دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد

   
بزم شیخ الہند، گوجرانوالہ
۳۰ مئی ۲۰۲۳ء

(بزم شیخ الہند گوجرانوالہ کے زیر اہتمام منعقدہ ماہانہ فکری نشست سے خطاب جسے حافظ خرم شہزاد نے قلمبند کیا۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بزم شیخ الہند گوجرانوالہ اور اپنے عزیز ساتھی حافظ خرم شہزاد کا شکر گزار ہوں کہ یہاں کسی نہ کسی عنوان سے ماہانہ فکری محفل ہوتی ہے ۔ آج کی نشست کو دارالعلوم دیوبند کے تذکرے سے مخصوص کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند ۳۰ مئی ۱۸۶۶ء کو وجود میں آیا تھا۔ اس مناسبت سے یہ نشست رکھی گئی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا تذکرہ ہو جائے۔ دارالعلوم دیوبند کے تذکرے کے بیسیوں پہلو ہیں۔ ہر پہلو مستقل موضوع کا متقاضی ہے، لیکن بہت ہی اختصار کے ساتھ تین چار پہلوؤں پر گفتگو کروں گا۔

دارالعلوم دیوبند ۱۸۶۶ء میں مدرسہ عربیہ کے نام سے وجود میں آیا۔ بڑھتے بڑھتے دارالعلوم اور ایشیا کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی بنا۔ اس کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ تفصیلات میں جانے کی بجائے ہمارے اکابر میں ایک بزرگ گزرے ہیں۔ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ جو حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے شاگرد ، دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور برصغیر کے چوٹی کے علماء میں شامل ہوتے ہیں، بڑے مؤرخ اور رائٹر تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں دارالعلوم دیوبند کے مقصدِ قیام کے حوالے سے شیخ الہندؒ کا ایک مختصر سا جملہ نقل کیا، جس میں ساری باتوں کا احاطہ ہے۔ کہتے ہیں میں نے خود شیخ الہندؒ سے سنا کہ ”ہمارے بزرگوں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور ان کے رفقاء نے دیوبند کا یہ مدرسہ ۱۸۵۷ء کی ناکامیوں کی تلافی کے لیے بنایا تھا۔“

۱۸۵۷ء میں کیا ہوا تھا؟ انگریز ۱۷۵۷ء میں برصغیر میں آنا شروع ہوا تھا ۔انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے بنگال میں داخل ہوئے۔ سراج الدولہ کو شکست دی۔ اس کے بعد بڑھتے بڑھتے ٹیپو سلطان کو شکست دی۔ پھر لکھنؤ میں آئے اور دوسری جنگیں ہوئیں۔ ایک معرکہ شہدائے بالاکوٹ کا تھا۔ ایک فیصلہ کن معرکہ ۱۸۵۷ء میں ہوا تھا۔ جنوبی ایشیا کے مختلف مراحل میں انگریز غالب آ گیا تھا ، اس نے دہلی پر قبضہ کر لیا، اور پورے جنوبی ایشیا میں اپنا اقتدار قائم کر کے ہماری بساط لپیٹ دی تھی۔ ہم اپنی تاریخ کے زیرو پوائنٹ پر چلے گئے تھے۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ انگریز نے ہماری تعلیم بھی ختم کر دی، یہاں نئی تہذیب داخل کر دی، سسٹم بدل دیا ہر چیز بدل دی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ہماری آزادی ختم ہو گئی تھی۔ ہمارا قانون ختم ہوگیا تھا، اس سے پہلے برصغیر میں فقہ اور شریعت نافذ تھی۔ اورنگ زیب سے پہلے ہر زمانے میں نافذ رہی ہے۔ انگریزوں نے وہ قانون ختم کر اپنا قانون نافذ کر دیا تھا۔ انہوں نے یہاں کی زبان ختم کر دی تھی۔ ہماری علمی زبان عربی تھی اور سرکاری زبان فارسی تھی۔ دونوں ختم کر کے انگریزی زبان لے آئے تھے۔ ہر شعبے میں تبدیلی آگئی تھی۔ ان تبدیلیوں اور ناکامیوں کو کور کرنے کے لیے کہ جتنا کچھ بچا سکتے ہیں بچا لیں، اس لیے دارالعلوم دیوبند بنا تھا۔ شیخ الہندؒ فرماتے ہیں کہ ۱۸۵۷ء میں جو ہمارے نقصانات ہوئے تھے۔ ان کی تلافی اور کور کرنے کے لیے یہ مدرسہ بنا تھا۔

