روزنامہ جنگ لاہور ۵ اگست ۱۹۹۶ء کی خبر کے مطابق ترکی کے ایک سابق وزیر جنگ غازی محمد انور پاشاؒ کی میت کو ۷۴ سال کے بعد تاجکستان سے منتقل کر کے ۴ اگست ۱۹۹۶ء کو دوبارہ استنبول میں دفن کیا گیا ہے اور تدفین کی اس تقریب میں ترکی کے صدر جناب سلیمان ڈیمیریل اور وزیراعظم جناب نجم الدین اربکان نے بھی شرکت کی ہے۔ غازی انور پاشاؒ خلافت عثمانیہ کے دورِ زوال کے ایک نامور سپوت ہیں جنہوں نے خلافت کو سہارا دینے اور اس کے نظام کی اصلاح کے لیے اپنی بساط کی حد تک انتھک جدوجہد کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔
خلافت عثمانیہ اپنے آخری دور میں جبر و آمریت کی علامت بن گئی تھی اور مغربی استعمار کی سب سے بڑی شکارگاہ بھی تھی۔ مغرب ہر قیمت پر خلافت کے نظام کا خاتمہ اور ترکی پر استعماری قوتوں کا تسلط چاہتا تھا اور ترکی کے بے شمار نوجوان مغربی استعمار کے عزائم کی راہ میں حائل تھے جن میں مصطفٰی کمال اتاترک، عصمت انونو اور غازی انور پاشا کے نام سرفہرست ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے علاقہ طرابلس پر اٹلی کے حملہ کے وقت طرابلس کے لوگوں کو مزاحمت کے لیے تیار کرنے اور ان کو قیادت فراہم کرنے میں ان تینوں نے بنیادی کردار ادا کیا لیکن خلافت کے مکمل خاتمہ اور اسلامی اقدار سے انحراف کے مسئلہ پر یہ تینوں اکٹھے نہ چل سکے۔ مصطفٰی کمال اتاترک اور عصمت انونو نے عرب دشمنی میں خلافت اور اسلامی قوانین و روایات سے بغاوت کر کے ترکی کو لادین ریاست بنانے کا نعرہ لگادیا جبکہ انور پاشاؒ نے اس مرحلہ پر ان سے اپنی راہ الگ کر لی۔
انور پاشاؒ خلافت کے نظام کو آمریت اور مطلق العنانیت کے دائرہ سے نکال کر دستور کی عملداری اور نظام حکومت میں عوام کی شرکت چاہتے تھے لیکن وہ خلافت کے مکمل خاتمہ کے حق میں نہ تھے اورا س کے ساتھ ہی وہ ترکی کے معاملات میں مغربی ممالک کی مداخلت برداشت نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرحلہ میں وہ فوج میں افسر تھے اور حریت پسند فوجی افسروں کے گروپ کی نمائندگی کر رہے تھے، کابینہ کے ایک اجلاس میں مسلح ہو کر پہنچے جہاں برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک کے ساتھ ان ممالک کے مفاد میں ایک معاہدہ کی منظوری دی جانے والی تھی، انور پاشاؒ نے کابینہ کے ارکان پر پستول تان لیا اور کہا کہ وہ ترکی کے مفاد کے خلاف یہ معاہدہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس پر بحران پیدا ہوا وہ حکومت ختم ہوگئی اور نئی حکومت قائم ہوئی جس میں انو رپاشاؒ وزیرجنگ کی حیثیت سے شامل کیے گئے۔ وہ ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۸ء تک خلافت عثمانیہ کے وزیرجنگ رہے، اس دوران برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی سے ان کا رابطہ ہوا اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سے انور پاشاؒ کی ملاقات مدینہ منورہ میں ہوئی جس میں ترکی کے تعاون سے ہندوستان کی آزادی کا وہ عظیم منصوبہ طے پایا جسے ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ یا ’’تحریک شیخ الہند‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم میں ترکی جرمنی کا حلیف تھا، جرمنی کی شکست کی وجہ سے یہ سارا منصوبہ ختم ہو کر رہ گیا، حضرت شیخ الہندؒ گرفتار کر کے مالٹا جزیرے میں نظر بند کر دیے گئے، استنبول پر فاتح اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا اور اتحادیوں کی فوجی عدالت نے انور پاشاؒ سمیت متعدد ترک راہنماؤں کو موت کی سزا سنا دی۔ انور پاشاؒ جلاوطن ہوگئے اور ’’انقلابی اسلامی تحریکات کا اتحاد‘‘ کے عنوان سے اسلامی تحریکات کو منظم کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں اس میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے خود کو وسطی ایشیا کی ان تحریکات سے وابستہ کر لیا جو اس خطہ کو روس کے کمیونسٹ انقلاب کے تسلط سے بچانے کے لیے مزاحمت کر رہی تھیں۔ انورپاشاؒ نے ان تحریکات کو منظم کرنے کی کوشش کی اور ان کی قیادت کی اور بالآخر تاجکستان میں کمیونسٹوں کے ساتھ لڑتے ہوئے ۴ اگست ۱۹۲۲ء کو جام شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
انورپاشاؒ حبِ رسولؐ اور حمیتِ دینی سے مالامال تھے۔ ۱۹۱۸ء میں وہ خلافت عثمانیہ کے وزیر جنگ کی حیثیت سے مدینہ منورہ آئے اور اسی سفر میں حضرت شیخ الہندؒ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس دور میں ترکی سے مدینہ منورہ تک ریل آتی تھی اور مدینہ منورہ سمیت پورا حجاز بلکہ جزیرہ عرب خلافت عثمانیہ کی قلمرو میں شامل تھا۔ انورپاشاؒ بذریعہ ٹرین مدینہ منورہ پہنچے تو ریلوے اسٹیشن سے مسجد نبویؐ تک ان کے لیے سرکاری سواری کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن انہوں نے سوار ہونا پسند نہ کیا اور یہ کہہ کر روضۂ اطہر علی صاحبہا التحیۃ والسلام کی حاضری کے لیے پیدل چل پڑے کہ ’’ہم یہاں غلام کی حیثیت سے آئے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ اس مرد قلندر کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور عالم اسلام کے موجودہ راہنماؤں اور جرنیلوں کو بھی اس جیسی دینی حمیت و غیرت عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