دینی مدارس کا تعلیمی سال شوال میں شروع ہوتا ہے جو ابھی تک تذبذب کا شکار ہے اور مختلف مقامات سے احباب پوچھ رہے ہیں کہ اس سال کیا ترتیب ہو گی؟ ان سے یہی گزارش کر رہا ہوں کہ دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادت اس سلسلہ میں باہمی صلاح مشورہ میں مصروف ہے اور امید ہے کہ دو چار روز تک وہ کسی حتمی پروگرام کا اعلان کر دے گی۔ جبکہ معروضی صورتحال یہ ہے کہ کرونا بحران کی وجہ سے تعلیمی ادارے مسلسل بند ہیں اور پندرہ جولائی تک ان کے بند رہنے کا اعلان ہو چکا ہے جس کی مدت میں اضافے کا بھی امکان موجود ہے۔ وفاقوں کے سالانہ امتحانات جو شعبان میں ہوتے ہیں، گزشتہ سال نہیں ہو سکے تھے اور ابھی اس سلسلہ میں کوئی پالیسی واضح نہیں ہے۔
محکمہ تعلیم کے ساتھ مدارس کے نظام کو متعلق کرنے کی خواہش خود ہماری اپنی تھی جو پوری تو ہو چکی ہے مگر اس کے ساتھ ہی دینی مدرس تعطیلات کے حوالہ سے بھی عملی طور پر محکمہ تعلیم کی پالیسی کے دائرے میں آ گئے ہیں۔ اس لیے محکمہ تعلیم کی پالیسی کے ساتھ ساتھ چلنا بھی ہماری ضرورت یا مجبوری ہے، جبکہ جو بات زیادہ الجھن کا باعث بن رہی ہے وہ یہ ہے کہ دینی مدارس کا تعلیمی سال قمری اعتبار سے ہوتا ہے جو شوال کے وسط میں شروع ہو کر رجب کے آخر تک مکمل ہو جاتا ہے۔ مگر ریاستی سکولوں اور کالجوں کا تعلیمی سال شمسی سال کے حساب سے ہوتا ہے۔ دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات شعبان اور رمضان میں ہوتی ہیں جبکہ ریاستی تعلیمی اداروں کی سالانہ تعطیلات موسم گرما کے دوران جون جولائی میں ہوتی ہیں جس کی صورتحال اس سال یہ ہے کہ ریاستی تعلیمی اداروں کو تو سالانہ تعطیلات کا دورانیہ ہونے کی وجہ سے اس تاخیر سے زیادہ فرق نہیں پڑتا مگر دینی مدارس کے تعلیمی سال کے ابتدائی دو ماہ اس کی زد میں آ رہے ہیں جو پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ بالخصوص حفظ قرآن کریم کی کلاسوں کے لیے تو یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے کہ حفظ کے نظام میں دس پندرہ دن کا وقفہ بھی نقصان کا باعث بن جاتا ہے اور یہاں کئی ماہ سے تعطل کی صورتحال ہے اور مزید تاخیر بھی مہینوں میں بیان کی جا رہی ہے جو حفظ قرآن کریم کے ماہر اساتذہ کے نزدیک طلبہ کے لیے پچھلا پڑھا ہوا سب بھلا دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ بہرحال تعطیلات کا یہ فرق اور تسلسل پریشانی کا باعث ہے اور دینی مدارس کے منتظمین و اساتذہ پریشان ہیں کہ وہ اس بار تعلیمی سال کا آغاز کیسے کریں گے اور اس تاخیر سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کی کیا صورت ممکن ہو گی؟
گزشتہ روز ایک محفل میں اس سلسلہ میں گفتگو ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرکاری تعطیلات جولائی کے وسط تک تو رہیں گی، اس کے بعد عید الاضحٰی اگست کے پہلے ہفتہ میں متوقع ہے، اس کی تعطیلات شروع ہو جائیں گی اور اگر معاملات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو دینی مدارس اپنے تعلیمی سال کا آغاز شاید عید الاضحٰی کے بعد کر سکیں گے جس سے ہمارا تعلیمی نقصان بظاہر ایک ماہ کا ہوگا لیکن عید الاضحٰی سے قبل ہمارے ہاں ذی قعدہ کا مہینہ ہی دل جمعی کے ساتھ پڑھائی ہوتی ہے جو اس سال خدانخواستہ نہیں ہو سکے گی جس سے ہمارا تعلیمی نقصان ایک ماہ کے لگ بھگ ہو گا اور اساتذہ کو اس ماہ کی تاخیر کی تلافی تعلیم کے آغاز کے بعد محنت اور توجہ کے ساتھ کرنا ہوگی جو میرے خیال میں کچھ زیادہ مشکل بات نہیں ہے۔ البتہ اس سے ہٹ کر دینی مدارس کے نظام کے اس طرح اچانک ڈسٹرب ہونے سے جو دیگر نقصانات ہو رہے ہیں اور ہوں گے ان کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں سب سے زیادہ اہم ان کا بجٹ ہے، کیونکہ دینی مدارس کے سالانہ بجٹ کا انحصار زیادہ تر رمضان المبارک کے دوران مخیر احباب کو توجہ دلانے اور عید الاضحٰی کے موقع پر قربانی کی کھالوں پر ہوتا ہے۔ قربانی کی کھالوں کا معاملہ تو حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی خراب ہو چکا ہے، جبکہ رمضان المبارک کے دوران زکوٰۃ، صدقات، عطیات اور دیگر ذرائع سے چندہ جمع کرنے کی جو مہم ہوتی ہے وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہیں ہو سکی اور بہت سے مدارس اس حوالہ سے سخت اضطراب کا شکار ہیں کہ وہ اگلا سال اخراجات کے حوالہ سے کیسے گزار سکیں گے۔ یہ بات اہل خیر کے سوچنے کی ہے اور اصحاب ثروت کی خصوصی توجہ کی طلبگار ہے کہ انہی کو ایثار اور قربانی سے کام لے کر دینی مدارس کے اس تسلسل کو جاری رکھنا ہو گا اور یہ بات یقیناً ان کے لیے سعادت دارین کا باعث ہو گی۔
یہ تو سالِ رواں کے حوالہ سے صورتحال کا معروضی تناظر ہے مگر ہم مجموعی اور عالمی صورتحال کی طرف بھی احباب کو متوجہ کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں جس کا میں نے اپنے آج کے ٹویٹ میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ ’’دین، دینی حلقوں و مراکز اور دین کے معاشرتی کردار کے بارے میں موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی متعلقہ رپورٹ کو ایک بار پھر پڑھنا ضروری ہے تاکہ سنجیدہ دینی حلقے اپنی حکمت عملی کا ازسرنو صحیح طور پر تعین کر سکیں۔‘‘
https://www.rand.org/pubs/monograph_reports/MR1716.html
ہمارے خیال میں پوری حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے جو رسمی اجلاسوں میں نہیں بلکہ اصحاب فکر و دانش کی غیر رسمی مشاورت، مکالمہ اور تبادلۂ خیالات کی صورت میں زیادہ بہتر ہو سکے گا۔ اللہ تعالٰی میری اس بات کو غلط کر دیں تو ان کی مہربانی اور کرم ہو گا ورنہ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اپنے دینی تعلیمی نظام کو ۱۸۵۷ء کے بعد والی صورتحال میں ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر دیکھ رہا ہوں۔