خیر و برکت کے اصول

   
مئی ۲۰۱۶ء

ماہِ رواں کے آغاز میں خیرپور میرس سندھ کے دورہ کے موقع پر جامعہ بدر العلوم خیرپور میں تاجر راہنماؤں کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، اس نشست میں کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ قرآن کریم میں شرک اور جاہلانہ رسوم کی مذمت و مخالفت کے ساتھ ساتھ حلال و حرام کے ان ضابطوں کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے جو دور جاہلیت میں مختلف قبائل اور علاقوں کے لوگوں نے از خود طے کر لیے تھے اور جن پر وہ صدیوں سے عمل پیرا تھے۔ مطلق اباحیت اور فری اکانومی کا یہ تصور قدیم سے موجود چلا آرہا ہے کہ ہم اپنے اموال میں تصرف کے حوالہ سے خودمختار ہیں اور کسی کو اس میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔

  • اس فلسفہ کا اظہار حضرت شعیب علیہ السلام کے حوالہ سے بھی ملتا ہے کہ جب انہوں نے قوم کو تلقین فرمائی کہ ماپ تول میں کمی نہ کرو اور مال کے معیار کو خراب نہ کرو اس لیے کہ یہ بات سوسائٹی میں فساد اور بگاڑ کا باعث بنتی ہے، اس پر قوم نے انہیں جواب میں کہا تھا کہ کیا تمہاری نمازیں اس بات کی تلقین پر تمہیں آمادہ کرتی ہیں کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ’’ان نفعل فی اموالنا ما نشآء‘‘ یا اپنے مالوں میں اپنی مرضی سے تصرف نہ کر سکیں۔
  • کم و بیش اسی طرح کی بات قارون نے بھی اپنی قوم سے کہی تھی جب اس سے کہا گیا کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں جو مال دیا ہے اس میں سے اللہ تعالٰی کا حق ادا کرو۔ تو اس نے جواب میں کہا ’’انما اوتیتہ علٰی علم عندی‘‘ کہ مجھے تو یہ مال اپنے علم اور ہنر کے باعث ملا ہے۔

اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں جا بجا اس جاہلانہ فلسفہ کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ تصور اور اس کی بنیاد پر بنائے جانے والے معاشی قوانین خودساختہ ہیں جن کا فطرت اور حکم خداوندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن کریم میں حلال و حرام کے اصول اور ضابطے طے کرنے کو خالصتاً اللہ تعالٰی کا حق اور اختیار قرار دیا گیا ہے، اور اس سے ہٹ کر بنائے جانے والے ضابطوں کو جاہلیت سے تعبیر کیا گیا ہے بلکہ اسے شرک کی ایک صورت بتایا گیا ہے۔

  • بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عدی بن حاتمؓ کو قرآن کریم کی ایک آیت سمجھنے میں الجھن پیش آئی جو انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ سورہ التوبہ آیت ۳۱ میں عیسائیوں کے بارے میں کہا گیا ہے ’’اتخذوا احبارھم و رھبانہم ارباباً من دون اللہ‘‘ کہ انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے۔ حضرت عدی اسلام قبول کرنے سے پہلے عیسائی تھے بلکہ عیسائی قبیلہ کے سردار تھے، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے تو اپنے احبار و رہبان کو ’’اربابا من دون اللہ‘‘ کا درجہ نہیں دیا تھا، یہ قرآن کریم نے کیا کہہ دیا ہے؟ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے ہاں علماء و مشائخ کو حلال و حرام میں ردوبدل کا اختیار تمہارے عقیدہ کے مطابق حاصل تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ تو ہمارے ہاں سمجھا جاتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ قرآن کریم نے اسی کو ’’ارباباً من دون اللہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کے لیے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے کا اختیار ماننا بھی شرک کی ایک صورت ہے۔
  • حتٰی کہ جب آنحضرتؐ نے اپنی ذات کے لیے شہد کا استعمال ممنوع قرار دیا تو قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ’’لم تحرم ما احل اللہ لک‘‘ جو چیز اللہ تعالٰی نے حلال کی ہے اسے آپ نے اپنے لیے کیسے حرام کہہ دیا ہے؟ چنانچہ اللہ تعالٰی کے حکم پر آپؐ نے قسم توڑی، شہد استعمال کیا اور قسم کا کفارہ ادا کیا۔

گزارش کا مقصد یہ ہے کہ حلال و حرام کے اصول اور ضابطے بھی قرآن کریم نے واضح طور پر بیان فرمائے ہیں اور کہا ہے کہ کسی کو اللہ تعالٰی کی طرف سے حلال یا حرام کیے جانے کے معاملہ میں دخل اندازی کا حق حاصل نہیں ہے۔ اور قرآن کو ماننے والے قیامت تک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ حلال و حرام کے ان قوانین کی بہرحال پابندی کریں جو اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمائے ہیں اور جن کی جناب نبی اکرمؐ نے وضاحت کی ہے۔

جبکہ حرام کی جانے والی اشیا میں قرآن کریم نے سب سے زیادہ سنگینی سود کی بیان کی ہے اور اس لہجے میں بات کی ہے کہ اگر تمہارا خدا اور آخرت پر ایمان ہے تو سود کھانا ترک کر دو۔ اور یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر تم سود کے لین دین سے باز نہیں آتے تو یہ خدا اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے۔ میں چونکہ اس محفل میں تاجر بھائیوں سے بات کر رہا ہوں اس لیے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ تجارت بہت اچھا پیشہ ہے اور اس کے دنیاوی اور اخروی ثمرات و برکات بے شمار ہیں، لیکن یہ تب ہوگا جب حلال و حرام کے شرعی ضابطوں کی پابندی کی جائے گی اور اللہ تعالٰی اور رسولِ خداؐ کی ہدایات کے مطابق کاروبار کیا جائے گا۔

اللہ تعالٰی نے مال و دولت کو نعمت قرار دیا ہے مگر اس کے ساتھ قرآن کریم نے اس کے لیے پانچ ضابطے بیان کیے ہیں جو قارون کے ساتھ بنی اسرائیل کے مکالمہ کی صورت میں اس طرح مذکور ہیں کہ:

  1. مال و دولت کو تکبر اور برتری کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
  2. اسے آخرت کی تیاری کا ذریعہ بنایا جائے۔
  3. اسے دنیا کی بہتری کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔
  4. جیسے اللہ تعالٰی نے تم پر احسان کیا ہے تم بھی لوگوں پر احسان کرو۔
  5. مال و دولت کو سوسائٹی میں فساد اور بگاڑ کا ذریعہ بنانے سے گریز کیا جائے۔

اگر ہم کاروبار اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والے مال و دولت میں ان پانچ قرآنی اصولوں کو راہنما بنا لیں تو یہ ہمارے لیے دنیا اور آخرت دونوں جگہ برکت و ثواب اور کامیابی کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۹ مئی ۲۰۱۶ء)
2016ء سے
Flag Counter