’’اجتہاد‘‘ موجودہ دور میں زیربحث آنے والے اہم عنوانات میں سے ایک ہے اور یہ دین کی تعبیر کے حوالے سے قدیم و جدید حلقوں کے درمیان کشمکش کی ایک وسیع جولانگاہ ہے۔ اس پر دونوں طرف سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ اور جب تک قدیم و جدید کی بحث جاری رہے گی یہ موضوع بھی تازہ رہے گا۔ اجتہاد کے حوالے سے اس وقت عام طور پر دو نقطۂ نظر پائے جاتے ہیں:
- ایک یہ کہ دین کے معاملات میں جتنا اجتہاد ضروری تھا وہ ہو چکا ہے، اب اس کی ضرورت نہیں ہے، اس کا دروازہ کھولنے سے دین کے احکام و مسائل کے حوالے سے پنڈوراباکس کھل جائے گا اور اسلامی احکام و قوانین کا وہ ڈھانچہ جو چودہ سو سال سے اجتماعی طور پر چلا آرہا ہے، سبوتاژ ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے اجتہاد کا نام نہ لیا جائے، اس کی بات کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اجتہاد کے عنوان سے کوئی بات نہ سنی جائے۔ اس طرح ایک حلقے میں اجتہاد کا لفظ دین کے مسائل میں الحاد اور بے راہروی کا مترادف سمجھا جانے لگا ہے۔
- جبکہ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اجتہاد آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے، دین کے پورے ڈھانچے کو اس عمل سے دوبارہ گزارنا وقت کا تقاضا ہے، ہر مسئلہ میں اور ہر سطح پر اجتہاد ہونا چاہیے اور اجتہاد کے نام پر دین کے پورے ڈھانچے کی ’’اوورہالنگ‘‘ کر کے اسلام کو نئے انداز میں پیش کیا جانا چاہیے۔ اور خاص طور پر جدید مسائل و مشکلات اور عالمی ماحول کے معاشرتی تقاضوں کا اجتہاد کی روشنی میں حل نکالا جانا چاہیے تاکہ جدید عالمی فکر اور اسلام میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔
یہ دونوں نقطۂ نظر اپنی پشت پر ایک سوچ اور پس منظر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور اپنے دائرہ فکر سے ہٹ کر کوئی بات سننے کے روادار نہیں ہیں۔ پہلے نقطۂ نظر کی بنیاد ’’تحفظات‘‘ پر ہے کہ اسلام کے خلاف مغربی دنیا کی صدیوں سے جاری علمی و فکری جنگ کے ایجنڈے اور مقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی صورت سے محروم کر کے برائے نام مسلمان بنایا جائے اور اس طرح اسلام کے ایک فلسفۂ حیات اور طرز زندگی کے طور پر دوبارہ ابھرنے کے امکانات کو روکا جائے۔ اس لیے تبدیلی اور تغیر کی کوئی بات اس ماحول میں قبول نہ کی جائے اور ایسی ہر کوشش کو مغرب کی معاونت سمجھ کر رد کر دیا جائے۔ دوسرے نقطۂ نظر کی بنیاد ’’اقدام‘‘ کی سوچ پر ہے کہ اگر اسلام کو تحفظات کے دائرہ سے نکل کر آج کے عالمی ماحول میں آگے بڑھنا ہے اور دنیا کی دوسری اقوام کے سامنے اسے پیش کرنا ہے تو آج کے عالمی ماحول کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس کی ’’اوورہالنگ‘‘ ضروری ہے۔ اسے آج کی اصطلاحات اور علمی معیار کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم موجودہ دور میں کسی بھی شعبہ میں اسلام کی پیشرفت کی راہ ہموار نہیں کر سکیں گے۔
مگر ہمارے نزدیک یہ دونوں نقطۂ نظر انتہاپسندانہ ہیں، دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے موقف اور نقطۂ نظر کا ازسرنو جائزہ لیں اور تحفظات اور اقدامات کے دونوں پہلوؤں کا لحاظ کرتے ہوئے اعتدال اور توازن کا موقف اختیار کریں، جو اس معاملہ میں آج عالم اسلام کی سب سے اہم ضرورت ہے اور جس کا فقدان بہت سے معاملات میں مسلمانوں کی پیشرفت کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس مسئلہ کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جانا چاہیے اور آج کے کالم میں ہم اس کے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اجتہاد ماضی قدیم کے اہل علم کا کام تھا اور اب اس کا دروازہ بند ہو چکا ہے اس لیے اس عنوان سے کسی مزید تگ و دو کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اجتہاد کے اصول و ضوابط کے تعین کی حد تک تو ہم بھی اس کے قائل ہیں کہ جہاں تک اجتہاد کے اصول و ضوابط، طریق کار اور اہلیت و صلاحیت کے تعین کی بات ہے، یہ کام قرونِ اولیٰ میں ہو چکا ہے۔ تابعین و تبع تابعین کے دور میں بیسیوں فقہائے کرام نے اجتہاد کے اصول طے کیے جن میں سے چار، پانچ یا چھ بزرگوں کے طے کردہ اصولوں کو امت میں قبول عام حاصل ہوا اور وہ اب تک مسلمہ چلے آرہے ہیں۔ ان اصولوں پر نظرثانی یا ان میں کسی نئے فقہی مکتب فکر کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے، یہ اس لیے بند نہیں کہ کسی نے اس کے بند ہونے کا اعلان کیا ہے یا کسی اتھارٹی نے آئندہ کے لیے اس اجتہاد کی ممانعت کر دی ہے بلکہ اس اجتہاد کا دروازہ اس لیے بند ہے کہ اصولوں کے تعین اور طریق کار کی حدود طے ہو جانے کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی۔ جیسا کہ ہر علم اور فن میں اس کے بنیادی اصول طے ہونے کا ایک دور ہوتا ہے اور یہ کام ایک بار مکمل ہو جانے کے بعد اس کا دروازہ خودبخود بند ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اس علم اور فن میں مزید پیشرفت ہمیشہ کے لیے ان بنیادی اصولوں کے دائرے میں محصور رہتی ہے۔
مگر یہ اجتہاد کا نظری اور علمی پہلو ہے، جبکہ عملی حوالے سے ان اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کا دروازہ کسی بھی فقہی مکتب فکر میں کبھی بند نہیں رہا، نہ آج بند ہے اور نہ آئندہ کبھی بند ہوگا۔ ہمیں اس فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ اجتہاد کے اصول و ضوابط طے کرنے کا معاملہ الگ ہے اور ان کی روشنی میں عملی اجتہاد کا دائرہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہم ان دونوں کو ایک زمرہ میں شمار نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ دونوں کبھی ایک ہی زمرہ میں شمار رہے ہیں۔ فقہی مسائل و احکام میں عرف و تعامل کا بہت زیادہ دخل ہے اور کسی بھی مسئلہ میں علت، عرف اور تعامل کی تبدیلی سے فقہائے کرام ہر دور میں احکام میں رد و بدل کرتے رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ اجتہاد کا عمل ہے۔ اسی طرح جدید پیش آمدہ مسائل کا حل ہر دور میں اجتہاد کے اصولوں کی روشنی میں تلاش اور پیش کیا جاتا رہا ہے اور یہ بھی اجتہاد کے عمل ہی کا حصہ ہے۔
ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ فقہ حنفی اور دوسری فقہوں کے ارتقا کا جائزہ لیں تو ہر دور کے فقہاء کے فیصلوں اور فتاوٰی میں آپ کو بہت فرق نظر آئے گا اور اس فرق کے پیچھے جواز صرف یہی ہوگا کہ یہ اجتہاد کا عمل ہے جو مسلسل جاری ہے اور امت کی ضرورت ہے۔ میں اس سلسلہ میں چند عملی اجتہادات کا حوالہ دینا چاہوں گا جو ہم نے بدلتے ہوئے حالات کے تحت ماضی قریب میں کیے، ان میں نئے پیش آمدہ مسائل کا حل بھی شامل ہے اور عرف و تعامل کے تغیر کے ساتھ ماضی کے فقہی فیصلوں اور فتاوٰی کو تبدیل کرنے کا عمل بھی اس کا حصہ ہے۔
