عیسوی اعتبار سے یہ سولہویں صدی بنتی ہے۔ مارٹن لوتھر نے ۱۵۴۶ء میں وفات پائی جبکہ اکبر پیدا ہوا ۱۵۴۲ء میں اور فوت ہوا ۱۶۰۵ء میں۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب میں پوپ کے خلاف تحریک چلی تھی اور مذہب پر پوپ کی اجارہ داری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ کیتھولک عیسائیت میں مذہب کی تشریح اور تعبیر کا مکمل اختیار پاپائے روم کے ہاتھ میں ہے۔ پاپائے روم اور اس کی کونسل کی تشریح کو ہی مذہب سمجھا جاتا ہے اس میں کسی دلیل کی ضرورت یا کسی چیلنج کی گنجائش نہیں ہوتی۔ تو مارٹن لوتھر نامی ایک پادری نے پاپائے روم کی اس اتھارٹی کو چیلنج کیا تھا یہ کہہ کر کہ ہم مذہب پر پاپائے روم کی اجارہ داری نہیں مانتے اور بائبل کی تشریح میں پاپائے روم کو ہم فائنل اتھارٹی تسلیم نہیں کرتے۔ یہ ایک لمبا قصہ ہے کہ مارٹن لوتھر نے کس طرح بغاوت کر کے اصلاح مذہب کی تحریک چلائی اور پھر اس کے نتیجے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس تحریک کے نتیجے میں عیسائیت میں ایک نیا فرقہ پروٹسٹنٹ کے نام سے تشکیل پایا، اس بنیاد پر کہ مذہب کی تشریح پر چرچ اور پاپائے روم کی اجارہ داری نہیں ہے۔ جو آدمی بھی بائبل کو کامن سینس سے سمجھ لیتا ہے وہی اس کی تشریح ہے۔ اس تحریک کو کئی ناموں سے یاد کرتے ہیں، اصلاح مذہب کی تحریک ، آزاد ی کی تحریک، لبرٹی اور ذہنی آزادی کی تحریک وغیرہ۔
میرا یہ خیال ہے کہ مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے اثرات ہندوستان میں آئے اور یہاں بھی یہ سوچ پیدا ہوئی کہ مذہب پر مولوی کی اجارہ داری ختم کی جائے اور ہر آدمی کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق دین کی تشریح کرے۔ چنانچہ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کا تصور پیش کیا گیا کہ اسلامی فکر اور علم کا نیا ڈھانچہ تشکیل میں لایا جائے جس کا آغاز کرنے کے لیے انہوں نے اکبر بادشاہ کا انتخاب کیا۔ چنانچہ تاریخ میں یہ بڑی تفصیل سے مذکور ہے کہ اکبر کی اِس بات کی طرف توجہ دلائی گئی کہ یہ کام آپ کر سکتے ہیں، آپ صاحب اختیار ہیں صاحب دانش ہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ اکبر کو اس کام کے لیے تیار کر لیا گیا۔ چنانچہ ہوا یہ کہ اکبر کے دور میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ بادشاہ سلامت مجتہد اعظم ہیں، اس لیے قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر، نیز فقہاء کے جو اختلافات ہیں ان میں سے کسی چیز کو متعین کرنا وغیرہ یہ سب اختیارات اکبر کو حاصل ہیں۔ اکبر جو کہہ دے گا وہ دین ہوگا اکبر جو اعلان کر دے گا وہ شریعت ہوگی۔ اور پھر اکبر کے نام سے اکبر کی ترکیبات و خیالات ایک نئے مذہب کے طور پر پیش کر دیے گئے جسے ’’دین الٰہی‘‘ کا نام دیا گیا۔ اکبر کے دین الٰہی کی بہت سی تفصیلات کتابوں میں مذکور ہیں، اس حوالے سے دو اہم کتابیں یہ ہیں
- ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ از حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ۔ اس کتاب کی ایک مکمل جلد اسی حوالے سے ہے۔