اس حوالے سے کہ دارالعلوم دیوبند نے کون کون سے شعبے میں کام کیا ہے۔ اس کی بجائے اگر میں یوں کہوں تو بجا ہوگا کہ دارالعلوم دیوبند نے کون سے ملی شعبے میں کام نہیں کیا؟ کون سی ملی علمی، فکری، سیاسی، قانونی، معاشرتی، تہذیبی ضرورت تھی، جس میں دارالعلوم دیوبند نے کردار ادا نہیں کیا؟ دارالعلوم دیوبند نے آزادی کی جنگ کے لیے سیاست میں قیادت فراہم کی۔ تعلیم کی دنیا میں پورے جنوبی ایشیا میں متوازی نظام تعلیم دیا۔ جو آج تک ہمارے لیے قابل فخر اور جن کے خلاف قائم کیا تھا ان کے لیے درد سر ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے عربی زبان بھی باقی رکھی، فارسی کی تعلیم بھی باقی رکھی اور اپنا ماحول بھی باقی رکھا۔ یہاں تہذیب جدید کے نام سے وہ کچھ شروع کر دیا گیا تھا جو باقی مسلمان ملکوں میں ہو چکا تھا، لیکن وہ یہاں نہیں ہو سکا۔ ہمارا لباس بھی قائم ہے، داڑھی ، پگڑی ، نماز ، دین کا ماحول بھی قائم ہے۔ ہمارا جو معاشرتی ماحول قائم ہے اس کے پیچھے سب سے بڑی جدوجہد دارالعلوم دیوبند کی ہے۔

عقائد کی دنیا میں سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ہمیں منحرف کرنے کی کوشش کی گئی، عیسائی بنانے کی کوشش کی گئی، اس کا مقابلہ بھی دارالعلوم دیوبند نے کیا۔ پھر انگریز کا ہدف یہ تھا کہ اگر یہ دین نہیں چھوڑتے تو دیندار بھی نہ رہیں۔ لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ میں نے ایسا نظام تعلیم دیا ہے کہ اگر یہ عیسائی نہیں ہوں گے تو مسلمان بھی نہیں رہیں گے۔ یہ درمیان کا راستہ تھا کہ مرتد نہیں ہوتے تو ملحد اور زندیق تو بنیں۔ چنانچہ عقائد کی غلط تعبیرات کا دروازہ کھولا گیا، انکار حدیث وغیرہ۔ مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کا محاذ بھی دارالعلوم دیوبند نے سنبھالا۔ ختم نبوت کا محاذ بھی دارالعلوم دیوبند نے سنبھالا۔ جب نئی نبوت کے نام نیا فتنہ پیش آیا تو سب سے پہلے علامہ انور شاہ کاشمیری ؒسامنے آئے اور پھر اس محاذ پر لائن لگ گئی، جن کو ہم شمار بھی نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ یہاں ہمارا ایک پرانا معرکہ چلا آرہا تھا حضرات صحابہ کرامؓ کے دفاع اور ناموس کے تحفظ کا، وہ محاذ حضرت مولانا عبدالشکور لکھنویؒ نے سنبھالا اور اس پر کام کیا۔ دارالعلوم دیوبند نے عقائد کے تحفظ کا محاذ ، ناموس رسالت، ختم نبوت، ناموسِ صحابہ کے تحفظ اور لوگوں کی اصلاح کا محاذ سنبھالا کہ لوگوں میں دین اور دین کا ماحول باقی رہے۔ یہ آٹھ دس شعبے بنتے ہیں ان میں سے ہر شعبے میں دارالعلوم دیوبند صفِ اول میں نظر آئے گا۔

