قرآن و سنت کا باہمی ربط

   
حوالہ: 
تاریخ: 
۲۰۱۱ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث اور سنت کیا ہے? اس کے حجت اور دلیل ہونے کا کیا درجہ ہے؟ شریعت کے دلائل میں اور شرعی احکام میں اس کی کیا حیثیت ہے؟

حدیث گفتگو کوکہتے ہیں اور سنت طریقے کو۔محدثین کی اصطلاح میں حدیث اور سنت میں فرق بھی ہے اور یہ دونوں مترادف بھی ہیں۔ بعض نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کانام حدیث ہے اور عمل کانام سنت ہے۔ محدثین نے یہ بھی کہا ہے کہ حدیث وہ ہے جو ایک آدھ مرتبہ بیان ہوئی جبکہ سنت وہ ہے جو معمول یا قانون کادرجہ اختیار کر گئی۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آپؐ کی ساری زندگی کے ارشادات حدیث ہیں، جبکہ جن ضوابط اور قوانین پر آپؐ دنیا سے رخصت ہوئے یعنی آپؐ کی زندگی کے جو آخری اقوال و اعمال ہیں وہ سنت کا درجہ رکھتے ہیں ۔

حدیث اور سنت کی مختلف تعبیرات ہیں۔ اسی وجہ سے بہت سے علماء نے یہ کہا ہے کہ حدیث مطلقاً واجب العمل نہیں ہے جبکہ سنت مطلقاً واجب العمل ہے۔ اصولیین کے ہاں یہ بات بھی ہے کہ حدیث میں عموم ہے اور ہر حدیث حجت نہیں ہے ،اس لیے کہ بہت سی احادیث منسوخ ہیں اور بہت سی بچپن کی یا نبوت سے پہلے کی باتیں ہیں۔امام زہری نے اصول حدیث کے بارے میں ایک جملہ کہا ہے جس سے حدیث و سنت کا یہ فرق مزید واضح ہو جاتا ہے انما یوخذ من امر رسول اللّٰہ ؐ الاخر فالاخر الخ حضورؐ کے ارشادات میں جو آخری ہوگا وہ لیا جائے گا۔ حضورؐ کی حیات میں بہت سے معاملات ایسے تھے کہ پہلے عمل کچھ اور تھا لیکن بعد میں بدل کر کچھ اور ہوگیا۔ یہ فطری بات ہے کہ انسان جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے اس کا عمل زیادہ پختہ ہوتا جاتا ہے، یوں انسان کا آخری عمل اس سے پہلے عمل سے ارتقاء کا عمل ہوتا ہے۔
عمومی طور پر حدیث و سنت کو مترادف معنوں میں لیا جاتا ہے۔ اگر مذکورہ بالا فرق ملحوظ رکھے بغیر حدیث کا ذکر ہو تو اس سے عام طور پر حضورؐ کی نبوی زندگی کے اقوال و افعال مراد لیے جاتے ہیں۔ چنانچہ حدیث کہتے کس کو ہیں؟