- احناف کے ہاں جمعہ کی شرائط میں ایک یہ شرط ہے کہ حاکم وقت یا اس کا کوئی نمائندہ شخص جمعہ کا خطبہ دے۔ مگر جب پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت و برما پر مشتمل خطے پر مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوا اور انگریزوں نے قبضہ کر لیا تو حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ اور دیگر علمائے کرام کے فتاوٰی سے یہ خطہ دارالحرب قرار پایا جس پر یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ مسلم حکمران یا اس کے نمائندہ کی موجودگی کے بغیر جمعہ ادا کرنے کی شرعی صورت مذکورہ بالا شرط کی روشنی میں کیا ہوگی؟ اور کیا اس شرط کی وجہ سے جمعہ کا خطبہ اور جمعہ کی نماز کی ادائیگی موقوف کر دی جائے گی؟ اس پر ہمارے فقہاء نے یہ اجتہادی فیصلہ کیا کہ اس صورت میں مسلمانوں کی رضامندی کو سلطان یا اس کے نمائندے کا قائم مقام قرار دے کر جمعہ کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور اس شرط کو موقوف کر دیا جائے۔ اس پر کافی بحث ہوئی اور مختلف حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ اب بھی بہت سے لوگ انہی تحفظات کے حوالے سے جمعہ کی نماز پڑھنے کے ساتھ ’’ظہر احتیاطی‘‘ بھی پڑھتے ہیں۔
- قادیانیوں کے بارے میں ہمارے ہاں علمی حلقوں میں یہ بحث چلتی رہی ہے کہ ان کا شمار مرتدین میں ہوگا یا کسی اور زمرہ میں شمار کیے جائیں گے؟ اسی طرح یہ بحث بھی ہوئی کہ اسلامی ریاست قائم ہونے کی صورت میں قادیانیوں کے ساتھ کیا معاملہ روا رکھا جائے گا؟ ہمارا قدیمی موقف سیدنا صدیق اکبرؓ کے فیصلوں کے حوالے سے یہ ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے اور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کا اس پر مستقل رسالہ ’’الشہاب‘‘ کے نام سے موجود ہے جس میں انہوں نے قادیانیوں ہی کے پس منظر میں مرتد کی اس شرعی سزا پر بحث کی ہے اور اسے قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت کیا ہے۔ لیکن پاکستان قائم ہوجانے کے بعد اس مسئلہ کا ’’عملی حل‘‘ تلاش کرنے کا مرحلہ آیا تو تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اس کے اس اجتہادی حل پر متفق ہوگئے اور اب تک متفق چلے آرہے ہیں کہ قادیانیوں کو ایک اسلامی ریاست میں دوسرے ذمیوں کی طرح ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کر لیا جائے اور اس طرح انہیں جان و مال کا تحفظ دیا جائے۔ یہ علامہ محمد اقبالؒ کی تجویز تھی جسے تمام مکاتب فکر کے اکابر علمائے کرام نے قادیانیوں کے مسئلہ کے حل کے طور پر قبول کر لیا جو ظاہر ہے کہ ایک اجتہادی فیصلہ ہے۔
اس طرح کے بہت سے اجتہادات کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے جو ماضی قریب اور حال کے علمائے کرام نے کیے اور انہیں امت میں قبول کا درجہ حاصل ہوا، اس لیے یہ کہنا کہ اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے یا اجتہاد کے حوالہ سے اب کوئی بات نہیں ہونی چاہیے، درست طرز عمل نہیں ہے۔ جو لوگ اجتہاد کو بظاہر غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں یا اجتہاد کے نام پر الحاد اور تحریف کا راستہ ہموار کرنے کے درپے ہیں ان کا جواب یہ نہیں ہے کہ سرے سے اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت سے انکار کر دیا جائے، بلکہ ان کا صحیح جواب یہ ہے کہ اجتہاد کے صحیح مفہوم سے عوام کو متعارف کرایا جائے، اس کی ضرورت کو تسلیم کیا جائے، اس کی جائز اور قابل عمل صورتوں کی وضاحت کی جائے اور بادی النظر میں اجتہاد یا اس پر گفتگو کا فورم ایسے لوگوں کے لیے کھلا نہ چھوڑ دیا جائے۔ اور اگر آپ ایسے کسی بھی فورم کو صرف ان کے لیے خالی کر دیں گے اور اپنی بات کہنے کے لیے کوئی عملی راستہ نہیں نکالیں گے تو یہ ہمارے خیال میں مسائل اور مشکلات سے فرار کی راہ ہوگی جو کسی بھی طرح صحیح اور معتدل راستہ نہیں ہے۔