بہت سے اصحاب قلم اپنی تصانیف بھجواتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی کالم میں ان کا تذکرہ ہو جائے لیکن عملاً یہ بہت مشکل کام ہے۔ اس لیے کہ ہر کتاب کو پڑھنے اور پھر اس کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے ذہنی یکسوئی کے ساتھ جو وقت درکار ہوتا ہے وہ میرے لیے اب حسرت ہی کا درجہ رکھتا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ اس کالم کا یہ موضوع نہیں ہے، کیونکہ اگر ہر کتاب پر کچھ نہ کچھ تبصرہ اور اس کے تذکرہ کا معمول بنا لیا جائے تو یہ کالم اسی کام کے لیے مختص ہو کر رہ جائے گا اور کسی دوسرے موضوع پر کچھ عرض کرنا آسان نہیں رہے گا۔ اس لیے آنے والی کتابوں کو حسب موقع کچھ نہ کچھ استفادے کے بعد الشریعہ اکادمی کی لائبریری کی نذر کر دیتا ہوں تاکہ دوسرے حضرات بھی ان سے مستفید ہو سکیں۔
مگر بعض کتابیں خود تقاضہ کرتی ہیں کہ انہیں نظر انداز نہ کیا جائے اور حلقۂ احباب کو ان کی اہمیت سے تھوڑا بہت ضرور آگاہ کیا جائے۔ ان میں سے چند ایک کتابوں کا مختصر تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
علماء دیوبند کثر اللہ جماعتہم اصلاً تو عقیدہ کے لحاظ سے اہل السنۃ والجماعۃ، فقہی طور پر حنفی اور فکری دنیا میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے پیروکار شمار ہوتے ہیں، لیکن بحیثیت دیوبندی ان کی امامت کا سہرا تین شخصیتوں کے سر ہے۔ (۱) حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ (۲) حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ (۳) حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ۔ جبکہ دیوبندیت کا مکمل تعارف کسی ایک شخصیت کے حوالہ سے کرانا مقصود ہو تو میری طالب علمانہ رائے میں اس کے لیے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سب سے زیادہ موزوں بزرگ ہیں۔ ان شخصیات پر علمی و فکری طور پر گزشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران بہت کام ہوا ہے، لیکن وہ سارا مل کر اصل ضرورت کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمومی دینی ماحول تو رہا ایک طرف، ہمارے دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ اور دیوبندی تحریکات کے راہ نماؤں اور کارکنوں کی بہت بڑی اکثریت ان بزرگوں کے بارے میں سرسری معلومات اور سنی سنائی باتوں سے زیادہ کچھ نہیں جانتی۔ ان میں سے کسی بزرگ کے بارے میں اپنی ہی کسی مجلس میں گفتگو کرتے ہوئے ماحول کی اجنبیت بسا اوقات حجاب بن جاتی ہے، جبکہ ہماری آج کی دینی، علمی، تحریکی اور فکری ضروریات کا ناگزیر تقاضہ ہے کہ ان بزرگوں کے حالات، تعلیمات، خدمات اور کارناموں سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کا بطور خاص اہتمام کیا جائے اور بار بار ان کا کسی نہ کسی حوالہ سے تذکرہ عام کیا جائے۔
اسی پس منظر میں حضرت نانوتویؒ اور حضرت گنگوہیؒ کے بارے میں دو کتابوں کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو گزشتہ دنوں سامنے آئی ہیں۔ ایک کتاب ہمارے فاضل دوست مولانا عبد القیوم حقانی کی ہے جو ’’تذکرہ و سوانح الامام الکبیر مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ‘‘ کے عنوان سے ہے اور انہوں نے چھ سو کے لگ بھگ صفحات کی اس کتاب میں حضرت نانوتویؒ کی سوانح کے ساتھ ساتھ ان کی علمی و دینی خدمات، ۱۸۵۷ء کے معرکۂ حریت کی بہت سی تفصیلات، دارالعلوم دیوبند کے قیام کے محرکات و عوامل اور برصغیر کے دینی ماحول پر اس کے اثرات کا احاطہ کیا جائے۔ حضرت نانوتویؒ سے اس درجہ کی واقفیت ہر دیوبندی اور خاص طور پر دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کے لیے از بس ضروری ہے جس کے لیے یہ کتاب بہت مفید ہے جو القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہؓ، خالق آباد نوشہرہ صوبہ خیبر پختون خواہ سے طلب کی جا سکتی ہے۔
دوسری کتاب ’’باقیات فتاویٰ رشیدیہ‘‘ کے عنوان سے انڈیا کے معروف محقق اور ممتاز عالم دین حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے مرتب کی ہے۔ ہمارے ہاں دیوبندی مکتب فکر میں عقائد کی تعبیر و تشریح اور فقہی احکام وجزئیات کی تطبیق میں حضرت گنگوہیؒ کو امام کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے فتاویٰ کا ایک مجموعہ ’’فتاویٰ رشیدیہ‘‘ کے عنوان سے کئی بار طبع ہو چکا ہے اور اہل علم اس سے مسلسل استفادہ کر رہے ہیں۔ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے بڑی محنت اور جستجو کے ساتھ حضرت گنگوہیؒ کے ایک ہزار سے زیادہ غیر مطبوعہ فتاویٰ کو جمع کیا ہے اور انہیں فقہی و علمی انداز میں ضروری حواشی کے ساتھ مرتب کر کے اہل علم کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ڈیڑھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل مقدمہ میں حضرت گنگوہیؒ کی شخصیت و خدمات اور ان فتاویٰ کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے جو خود ایک مستقل تصنیف کا درجہ رکھتی ہے۔ جبکہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری مدظلہ کے مزید حواشی و افادات نے اس کی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ ساڑھے سات سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب حضرت مفتی الٰہی بخشؒ اکیڈمی کاندھلہ (انڈیا) نے شائع کی ہے اور پاکستان میں اسے حاصل کرنے کے لیے جناب سجاد الٰہی ۲۷/A لوہا بازار، مال گودام روڈ لاہور (فون ۰۳۰۰۴۹۸۲۷۵۲) سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کو اللہ تعالیٰ نے تدریس و تصنیف کے اعلیٰ ترین ذوق کے ساتھ ساتھ خطابت کا ملکہ و سلیقہ بھی اسی درجہ میں عطا فرمایا تھا۔ وہ کم و بیش نصف صدی تک گوجرانوالہ شہر کی سب سے بڑی مسجد جامع مسجد نور میں جمعہ و عیدین کی خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں اور شہر کا پڑھا لکھا طبقہ عام طور پر بڑی تعداد میں ان کے خطبات و دروس سے فیض یاب ہوتا رہا ہے۔ ان کے خطبات جمعہ ’’خطبات سواتی‘‘ کے عنوان سے کئی جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں جبکہ غیر مطبوعہ خطبات ’’ماہنامہ نصرۃ العلوم‘‘ میں تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع کافی عرصہ تک حضرت صوفی صاحبؒ کے خطبات جمعہ کا موضوع رہا ہے۔ ان کا مجموعہ ’’تکمیل انسانیت کا عالمی پروگرام اور امن چارٹر‘‘ کے عنوان سے ان کے فرزند و جانشین مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی سلّمہ نے مرتب کیا ہے جو ایک سو سے زائد موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ حضرت صوفی صاحبؒ کی خطابت کے علمی و فکری رنگ کی بطور خاص جھلک اس میں دکھائی دیتی ہے اور اسے ادارہ نشر و اشاعت جامعہ نصرۃ العلوم محلہ فاروق گنج گوجرانوالہ نے شائع کیا ہے۔
حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی ؒ ہمارے اکابر میں نرالی شان کے بزرگ تھے اور علم و فضل کے ساتھ ساتھ ان کا جذب و کیف پون صدی تک اہل علم کے لیے مشعل راہ کا کام دیتا رہا ہے۔ ہمارے ایک فاضل دوست پروفیسر حافظ قاری بشیر حسین حامد نے حضرت درخواستیؒ کے خطبات و افادات اور ان کے بارے میں مختلف کتب و جرائد میں ہونے والے تبصروں اور تذکرہ کی جامع فہرست ’’تذکرہ حضرت درخواستیؒ (کتب و رسائل میں)‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ میں مرتب کی ہے جو حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بہت سی معلومات کا احاطہ کرتا ہے اور ان کی شخصیت پر کام کرنے والوں کے لیے بطور خاص تحفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک سو صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ مکتبہ حامدیہ نواں شہر ایبٹ آباد سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
جامعہ اسلامیہ تعلیم الاسلام چھوٹا لاہور ضلع صوابی خیبر پختون خواہ کے مہتمم مولانا محمد امین دوست سے اس سے قبل ہمارا تعارف نہیں تھا لیکن ان کی دو تصانیف دیکھ کر تعارف کے کئی مراحل غائبانہ طور پر خود بخود طے ہوتے چلے گئے ہیں اور مطالعہ و تحقیق کے حوالہ سے دل میں امید کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی لَو پھر سے روشن ہوتی دکھائی دینے لگی ہے۔ ایک کتابچہ ’’غربت‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں انہوں نے اسبابِ غربت اور علاجِ غربت کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ کے تناظر میں معلومات کا خاصا ذخیرہ جمع کر دیا ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ خود نہیں لکھتے مگر خوبصورت ترتیب اور عنوانات قائم کر کے بزرگوں کے ارشادات اور اخباری معلومات کا ایک گلدستہ سجا دیتے ہیں۔
ان کی دوسری کتاب ’’اختلافات‘‘ کے حوالہ سے ہے جس میں انہوں نے اختلاف کی حقیقت، اختلافات کی نوعیت، اختلاف کے درجات، اس کے مختلف دائروں اور اس کے مثبت و منفی اثرات کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور بزرگان دین کے ارشادات و واقعات کا بڑا ذخیرہ مرتب کیا ہے۔ آج کے دور میں جب کہ ہم عام طور پر اختلافات کے تعین، اظہار اور ان کے استعمال کے ضمن میں انتہائی درجہ کی افراط و تفریط کا شکار ہیں، یہ کتاب نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے جو اس باب میں ہم سب کی صحیح سمت راہنمائی کرتی ہے۔ یہ دونوں کتابیں جامعہ تعلیم الاسلام، چھوٹا لاہور، ضلع صوابی (فون ۰۳۲۲۰۹۳۸۳۰) نے شائع کی ہیں۔