دارالعلوم دیوبند نے ایک کام اور کیا۔ انگریزوں نے یہاں اپنا قانون نافذ کر دیا تھا، ہمارا قانون منسوخ کر دیا تھا، لیکن یہ روایت بھی ہمارے ہاں قائم رہی کہ جن مسائل ، تنازعات اور مقدمات میں ہم اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں پنچایت اور کونسلنگ کی صورت میں، ان کا فیصلہ ہم خود کریں۔ اس کا آغاز بھی دارالعلوم دیوبند نے کیا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ نے شرعی پنچایت قائم کی تھی اور لوگوں سے کہا تھا کہ اپنے جھگڑے میرے پاس لایا کرو یہاں طے کیا کرو۔ چنانچہ وہ دارالعلوم دیوبند میں بیٹھ کر لوگوں کے جھگڑے اور تنازعات حل کیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ ہندوستان میں تو امارت شرعیہ کے نام سے منظم ہے، ہم نے بھی کئی بار کوشش کی۔ دعا کریں کہ ہم آگے بڑھیں۔ یہ ہماری پرانی روایت ہے۔

پہلی بات میں نے حضرت شیخ الہند ؒکے حوالے سے کی ہے کہ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے ہمیں جو جو نقصانات پہنچائے تھے ان نقصانات کی تلافی کے لیے دارالعلوم دیوبند قائم ہوا اور دارالعلوم دیوبند نے ان تمام شعبوں میں کام کیا۔

دوسری بات یہ کہ شخصیات کے حوالے سے ایک پرانی بحث کا حوالہ دوں گا۔ نیچرل بات ہے کہ اپنا استاد اور اپنا پیر سب سے اچھا لگتا ہے، اور لگنا بھیجا چاہیے کہ جس سے فیض ملا ہے اس سے اچھا کون لگے گا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں یہ بحث چل پڑی کہ چودھویں صدی کا مجدد کون ہے؟ ہر صدی کا کوئی نہ کوئی نمایاں مجدد ہوتا ہے جیسے گیارہویں صدی کے مجدد شاہ ولی اللہؒ تھے۔ امت میں سینکڑوں مجددین گزرے ہیں۔ چنانچہ ہم آپس میں ترجیحات میں پڑ گئے۔ جس کو جو استاد اچھا لگا اس نے کہا وہ مجدد ہے۔ حضرت تھانویؒ کی بہت بڑی شخصیت تھی، ان سے جنہیں زیادہ محبت تھی انہوں نے کہا حضرت تھانویؒ مجدد ہیں۔ بعض نے کہا حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ مجدد ہیں۔ بعض نے کہا مولانا عبیداللہ سندھیؒ مجدد ہیں۔ بعض کا کہنا تھا کہ علامہ انور شاہ کاشمیریؒ مجدد ہیں۔ یوں آٹھ دس مجددین میں ترجیحات کی بحث چل پڑی۔ اس پر بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھیں۔ حضرت تھانویؒ، حضرت مدنیؒ، حضرت کاشمیریؒ اور حضرت سندھیؒ کے حوالے سے کہ اس صدی کے مجدد یہ ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ہر ایک کو حق حاصل ہے۔

اس پر مولانا سید احمد اکبر آبادیؒ نے ایک محاکمہ لکھا تھا ۔ ان کا تعارف یہ ہے کہ آپؒ اکبر آباد کے تھے، دہلی میں رہتے تھے، مولانا عتیق الرحمٰن عثمانی اور یہ بھائی تھے، آپؒ حضرت شیخ الہندؒ اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے شاگرد، دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کے ممبر اور علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ تھے۔ مجھے ان کی کئی دفعہ زیارت اور ملاقات ہوئی ہے۔ دیوبند اور دہلی میں بھی زیارت ہوئی اور آپؒ گوجرانوالہ بھی تشریف لائے تھے۔ انہوں نے بڑا خوبصورت محاکمہ لکھا۔ میری طالب علمی کی بات ہے ماہنامہ برہان دہلی سے پرچہ نکلتا تھا۔ اس میں مولانا سید احمد اکبر آبادی ؒنے یہ بحث چھیڑی کہ اس صدی کا مجدد کون ہے؟ کئی قسطوں میں وہ مضمون چھپا۔ اس کا خلاصہ عرض کر دیتا ہوں۔ اگر کہیں مل جائے تو فکری دنیا کے لوگوں کو ضرور پڑھنا چاہیے۔

مولانا سعید احمد اکبرآبای نے لکھا کہ یہ تقسیم کار کا دور ہے۔ اجتماعیت اور ٹیم ورک کا دور ہے۔ ہمارے یہ سارے بزرگ اپنے اپنے شعبے کے مجدد ہیں اور جامع المجددین کا مقام دارالعلوم دیوبند کو حاصل ہے۔

