پاک چین دوستی اور امریکہ کو درپیش خدشات

   
۲۶ مئی ۲۰۰۱ء

ہمارے محترم مہمان اور عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم ژورانگ جی کے کامیاب دورہ پاکستان کے بعد جنوبی ایشیا کے بارے میں سیاسی تجزیوں اور قیاس آرائیوں نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے اور عالمی سطح پر صف بندی میں تبدیلیوں کے امکانات پر اظہارِ خیال کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ چین اور پاکستان کی روایتی دوستی اور امریکہ کے ساتھ بھارت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مراسم کے پیش نظر یہ بات اربابِ فکر و نظر کے لیے غیر متوقع نہیں تھی، مگر امریکہ بہادر کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی کے خواہاں حلقوں اور دنیا کی واحد چودھراہٹ کے دعویدار کے طور پر امریکہ سے توقعات بلکہ مفادات وابستہ کر لینے والے افراد اور گروہوں کے لیے یہ صورتحال یقیناً پریشان کن ہے اور مختلف اطراف سے اس پریشانی کے آثار آہستہ آہستہ نمودار ہو رہے ہیں۔

جہادِ افغانستان کے نتیجہ میں سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد سے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے اعلان کے ساتھ امریکہ نے دنیا کی واحد سپر پاور اور بلاشرکت غیرے چودھراہٹ کا چارج سنبھال رکھا ہے، اور اپنی اس چودھراہٹ کے راستے میں جو رکاوٹیں محسوس کر رہا ہے ان سے نمٹنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکی تجزیہ نگاروں کے نزدیک امریکی نیو ورلڈ آرڈر یا اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے پوری دنیا پر امریکی کیمپ کی اجارہ داری کو تین اطراف سے خطرہ ہے:

  1. ایک طرف چین ہے جو صنعتی ترقی، عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک بڑی قوت کے طور پر موجود ہے، اور امریکی کیمپ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے اس سے نمٹنا امریکہ کی فوری اور سب سے بڑی ضرورت بن گیا ہے، جس کے لیے امریکہ بہادر گزشتہ ایک عشرہ سے بھارت کی پیٹھ تھپتھپانے اور پاکستان کو اس کی ماتحتی میں چین کے خلاف صف آرا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکہ کی خواہش تھی اور اب بھی ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلہ پر ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کی پالیسی اختیار کر کے بھارت سے صلح کرے اور پھر بھارت کی قیادت میں چین کے خلاف محاذ میں شامل ہو جائے۔

    معزول وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں اس کے واضح امکانات نظر آنے لگے تھے اور محسوس ہو رہا تھا کہ نواز حکومت نے اس ایجنڈے کو قبول کر کے اس کی طرف پیشرفت کا آغاز کر دیا ہے، لیکن جنرل پرویز مشرف نے اس کے اقتدار کی بساط لپیٹ کو اس عمل کو بریک لگا دی، اور اب عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم کے کامیاب دورہ پاکستان کے بعد پاک چین دوستی کے روایتی اور گرم جوش دور کی طرف واپسی کا سفر بھی شروع ہو گیا ہے۔

    امریکہ بہادر نے اس دوران یہ بھی چاہا کہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ چین کے مسلم اکثریت کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں کی بے چینی سے فائدہ اٹھا کر چین کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا جائے۔ اس سلسلہ میں امریکہ کو طالبان حکومت اور پاکستان کی جہادی تنظیموں سے تعاون کی توقع تھی جو پوری نہیں ہوئی، کیونکہ طالبان حکومت اور پاکستان کی جہادی تنظیموں نے سنکیانگ کے مسلمانوں کی پریشانیوں اور شدید مشکلات کے ادراک کے باوجود اس بہانے چین کے خلاف امریکہ کی کسی مہم جوئی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے، اور میرے نزدیک طالبان حکومت کے خلاف امریکہ کے شدید غم و غصہ کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔

    جہاں تک سنکیانگ کے مسلمانوں کی مشکلات اور تکالیف کا مسئلہ ہے پاکستان کے دینی حلقے اس سے بے خبر نہیں ہیں اور اس حوالے سے ان کی تشویش اور اضطراب کی سطح بھی کم نہیں ہے، مگر وہ اس مسئلہ پر کسی ایسی مہم جوئی کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں جس سے فائدہ اٹھا کر امریکہ اس خطہ میں چین کے خلاف کوئی محاذ گرم کر سکے، اور چین کو کمزور کر کے جنوبی ایشیا پر بھارت کے ذریعہ اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ البتہ پاکستان کے دینی حلقے یہ ضرور چاہیں گے کہ عوامی جمہوریہ چین کی قیادت سے دوستانہ ماحول میں بات ہو اور افہام و تفہیم کے ذریعے سنکیانگ کے مسلمانوں کی مشکلات اور جائز شکایات کے ازالہ کی کوئی صورت نکل آئے۔

  2. چین کے بعد امریکی تجزیہ نگاروں کو خطرے کی دوسری گھنٹی عالمِ اسلام میں بجتی سنائی دے رہی ہے۔ جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ مسلم ممالک کی موجودہ حکومتوں سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن عالمِ اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسیوں کے باعث دنیائے اسلام میں امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات دن بدن بڑھ رہے ہیں، اور دینی بیداری کی تحریکات ان جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے باہمی ربط و مفاہمت اور اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کی طرف مسلسل پیشرفت کر رہی ہیں۔ اس لیے اگر دنیا کے کسی خطہ میں بھی ایک آزاد اور خالص نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو عالمِ اسلام کی ان امریکہ مخالف دینی تحریکات کو بیس کیمپ مل جائے گا اور پھر پوری دنیائے اسلام امریکی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی۔