- ’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ از حضرت مولانا سید محمد میاں دہلویؒ ۔ اس کتاب کی پہلی جلد اسی موضوع پر ہے۔
اکبر بادشاہ کا دین الٰہی ایک طرف تو یہ تھا کہ دین کی ایک نئی تعبیر و تشریح کی گئی اور دین کا ایک نیا ڈھانچہ بنایا گیا۔ اور دوسری طرف یہ کہ اس میں ہندوستان میں بسنے والے سارے مذاہب کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ سکھوں کا تو شاید اس زمانے میں ابھی آغاز ہی تھا پوری طرح سامنے نہیں آئے تھے۔ ہندو، عیسائی ، پارسی، مجوسی اور مسلمان ، ان سب کی موٹی موٹی باتیں شامل کر کے ایک ملغوبہ بنایاگیا۔ چنانچہ اکبر کے دین الٰہی میں سورج کی پرستش بھی تھی اور اللہ کی عبادت بھی۔ حلال و حرام کے احکامات بھی تبدیل کر دیے گئے۔ سور اور شراب کو جائز قرار دیا گیا ۔ زنا کو بھی بعض شرطوں کے ساتھ جائز قرار دیا گیا۔ دوسری شادی حرام قرار دے دی گئی۔ ایک لمبی فہرست ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا لیکن اسے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے باقاعدہ حکومت کی طرف سے رائج کیا گیا کہ ہندوستان کا مذہب یہ ہوگا اور لوگوں کو اِس کے احکام و ضوابط کی پابندی کرنی ہوگی۔
اس وقت علماء حق نے اپنے طور پر مزاحمت کی جہاں جہاں وہ کر سکتے تھے لیکن سب سے زیادہ محنت اس پر حضرت مجدد الفؒ ثانی نے کی۔ اسی طرح جیسے پہلے زمانوں میں بڑے علماء نے اپنے دور کے چلینجز کا سامنا کیا اور ان کے خلاف جدوجہد کی۔ چنانچہ ایک زمانے میں اکابر علماء نے خلق قرآن کے مسئلے پر معتزلہ کا مقابلہ کیا جن میں سب سے زیادہ امام احمد بن حنبلؒ سامنے آئے۔ ہمارے ہاں یہ ایک مغالطہ پایا جاتا ہے کہ معتزلہ کے خلاف ان کے علاوہ کوئی بولا نہیں، یہ بات غلط ہے۔ اس زمانے میں بھی علماء کی بڑی تعداد نے معتزلہ کے اس تسلط کے خلاف آواز اٹھائی اور قربانیاں دی لیکن چونکہ سب سے زیادہ نمایاں امام بن حنبلؒ تھے اس لیے وہ ساری جدوجہد ان کے نام منسوب ہوگئی۔ اسی طرح اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کے بارے میں بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں علماء نے آواز اٹھائی اور اسے قبول کرنے سے انکار کیا لیکن اس پر سب سے منظم جدوجہد چونکہ حضرت مجدد صاحبؒ نے کی اس لیے ایک بات تو یہ کہہ دی جاتی ہے کہ ساری لڑائی مجدد صاحبؒ نے لڑی۔ اور پھر ساتھ یہ جملہ بھی شامل کر دیا جاتا ہے کہ مجدد صاحب کے علاوہ کوئی بولا نہیں، یہ دوسری بات غلط ہے۔ اگر آپ یہ کتابیں ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ اور ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ پڑھیں تو آپ کو بہت سے علماء ملیں گے جنہوں نے مقابلہ کیا مزاحمت کی اور آواز اٹھائی ۔ ہاں ان میں سب سے نمایاں حضرت شیخ احمد سرہندیؒ تھے۔