تصوف ، اصلاح و سلوک کے میدان میں حضرت تھانویؒ کا ثانی کون ہے؟ علمی دنیا میں انور شاہ کشمیریؒ کا سامنا کون کر سکتا ہے؟ تکلم اور علم کلام کی دنیا میں علامہ عثمانیؒ کا ثانی کوئی نہیں اور سیاست کے محاذ پر حضرت مدنیؒ اور حضرت سندھی ؒکے مقابل کون ہے؟ یہ تقسیم کار ہے ، سبھی اپنے اپنے شعبے کے مجدد ہیں کیونکہ یہ ٹیم ورک کا دور ہے۔ آج کا دور شخصی کام کا دور نہیں ہے، مل کر کام ہوتا ہے۔ کوئی قادیانیت اور ختم نبوت کے محاذ پر کام کر رہا ہے، اور کوئی ناموس صحابہ کے محاذ پر۔ الغرض دین کے جتنے بھی شعبے ہیں ہر شعبے میں کچھ شخصیتوں نے نمایاں نمایاں کام کیا ہے وہ سب اپنے اپنے شعبے کے مجدد ہیں اور جامع المجددین دارالعلوم دیوبند ہے اور اس ساری ٹیم کے سربراہ حضرت شیخ الہند ؒہیں۔ شخصیات کے حوالے سے سات آٹھ قسطوں کا خلاصہ میں نے ایک جملے میں عرض کر دیا ہے۔

تیسرا پہلو کہ دارالعلوم دیوبند نے کیا کیا۔ جو کچھ کیا اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ ہمیشہ نتیجہ خود طے نہیں کرنا چاہیے بلکہ نتیجہ دشمن سے پوچھنا چاہیے۔ ’’ والفضل ما شہدت بہ الاعداء‘‘۔ نتیجہ وہ ہے جس کو مخالف بھی تسلیم کرے۔ خود تو ہم نے نتیجہ بتانا ہی ہے کہ یہ ہوا ۔ اصل نتیجہ وہ ہوتا ہے جسے مخالف بھی تسلیم کرے کہ یہ کام آپ نے کر لیا ہے۔ اس پر ایک حوالہ دوں گا۔ میں نے اس پر لکھا ہے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ برطانیہ کا ایک بڑا اخبار ہے ”دی انڈیپنڈنٹ“ دنیا کے بڑے اخباروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس نے آج کی سِولائزیشن پر ایک فیچر لکھا۔

آج دنیا میں جو فکری کشمکش ہے۔ آج کی فکری کشمکش یہ ہے کہ مغرب انقلاب فرانس کے بعد سے یہ کہہ رہا ہے کہ جب تک مذہب معاشرے اور معاشرتی اجتماعیت سے بے دخل نہیں ہوگا اس وقت تک معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا ۔ انقلاب فرانس کی بنیاد مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی پر ہے۔ اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں وہ اپنی جگہ پر، تاہم مغرب اس دور کو لائٹ کا دور کہتا ہے کہ یہ روشنی کا دور ہے اور انقلاب فرانس سے پہلے کے دور کو اندھیرے کا دور کہتا ہے۔ گویا مغرب کے نزدیک مذہب سے وابستگی اندھیرا ہے اور مذہب سے آزادی روشنی ہے۔ آسمانی تعلیمات کے ساتھ کمٹمنٹ تاریکی کا دور ہے اور آسمانی تعلیمات کے معاشرتی کردار کی نفی لائٹنگ کا دور ہے۔ درمیان میں ایک بات عرض کر دوں۔ میں بھی ان بحثوں میں شریک رہتا ہوں۔ ایک جگہ بحث تھی کہ کیا مغرب کے ساتھ ہماری تہذیبی صلح ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ جس کو وہ روشنی کہتے ہیں ہمارے نزدیک وہ تاریکی ہے اور جس کو ہم روشنی کہتے ہیں ان کے نزدیک وہ تاریکی ہے۔ مغرب کے نزدیک آسمانی تعلیمات اور مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبرداری روشنی ہے۔ جب کہ ہمارے نزدیک مذہب اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی نور ہے اور آسمانی تعلیمات سے بیگانگی اور انسانی خواہشات پر چلنا ظلمات ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا: ’’کتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور‘‘ یہ کتاب ہم نے اس لیے نازل کی ہے کہ اس کتاب کے ذریعے آپ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں ۔ اس لیے میں نے کہا ممکن نہیں ہے کہ ہماری صلح ہو سکے۔