  1. حدیث یہ ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے کوئی بات زبانِ مبارک سے ارشاد فرمائی ، صحابہ کرامؓ نے سنی، ان میں سے ایک یا ایک سے زیادہ حضرات نے آگے نقل کر دی کہ حضورؐ نے یوں فرمایا۔
  2. حدیث یہ ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے کوئی بات زبان سے نہیں فرمائی بلکہ کوئی عمل کیا جسے صحابہؓ نے دیکھا، ان میں سے کسی صحابیؓ نے اس عمل کو آگے روایت کر دیا کہ میں نے حضورؐ کو یہ عمل کرتے دیکھا کہ حضورؐ نے یہ کام یوں کیا تھا۔
  3. حدیث یہ ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے زبان سے کچھ نہیں فرمایا اور خود کوئی عمل بھی نہیں کیا بلکہ کسی صحابیؓ نے کوئی کام کیا جو حضورؐ نے خود دیکھا یا حضورؐ کے علم میں آیا اور پھر حضورؐ نے اس سے منع نہیں کیا۔ یعنی صحابیؓ کا قول یا عمل حدیث رسولؐ کہلائے گا اس شرط پر کہ وہ حضورؐ کے سامنے ہوا یا حضورؐ کے علم میں آیا لیکن آپؐ نے اس سے منع نہیں کیا۔ حضورؐ کا یہ خاموش رہنا اس بات کی تصدیق سمجھی جائے گی کہ اس صحابیؓ نے جو کہا ٹھیک کہا یا جو کام کیا ٹھیک کیا۔ مثلاً نماز میں ہم رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کے بعد حمدا کثیراطیبا مبارکاً فیہ کا اضافی جملہ پڑھتے ہیں۔ یہ ایک صحابیؓ کا عمل ہے جس کی تصدیق حضورؐ نے کی۔ روایت میں آتاہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ نے نماز سے فارغ ہو کر پوچھا کہ بھئی کسی نے نماز میں عام معمول سے ہٹ کر کوئی خاص جملے کہے ہیں؟ ایک صحابیؓ کہنے لگے یارسول اللہؐ جب میں قومہ میں کھڑا ہوا تو ربنا لک الحمد کہا اور ساتھ یہ جملے کہے۔ آپؐ نے فرمایا کوئی بات نہیں، میں نے دیکھا کہ ان جملوں کو وصول کرنے کیلئے الگ طور پر فرشتے آئے۔ چنانچہ یہ جملہ یا عمل ایک صحابیؓ کا ہے لیکن یہ آپؐ کی سنت شمار ہوگی۔
  4. یہ تو حدیث کی تین معروف قسمیں ہیں جو میں نے ذکر کیں لیکن محدثین کے ہاں ایک اور بات بھی حدیث کہلاتی ہے۔ صحابیؓ کا وہ عمل جو حضورؐ کی زندگی میں ہوا، جو حضورؐ نے دیکھا یا آپؐ کے علم میں آیا اور آپؐ نے اس سے نکیر نہیں فرمائی، یہ تو حدیث ہے۔ لیکن وہ عمل جو صحابیؓ نے حضورؐ کی حیات مبارکہ کے بعد کیا، یا وہ بات جو ایک صحابیؓ نے حضورؐ کے وصال کے بعد کہی تو صحابیؓ کے ایسے عمل یا ایسی بات کی کیا حیثیت ہے؟ آپؐ کی وفات کے سو سال بعد تک صحابہؓ زندہ رہے ۔ فقہاء کرام اور محدثین عظام کہتے ہیں کہ اگر بات ایسی ہے کہ جس کا تعلق رائے یا عقل سے ہے، وہ تو صحابیؓ کا اپنا قول ہے۔ لیکن اگر صحابیؓ نے کوئی بات ایسی کہی جو وحی کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی تو وہ بھی حدیث رسولؐ ہے۔ یعنی ایک بات صحابیؓ نے کہی اور اس بات کی نسبت حضورؐ کی طرف نہیں کی لیکن بات ایسی ہے جو وحی کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی، جس کا تعلق عقل، قیاس اور رائے سے نہیں ہے۔ مثلاً ایک صحابیؓ کہتا ہے کہ قبر میں یہ ہوگا۔ اب ایسی بات وحی کے بغیر تو معلوم نہیں ہو سکتی۔ یا مثلاً کوئی صحابیؓ یہ کہے کہ قیامت کے دن پل صراط پر یہ کچھ ہوگا، یہ بات بھی وحی کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی۔ قول صحابیؓ کا ہے اور صحابیؓ نے اس کی نسبت رسول اللہؒ ؐکی طرف بھی نہیں کی لیکن بات ایسی ہے کہ اس کا معلوم ہونا وحی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تو محدثین یہ کہتے ہیں کہ ایسے موقع پر ہم یہ کہیں گے کہ یہ بات صحابیؓ اپنی طرف سے نہیں کر رہا بلکہ یقیناًاس نے حضورؐ سے یہ بات سنی ہے۔ چنانچہ یہ بھی حدیث رسولؐ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا کہ وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا (سورۃ الحشر) اللہ کا رسولؒ جو چیز تمھیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے تمہیں روکے اس سے رک جاؤ۔ پھر نبی اکرمؐ نے اپنی زندگی میں جو بھی اقوال و افعال فرمائے اللہ تعالیٰ نے ان کی تصدیق بھی فرمائی۔ وہ ایسے کہ قرآن کریم میں چند مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمؐ کے عمل پر ٹوکا کہ آپ کو فلاں کام یوں نہیں بلکہ یوں کرنا چاہیے تھا۔ مثلاً عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ اللہ آپ سے در گزر کرے آپ نے ان لوگوں کو (تبوک کی جنگ سے پیچھے رہنے کی) اجازت کیوں دی؟ اسی طرح یَا اَ یُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ اے نبی! اللہ نے آپ کے لیے جو (شہد) حلال کیا آپ اپنے لیے وہ کیوں حرام کرتے ہیں؟ اور ایک جگہ فرمایا مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُـوٓا اُولِىْ قُرْبٰى نبی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگے۔

یہ میں نے ان باتوں میں سے چند ذکر کی ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو ٹوکا۔ چنانچہ حضورؐ کی ان چند باتوں پر اللہ تعالیٰ کا ٹوکنا در اصل باقی سب باتوں کی تصدیق ہے اس لیے کہ وحی کا سلسلہ تو حضورؐ کے اس دنیا سے رخصت ہونے تک جاری رہا کیونکہ حضرت عزرائیلؑ اکیلے نہیں آئے بلکہ حضرت جبرائیلؑ کو ساتھ لے کر آئے۔ پھر حضرت جبرائیلؑ نے ہی آپؐ سے جان قبض کرنے کی اجازت طلب کی۔ اللہ تعالیٰ نے اگر حضورؐ کے اِن چند کاموں کے علاوہ کسی اور کام کی نکیر نہیں کی تو اس کا واضح طور پر یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کے باقی تمام کاموں کی تصدیق کر دی ہے۔