    عالمِ اسلام کے حوالے سے امریکی دانشوروں کو ایک اور تشویش بھی ہے کہ اسلامی تحریکات کی امریکہ کے ساتھ کشمکش صرف معروضی اور سیاسی نہیں، بلکہ یہ نظریہ، عقیدہ اور فلسفۂ حیات کی جنگ ہے، کیونکہ اسلام وہ واحد فلسفۂ حیات ہے جس نے مغرب کے فلسفہ و نظام کو قبول کرنے اور اس کے ساتھ کسی قسم کی ایڈجسٹمنٹ اختیار کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بلکہ وہ ایک زندہ و توانا فلسفہ و ثقافت کے طور پر مغربی فلسفہ و ثقافت کے مقابل کھڑا ہے، اور اسلامی تحریکات کی کامیابی کا مطلب صرف امریکہ کی سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ نہیں، بلکہ مغرب کے فکر و فلسفہ کی مکمل شکست ہے۔ اس لیے عالمِ اسلام کی اسلامی تحریکات امریکہ اور مغرب کے غیظ و غضب کا سب سے بڑا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔

  3. امریکی دانشور تیسرے نمبر پر یورپ کے اتحاد کو بھی تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ اگر ’’ریاستہائے متحدہ یورپ‘‘ کی قیادت جرمنی یا فرانس کے ہاتھ میں آ جاتی ہے تو یورپ کے امریکی دائرہ اثر سے نکلنے بلکہ ایک مقابل قوت کے طور پر سامنے آنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔

    لیکن یہ ابھی امکانات اور خدشات کے درجہ کی بات ہے، جبکہ عوامی جمہوریہ چین اور عالمِ اسلام تو امریکہ بہادر کے سامنے کھڑے ہیں۔ اور امریکہ کے نئے ’’عالمی دفاعی نظام‘‘ کے بنیادی اہداف بھی یہی دو ہیں کہ چین کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے، اور مشرق وسطیٰ سمیت عالمِ اسلام پر امریکی تسلط کے شکنجے کو اور زیادہ سخت کر دیا جائے۔ عالمِ اسلام کے خلاف امریکہ کے اس معاندانہ طرز عمل کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے کا امریکی فارمولا بھی چین اور استحکامِ پاکستان کے لیے کسی درجہ میں قابل قبول نہیں ہے۔ اور مسئلہ کشمیر کے کسی صورت حل ہو جانے کے بعد بھی پاکستانیوں سے یہ توقع رکھنا حماقت ہو گی کہ وہ بھارت کے طفیلی کی حیثیت قبول کریں گے، یا چین کے خلاف بھارتی مہم جوئی میں اس کا ساتھ دیں گے۔

اس پس منظر میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں اور دونوں مل جل کر ہی جنوبی ایشیا کے موجودہ توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اس خطہ میں بھارت اور اس کی وساطت سے امریکہ کی اجارہ داری کا راستہ روک سکتے ہیں۔ اس موقع پر شاید یہ بات نامناسب نہ ہو اگر چین کے حوالے سے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی کا حوالہ دے دیا جائے۔

  • ایک تو حصولِ علم کے لیے چین تک جانے کی روایت ہے جو اکثر و بیشتر بیان کی جاتی ہے، اور اس کے حدیثِ رسولؐ ہونے کے بارے میں تردد کا اظہار کیا جاتا ہے، خود مجھے بھی اس میں تردد تھا مگر گزشتہ روز اس کا ایک حوالہ دیکھ کر یہ تردد خاصا کم ہو گیا ہے۔ امام جلال الدین سیوطیؒ نے ’’الجامع الصغیر‘‘ میں تین محدثین امام بیہقیؒ، ابن عدیؒ اور ابن عبد اللہؒ کی وساطت سے حضرت انس بن مالکؓ کی روایت نقل کی ہے، جس کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’اطلبوا العلم ولو بالصين فان العلم فریضۃ علی كل مسلم‘‘ علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ہو، کیونکہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جبکہ گیارہویں صدی ہجری کے محدث علامہ احمد بن علی عزیزیؒ نے ’’الجامع الصغیر‘‘ کی شرح ’’السراج المنیر‘‘ میں اس حدیث کو ’’حسن لغیرہ‘‘ قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایت اتنی کمزور نہیں ہے کہ اسے یکسر نظرانداز کر دیا جائے۔ یہاں چین جانے کا مطلب محدثین محاورہ کے طور پر بُعدِ مسافت بیان کرتے ہیں کہ علم حاصل کرنے کے لیے تمہیں چین تک کا طویل سفر کرنا پڑے تب بھی اس میں کوتاہی نہ کرو۔
  • دوسری روایت حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے ہے اور ساتویں صدی ہجری کے محدث و فقیہ امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبیؒ نے ’’تذکرہ‘‘ میں نقل کی ہے، جس کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امتِ مسلمہ کو پیش آنے والے حالات، مشکلات اور واقعات کے بارے میں اپنی پیشگوئیوں میں یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’خراب السند بالہند والہند بالصين‘‘ سندھ ہندوستان کے ہاتھوں برباد ہو گا اور ہندوستان کو چین کے ہاتھوں بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کو سامنے رکھیے اور جنوبی ایشیا کی نئی صف بندی پر ایک نظر ڈال لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے اور آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ نے آج سے چودہ سو برس پہلے کس طرح اس صورتحال کا نقشہ کھینچ دیا تھا، جس کی طرف ہم اب پیشرفت کر رہے ہیں، یہ بھی بلاشبہ ان کا ایک معجزہ ہے، اللہ تعالیٰ ان پر درود و سلام کی بارشوں کا مسلسل نزول فرماتا رہے، آمین ثم آمین۔
   
2016ء سے
Flag Counter