یہ ایک مستقل موضوع ہے کہ حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد کا طریق کار کیا تھا۔ حضرت مجددؒ نے مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کیا اور وہ براہ راست مقابلے پر یعنی میدان جنگ میں نہیں آئے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی جدوجہد کا سب سے بڑا پہلو یہ بیان کیا جاتا ہے اکبر کے دین الٰہی کے خلاف ان کی محنت علمی و فکری تھی۔ انہوں نے جہانگیر کے دربار میں، جہانگیر کے فوجیوں میں، جہانگیر کی بیوروکریسی اور اس کے سرداروں کے ساتھ رہ کر ان کی ذہن سازی کی۔ حضرت مجدد الفؒ ثانی کے کام کا سب سے بڑا ذخیرہ ان کے مکتوبات ہیں۔ مجدد صاحبؒ نے جہانگیر بادشاہ کے جو بڑے بڑے معاون تھے، درباری تھے، حکمران تھے، سردار تھے، جرنیل تھے، ان سے خط و کتابت کے ذریعے شخصی رابطے کیے۔ لابنگ اور بریفنگ کے ذریعے اپنے موقف پر ان کی حمایت حاصل کی۔ اور آج کا بڑا ہتھیار بھی یہی ہے۔ بریفنگ کرنا اور لابنگ کرنا، مقابلے پر آئے بغیر، کوئی محاذ گرم کیے بغیر، ساتھ مل جل کر ذہن سازی کرنا اور اصلاح کرنا ۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ عوام میں جلسے کریں، لوگوں کو حکمرانوں کے خلاف اکسائیں اور بغاوت کا ماحول پیدا کریں، انہوں نے سرداروں کو مخاطب کیا اور ان سے بات چیت کی۔ بلکہ جہانگیر کے اپنے مصاحبین میں ساڑھے تین سال تک رہ کر ایک ایک کی ذہن سازی کی۔ حتیٰ کہ ان کی اس محنت کا ثمرہ یہ نکلا کہ خود جہانگیر نے اپنے باپ کے دین سے دستبرداری اختیار کی اور دین اسلام کے اصل عقائد کی طرف واپس لوٹ آیا۔
حضرت مجدد صاحبؒ کی جدوجہد کی ایک خاص بات جو ذکر کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ گوالیار کے قلعے میں قید رہے۔ اگرچہ اس کا ظاہری سبب یہی تھا کہ انہوں نے جہانگیر کے دربار میں سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جہانگیر کے دربار کا یہ پروٹوکول تھا کہ جو آتا تھا پہلے سجدہ کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ اور الزامات بھی تھے، مجدد صاحب کو گرفتار کر کے گوالیار کے قلعے میں بند کر دیا گیا۔ جہانگیر نے اپنی ’’تزک جہانگیری‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ابتداء میں تو ذکر اِس طرح ہے کہ کوئی دھوکے باز پیر تھا جسے میں نے پکڑ کر قید کر دیا۔ دو چار جملے اس طرح کے ذکر ہیں۔ لیکن حضرت مجدد الفؒ ثانی نے صبر و حوصلے اور تحمل کے ساتھ اصلاح کا طریقہ اختیار کیا۔ بلکہ ایک روایت ہے جسے بعض مؤرخین صحیح تسلیم نہیں کرتے، وہ یہ کہ جب مجدد صاحب گوالیار کے قلعے میں بند تھے تو خانِ خاناں جو مجدد صاحبؒ کا مرید تھا اور جہانگیر کا وزیر اعظم تھا، اس نے مجدد صاحب کو پیشکش کی کہ اگر اجازت ہو تو مارشل لاء لگا دوں۔ یعنی آپ کو جہانگیر کی جگہ پر لے آؤں اور جہانگیر کو آپ کی جگہ پر لے جاؤں۔ تو مجدد صاحب نے انکار کر دیا کہ فقیر اقتدار کی ہوس نہیں رکھتا یہ تو بس ان کی اصلاح چاہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی بات کا اثر جہانگیر پر ہوا۔