مغرب کہتا ہے کہ دنیا میں بنیاد پرستی واپس آ رہی ہے۔ اس کے نزدیک خدا، رسول، کتابوں اور آسمانی تعلیمات پر یقین رکھنا بنیاد پرستی ہے ۔ ہم مسلمان صرف ان پر ایمان نہیں رکھتے، بلکہ ہم قرآن مجید پر ایمان کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے سسٹم کو بھی مانتے ہیں۔ سنت رسول سے صرف عقیدت نہیں رکھتے، بلکہ سنت کو بطور قانون کے مانتے ہیں۔ اس کو مغرب بنیاد پرستی اور شر کہتا ہے۔ ہم اس کو شر کہتے ہیں وہ اس کو شر کہتا ہے۔ اس لیے مصالحت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا جب بھی ہوگا پانی پت کی لڑائی ہی ہوگی۔ ان شاءاللہ ہوگی۔

اس پس منظر میں ”دی انڈیپنڈنٹ“ نے ایک فیچر لکھا کہ دنیا میں شر کے اصل سرچشمے کون کون سے ہیں؟ شر سے مراد مذہب اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی اور آسمانی تعلیمات کے ساتھ کمٹمنٹ ۔ اس فیچر کا ٹائٹل تھا ”شر کے دو بڑے سرچشمے“ اور اس صفحے ب کے اوپر دو تصویریں تھیں کہ یہ پوری دنیا کے لیے شر کے سرچشمے ہیں۔ ایک تصویر دارالعلوم دیوبند کے دار الحدیث کی تھی اور دوسری تصویر بستی نظام الدین کے مرکز کی تھی۔ جو نیچے فیچر لکھا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی مذہب کی طرف واپسی میں جو تحریکیں کام کر رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ منظم اور سب سے زیادہ مؤثر یہ دو ہیں۔ یہ شر کے دو سرچشمے ہیں۔ ہم ایسی باتوں سے جلدی پریشان ہو جاتے ہیں اور شور مچ جاتا ہے کہ بڑی زیادتی ہوئی، یہ کیا، وہ کیا۔

میں ان دنوں برطانیہ میں ہی تھا۔ برمنگھم میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ سالانہ بڑی کانفرنس ہوتی ہے۔ اس کانفرنس میں ہمارے تین چار مقررین نے بڑے جوش و خروش سے اس کی مذمت کی کہ ہم ”دی انڈیپنڈنٹ“ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ جب میری باری تو میں نے اخبار ہاتھ میں پکڑا اور کہا میں دی انڈیپنڈنٹ کے ایڈیٹر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ اسے چارج شیٹ سمجھ رہے ہیں، میں اسے کریڈٹ سمجھ رہا ہوں۔ ”دی انڈیپنڈنٹ“ نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ لڑائی کہاں ہے اور کن میں ہے۔ لڑائی کی بنیاد کہاں ہیں اور اس میں ہمارے مد مقابل کون کھڑا ہے۔ اور اس نے ٹھیک کہا ہے۔ لیکن ایک فرق ہے کہ ان دونوں میں ایک مینوفیکچر ہے اور دوسرا ڈسٹری بیوٹر ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا دارالحدیث مینوفیکچر ہے اور بستی نظام الدین کا مرکز ڈسٹری بیوٹر ہے۔ لیکن میں تسلیم کرتا ہوں اور اسے کریڈٹ اور تاریخ کا اعتراف سمجھتا ہوں اور انڈیپنڈنٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے دنیا کو یہ بتایا کہ ہمارا مد مقابل کون ہے۔

یہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کا نتیجہ ہے جسے دشمن بھی تسلیم کرتا ہے۔ میں نے دارالعلوم دیوبند کے آغاز کی بات کی ہے کہ کیوں بنا تھا ۔ ایک یہ بات کی کہ کن کن لوگوں نے بنایا، کس کا کیا کیا رول تھا اور اب اس کا نتیجہ بتایا ہے کہ آج دنیا اپنا مقابل دارالعلوم دیوبند کو سمجھ رہی ہے۔ جو واقعی مقابل ہے اور دنیا میں اسلام کی دوبارہ واپسی کا نقطہ آغاز ان شاء اللہ یہی ہو گا۔