جناب نبی کریم ؐ نے بہت سی ایسی باتیں اور بہت سے ایسے احکامات ارشاد فرمائے جن کا قرآن کریم کی وضاحت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی ایسی باتیں جن میں صراحتاً یہ تعلق نہیں بتایا جا سکتا کہ آپؐ کا فلاں ارشاد قرآن کریم کی فلاں آیت کی تشریح میں ہے۔لیکن آپؐ کے ایسے بہت سے ارشادات اسلامی قوانین کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ حضورؐ کے وہ احکامات یا وہ ارشادات بھی اللہ ہی کی طرف سے سمجھے جائیں گے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان احکامات کی نکیر نہیں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کےزندگی بھر کے تمام ارشادات میں سے پانچ سات احکامات کی نکیر فرما کر باقی سب کی تصدیق کر دی۔ یوں آپؐ کے وہ ارشادات و احکامات جن کا براہ راست قرآن کریم کی وضاحت سے صریحاً تعلق نہیں، وہ بھی ایسے ہی حجت اور دلیل ہیں جیسے کہ قرآن کریم میں آنے والے احکامات۔

بات ذرا سخت ہے لیکن امرِ واقعہ یہی ہے کہ دلائل کی ترتیب میں قرآن پہلے ہے جبکہ ایمان کی ترتیب میں حدیث پہلے ہے۔ یعنی کسی مسئلے میں ہم دلیل تلاش کرتے ہیں تو پہلے قرآن میں دیکھتے ہیں، پھر سنت میں اور اس کے بعد اجماع و قیاس کی باری آتی ہے۔ لیکن جب ہم ایمان لاتے ہیں تو پہلے حدیث پر ایمان لاتے ہیں اور پھر قرآن کریم پر۔ اس لیے کہ سب سے پہلے ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ حضورؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اس کے بعد ہم حضورؐ کی اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے۔

فہمِ قرآن کے کچھ اصول ہیں جو دنیا کی کسی بھی گفتگو کے اصولوں سے مختلف نہیں ہیں۔ کسی بھی زبان میں ہونے والی گفتگو کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر تین باتیں ضروری ہوتی ہیں۔

  1. پہلی بات یہ کہ اس زبان سے واقفیت ہو جس زبان میں وہ گفتگو کی گئی ہے۔ یہ سادہ سی بات ہے کہ فارسی کا کلام ہوگا تو فارسی جاننا ضروری ہے، اردو کا کلام ہوگا تو اردو زبان کا جاننا ضروری ہے۔ لیکن یہاں ایک بات ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ جس معیار کا کلام ہو اسی معیار کی زبان سمجھنا لازمی ہے۔ مثلاً اردو کا ایک روزنامہ اخبار پڑھنے کے لیے ایک عام آدمی کے معیار کی اردو زبان کا جاننا کافی ہے لیکن غالب، مومن خان مومن اور میر تقی میر وغیرہ کو پڑھنے کے لیے زبان کا یہ معیار کافی نہیں ہوگا، اس کے لیے اسی سطح کی اردو جاننا ضروری ہوگا۔ اسی طرح ایک عام انگریزی اخبار پڑھنے کے لیے جس معیار کی انگلش کافی ہے، شکسپیئر کو پڑھنے کے لیے اس معیار کی انگریزی جاننا کافی نہیں ہے۔
  2. دوسری بات جو کسی کلام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس کلام سے متکلم کی منشاء معلوم کی جا سکے۔ اس لیے کہ ظاہری جملوں سے عام طور پر ایک سے زائد معانی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ کلام کرنے والا ایسے مبہم جملوں کی خود وضاحت کردے کہ جناب میری بات کا مطلب وہ نہیں جو آپ سمجھ بیٹھے ہیں بلکہ میری بات کا مطلب یہ ہے۔ چنانچہ سامعین گفتگو کا کوئی بھی مطلب سمجھ رہے ہوں لیکن جب متکلم کی وضاحت سامنے آجائے تو پھر اس وضاحت کو ہی بات کا اصل مطلب سمجھا جاتا ہے۔
  3. تیسری بات جو کسی کلام کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ گفتگو کس پس منظر اور کس ماحول میں ہوئی۔ اس لیے کہ ماحول اور پس منظر کے بدلنے سے جملوں کے معانی بدل جاتے ہیں۔ ایک بات ایک جگہ پر کہی جائے تو اس کا مطلب اور ہوتا ہے جبکہ وہی بات کسی دوسرے سیاق اور ماحول میں کہی جائے تو اس کا مطلب مختلف ہوتا ہے۔
2016ء سے
Flag Counter