چنانچہ مجدد صاحبؒ کی جدوجہد کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ جہانگیر کے دور میں ہی اکبر کا دین الٰہی سرکاری قوت کے ساتھ ختم ہوگیا اور جہانگیر اپنے ماضی پر اور بزرگوں کے عقائد اور طرز عمل پر واپس پلٹ گیا۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد اجمل خان صاحبؒ ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ جب ملا نور اللہ شوستری جو جہانگیر بادشاہ کے دربار کا ایک بڑا درباری عالم تھا، اس نے کتاب لکھی جس میں اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہانت کی۔ اِس بات پر جہانگیر کے دربار میں ملا نور اللہ شوستری پر مقدمہ چلا اور اسے موت کی سزا دے دی گئی۔ نور اللہ شوستری کو اہل تشیع کے ہاں شہید ثالث کہا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کی شان میں گستاخی پر اسے جہانگیر بادشاہ نے موت کی سزا سنا دی تھی۔ جبکہ ملکہ نورجہاں شیعہ تھی، وہ پردے کے پیچھے بیٹھا کرتی تھی۔ کہتے ہیں جہانگیر کے پاؤں کے ایک انگوٹھے میں ڈوری بندھی ہوتی تھی جس کا سرا پردے کے پیچھے ملکہ نور جہاں کے پاس ہوتا تھا۔ وہ جہانگیر کے کسی فیصلے پر اپنی رائے ظاہر کرنے کے لیے پردے کے پیچھے سے وہ ڈوری ہلایا کرتی تھی۔ یہ ایک تاریخی روایت ہے، واللہ اعلم کتنی درست ہے۔ ملکہ نور جہاں کے ڈوری ہلانے پر جہانگیر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتا تھا۔ جب جہانگیر ملا شوستری کے بارے میں فیصلہ کرنے لگا تو ملکہ نور جہاں نے پیچھے سے ڈوری ہلائی تو جہانگیر پیچھے مڑ کر کہتا ہے ’’جاناں تُرا جاں دادہ ام ایمان نہ دادہ ام‘‘۔ یعنی میری محبوبہ میں نے جان تیرے حوالے کی ہے، ایمان تیرے حوالے نہیں کیا۔ چنانچہ جہانگیر اصل اِسلام کی طرف واپس پلٹ گیا۔ اس کے بعد مجدد صاحبؒ جہانگیر کے ساتھ رہے۔ اس نے مجدد صاحبؒ کو اصلاح کے لیے اپنے ساتھ رکھا کہ میرے درباریوں کی اصلاح کرتے رہیں۔ اس طرح حضرت مجدد الفؒ ثانیؒ کی محنت کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ اکبر کا وہ دین الٰہی اس کے بیٹے کے دور ہی میں ختم ہوگیا۔
حضرت مجدد الفؒ ثانی کی جدوجہد کا ایک نتیجہ اور نکلا جو کہ ان کی تحریک کا ایک تسلسل تھا۔ کہتے ہیں کہ مجدد صاحبؒ نے مغلیہ خاندان پر بہت محنت کی، وہ تو اس خاندان میں گھس ہی گئے۔ انہوں نے یہ دیکھ لیا کہ حکومت تو مغلوں نے ہی کرنی ہے یہی بادشاہ ہوں گے یہی وزیر ہوں گے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ ان کے ساتھ ٹکراؤ کی فضا قائم کی جائے بہتر یہ ہے کہ ان پر محنت کر کے ان کو راہ راست پر لایا جائے۔ چنانچہ اسی محنت کے نتیجے میں اورنگ زیب عالمگیرؒ بھی سامنے آیا۔ اسے بھی مؤرخین حضرت مجدد صاحب کی تحریک کے ثمرات میں شمار کرتے ہیں۔
چنانچہ دین الٰہی کے خاتمے کے بعد مجدد صاحبؒ کی تحریک کا دوسرا بڑا پھل یہ تھا کہ بات چلتے چلتے اورنگزیب عالمگیرؒ جیسے صحیح العقیدہ مغلیہ بادشاہ پر آگئی۔ ورنہ متحدہ ہندوستان میں ماضی کا تسلسل یہ رہا ہے کہ یہاں مغلوں اور پٹھانوں میں کشمکش رہی ہے۔ محمود غزنویؒ اور شیر شاہ سوریؒ وغیرہ سب پٹھان تھے۔ آج کے دور میں اس کی مثال ایسے سمجھ لیں کہ مغل جو تھے وہ سب شمالی اتحاد تھے اور پٹھان جو تھے وہ سب طالبان تھے۔ مغل نیم لبرل اور شیعہ سے متاثر تھے، جبکہ پٹھان خالص مذہبی اور خالص سنی تھے۔ مغل مذہبی اعتبار سے نیم لبرل تھے وہ مذہب کو مانتے بھی تھے، اس پر عمل بھی کرتے تھے لیکن رواداری اور دنیا داری وغیرہ بھی ساتھ نبھاتے تھے۔ جبکہ شیر شاہ سوری اور محمود غزنوی وغیرہ پکے سنی تھے۔ پٹھانوں کی جتنی لڑی بھی آئی، مضبوط مذہبی اور سنی لوگوں کی آئی۔ جبکہ مغلوں کی جتنی لڑی بھی آئی وہ نیم لبرل تھی اور شیعہ فکر سے متاثر تھی۔ اسی لیے مغلوں میں اورنگزیب عالمگیر کا پیدا ہونا تاریخ کا عجوبہ کہلاتا ہے کہ مغلوں میں طالبان صفت بادشاہ کہاں سے آیا۔ اور یہ بھی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کہ اورنگزیب جیسے متصلب سنی حکمران کے بعد اس کے جانشین بیٹے بہادر شاہ اول نے باقاعدہ شیعہ مذہب اختیار کر لیا اور جمعۃ المبارک کے خطبات میں خلفاء ثلاثہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کا ذکر ممنوع قرار دے دیا جس پر بڑے ہنگامے ہوئے اور لاہور کے عوام نے قلعہ کا باقاعدہ محاصرہ کر لیا۔
میں یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ کشمکش بڑی پرانی ہے، اس دور میں بھی یہی لڑائیاں تھیں۔ حیرانگی کی بات یہ تھی یہ پکا مذہبی اور سنی بادشاہ اورنگزیب مغلوں میں کیسے پیدا ہوگیا۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ حضرت مجدد الفؒ ثانی ؒ کی جدوجہد کے اثرات تھے۔ یہ ان کی محنت کا ثمرہ تھا کہ مغلوں میں اورنگزیب آیا اور پچاس سال تک اس نے یہاں مذہبی طرز پر حکومت کی۔ فتاویٰٰ عالمگیری بھی اس نے مرتب کروایا اور دیگر بہت سی مذہبی روایات بحال کیں جو تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ چنانچہ حضرت مجدد الفؒ ثانی نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیے بغیر ذہن سازی اور لابنگ سے جو خاموش محنت کی اس کے دو بڑے ثمرات مؤرخین ذکر کرتے ہیں۔ ایک جہانگیر کے دور میں اصل دینی عقائد کی طرف واپسی اور دوسرا اَورنگزیب عالمگیر کی صورت میں مغلوں کا ایک خالص سنی مذہبی حکمران دنیا نے دیکھا جس نے پچاس سال تک حکومت کی۔
ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ جب بادشاہ حکومت کرتے ہیں تو اچھے کام بھی کرتے ہیں اور برے بھی۔ کسی بادشاہ کے فرشتہ ہونے کا تصور رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسی طرح اورنگزیب کے بارے میں بھی ابن انشاء نے اپنی تصنیف ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ میں ایک بات لطیفہ کے طور پر لکھی ہے۔ ابن انشاء نے مزاح کے لہجے میں لکھا ہے کہ اورنگ زیب ایک اچھا حکمران اور اچھا بادشاہ تھا۔ وہ دین و دنیا دونوں کا یکساں لحاظ رکھتا تھا، اس لیے اس نے زندگی میں کوئی نماز قضاء نہیں کی اور کسی بھائی کو زندہ نہیں چھوڑا۔ مطلب یہ کہ کوئی بھائی زندہ ہوگا تو بادشاہت میں دخل اندازی کرے گا۔ بہرحال اورنگزیب کے بہت کارنامے ہیں جن میں فتاویٰ عالمگیری، حنفی فقہ کی تجدیدِ نو اور زمانے کے اعتبار سے اس کی تشکیلِ نو وغیرہ شامل ہیں۔
تاریخ اورنگزیب کی جس بات پر سب سے زیادہ اعتراض کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اورنگزیب خود تو ٹھیک ٹھاک کام کرتا رہا لیکن بیٹوں میں سے کسی کی تربیت نہیں کی کہ اس کے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ چنانچہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ اورنگزیب کے بعد جب اس کا بیٹا بہادر شاہ اول برسر اِقتدار آیا تو وہ شیعہ ہوگیا تھا اور جمعے کے خطبے سے خلفاء ثلاثہ کے نام سب سے پہلے اس نے نکلوائے کہ میرے دور میں خلفاء کا نام کوئی نہیں لے گا۔ اِس پر لاہور وغیرہ کے علاقوں میں بہت ہنگامے ہوئے اور احتجاج ہوا، خیر میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا۔