میں اختصار کے پیش نظر ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا۔ ہمارے بزرگوں نے وقت کے تقاضوں اور ضروریات کو سامنے رکھا۔ جبر نہیں کیا۔ کسی بھی کام میں وقت کے تقاضے سامنے رکھے کہ کون سی بات ہو سکتی ہے؟ کیسے ہو سکتی ہے؟ اس پر ایک مثال دوں گا۔ تحریک آزادی میں ایک بڑی تحریک ”تحریک ریشمی رومال“ ہے۔ سلک لیٹر سازش کیس۔ پنجاب کے سابق گورنر انگریز تھے انہوں نے اس کی تفصیلات لکھیں۔ میں نے بھی لکھی ہیں۔ آج سے ایک صدی پہلے یہ تحریک چلی تھی ، جس کے قائد حضرت شیخ الہندؒ تھے۔ یہ عسکری تحریک تھی ۔ پورے ملک میں اس کا جال تھا۔ گوجرانوالہ میں بھی اس کا ٹریننگ کا عسکری مرکز تھا جہاں سے اسلحہ پکڑا گیا ، بندے بھی پکڑے گئے اور لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چلا۔ جسٹس دین محمد لائبریری والے نے مقدمہ لڑا تھا۔ دین پور شریف، امروٹ شریف، ترنگزئی میں بھی اس تحریک کے مراکز تھے۔ یہ آخری مسلح تحریک تھی۔ جس کے بعد حضرت شیخ الہندؒ نے ہمارا رخ موڑ دیا تھا کہ اب اسلحے کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ سیاست کی جنگ لڑیں گے۔ تب سے ہم اسی ایجنڈے پر ہیں۔

حضرت شیخ الہندؒ سنگم ہیں۔ آپؒ مسلح تحریک کے آخری آدمی اور عدم تشدد کی تحریک کے پہلے آدمی ہیں۔ ہمارا ایک دور مسلح تحریکوں کا گزرا ہے جس میں ہم نے لڑائیاں اور جنگیں لڑی ہیں۔ اب ہمارا دور عدم تشدد پر مبنی پرامن تحریکوں کا ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی کا پہلا حصہ مسلح تحریک کی قیادت کا ہے اور دوسرا حصہ پُرامن جدوجہد اور عدم تشدد پر مبنی تحریک کا ہے۔ آج ہم اسی ایجنڈے پر ہیں اور کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں، بلکہ پورے شرح صدر کے ساتھ حضرت شیخ الہندؒ کے ایجنڈے پر قائم ہیں۔ اس سے نہ ہم خود ہٹ رہے ہیں اور نہ کسی کو ہٹنے دے رہے ہیں۔

اس پر ایک بات کرنا چاہتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس حضرت شیخ الہندؒ تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم بھی وہی ہیں۔ آپؒ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے، لیکن جب عملی تحریک کی قیادت کا مرحلہ آیا کہ عملاً تحریک میں آنا ہے تو آپؒ نے پہلے دیوبند سے استعفیٰ لیا کہ میری سرگرمیوں کا وزن مدرسے پر نہیں پڑنا چاہیے، میری سرگرمیوں کا مدرسہ کو نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ آپ نے دارالعلوم دیوبند چھوڑا اور دہلی چلے گئے اور یہ کہہ کر گئے کہ آپ اپنا علمی کام کریں۔ میں اپنا تحریکی کام کروں گا۔ الحمد للہ ہم اجتماعی طور پر اب بھی اسی پر قائم ہیں کہ مدرسہ ہماری تعلیم کا مرکز تو ہے، ہماری عملی سرگرمیوں کا مرکز نہیں ہے۔ یہ پالیسی ہمیں حضرت شیخ الہندؒ نے دی اور یہ بہت بڑی حکمت عملی کی بات ہے۔

میں نے تین چار پہلوؤں پر بات کی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کیا تھا، کیوں بنا، کیسے چلا اور آج دنیا دارالعلوم دیوبند کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز دارالعلوم دیوبند ۱۸۵۷ء کی ناکامیوں کی تلافی میں اپنا کردار ہر جگہ جاری رکھے گا اور کامیابی حاصل کرے گا۔

2016ء سے
Flag Counter