میں ذکر کر رہا تھا کہ حضرت مجدد الفؐ ثانی کا زمانہ گیارہویں صدی کا دور ہے۔ دس صدیاں گزر چکی تھیں اور گیارہویں صدی کا آغاز تھا جب حضرت مجدد الفؒ ثانی نے دین کے مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دیں۔ ان میں سے تین بڑی خدمات میں نے عرض کی ہیں۔
- ایک یہ کہ تصوف کی اصلاح و تجدید۔ تصوف اور صوفیاء کرام کے ماحول میں شریعت سے ہٹ کر جو باتیں شامل ہوگئی تھیں ان کی چھانٹی کی، یہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ انہوں نے تصوف کو اس کے اصل اسلامی رنگ میں پیش کیا۔
- دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ اہل سنت کے عقائد اور روایات کا تحفظ کیا، ان کو جو خطرات پیش تھے ان کا مقابلہ کیا۔ علمی و عوامی دنیا میں یہ حضرت مجدد صاحبؒ کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ کا دفاع ، ان کی تعظیم، ان کے دینی مقام کی وضاحت اور اہل سنت کے عقائد کی تشریح وغیرہ۔ یہ اس دور کا ایک بڑا محاذ تھا۔ اس سلسلے میں حضرت مجدد الفؒ ثانی کے کام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
- تیسرے نمبر پر مغل بادشاہ اکبر نے جو ایک نیا رجحان دیا تھا کہ دین میں تشکیلِ نو بھی ہو سکتی ہے اور اس کا نیا ڈھانچہ بھی بن سکتا ہے اور اس نے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے ایک نیا دین بنا کر رائج بھی کر دیا۔ اس دین میں سورج کی پوجا بھی جائز تھی اور اللہ کی عبادت بھی۔ شراب، سود اور زنا بھی جائز تھے۔ ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتیں شامل تھیں جن کی تفصیل کے لیے میں نے دو کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ اس پر مجدد صاحبؒ نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ، بڑے حوصلے کے ساتھ اور بڑی محنت کے ساتھ علمی و فکری میدان میں کام کیا یہاں تک کہ صورت حال کو بالکل پلٹ دیا۔ یعنی جہانگیر کے دور میں ریورس گیئر لگا جبکہ اورنگزیب عالمگیر کے دور تک جاتے جاتے صورتحال بالکل الٹ ہوگئی تھی۔ اور مؤرخین اس ساری جدوجہد کو علمی و فکری طور پر حضرت مجدد الفؒ ثانی کا بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
یہ میں نے مختصراً حضرت مجدد صاحبؒ کا ایک تعارفی تذکرہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ ہم جب اپنی فکری جدوجہد کا ذکر کرتے ہیں تو ’’مجددی ولی اللّٰہی‘‘ کے نام سے کرتے ہیں۔ ہماری فکری جدوجہد کے پہلے مرحلے کا آغاز حضرت مجدد صاحبؒ سے ہوتا ہے، اس کا دوسرا مرحلہ حضرت شاہ ولی اللہ کے دور کا ہے، جبکہ تیسرا مرحلہ علمائے دیوبند ہیں جو حضرت مہاجر مکی سے شروع ہوتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مجدد صاحبؒ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