سپریم کورٹ کا فیصلہ اور دینی حلقوں کا اضطراب

   
جامعہ فتحیہ، اچھرہ، لاہور
۳۰ جولائی ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کل پورے ملک میں قادیانیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ زیرِ بحث ہے۔ تمام دینی جماعتیں اور تمام مکاتب فکر اپنے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں اور تقریباً یہ سب کے ہاں قدر مشترک ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ دینی تقاضوں اور عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں ہے۔ میں سادہ سے لہجے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دینی حلقے مطمئن کیوں نہیں ہیں، مسئلہ کیا ہے اور دینی حلقوں کا موقف کیا ہے؟

قادیانیوں کو طویل جدوجہد کے بعد ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا تھا۔ یہ ہمارا پرانا مطالبہ تھا جو کہ ۱۹۵۳ء سے چلا رہا تھا۔ تمام مذہبی حلقوں، سیاسی پارٹیوں، عدالتوں اور پارلیمنٹ کا متفقہ اور مشترکہ فیصلہ تھا کہ قادیانی اس ملک میں بطور شہری رہیں، لیکن مسلمانوں کے کھاتے میں شمار نہیں ہوں گے بلکہ غیر مسلموں میں شمار ہوں گے، مگر قادیانیوں نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اگر وہ فیصلہ قبول کر لیتے اور اس کے تقاضے پورے ہوتے تو جھگڑا ختم ہو جاتا، لیکن انہوں نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا کہ ہم غیر مسلم کہلانے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان کا موقف یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ ان کا موقف یہ نہیں ہے کہ ہم بھی مسلمان ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم ہی مسلمان ہیں اور ہمارے سوا دنیا میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔ قادیانی اس پر اڑ گئے تو اس کی وضاحت اور توضیح میں دس سال لگ گئے، پھر ۱۹۸۴ء میں ان کی ضد کی وجہ سے نیا قانون نافذ کرنا پڑا کہ چونکہ قادیانی دستور اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق مسلمان نہیں ہیں، اس لیے مسلمانوں کی علامتیں استعمال نہیں کر سکتے۔ وہ اسلام کا نام نہیں لیں گے، مسجد کے نام سے عبادت گاہ نہیں بنائیں گے، قرآن پاک کی اشاعت نہیں کریں گے، وغیرہ۔

ظاہر بات ہے کہ چونکہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں تو مسلمانوں کی اصطلاحات و علامات استعمال کرنے کا حق بھی انہیں نہیں ہے۔ میں اس پر ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک کمپنی چلی آ رہی ہے، اس کا ایک نام ہے، ٹریڈ مارک ہے اور ساکھ ہے۔ اس میں سے کچھ لوگ الگ ہو کر نئی کمپنی بناتے ہیں تو انہیں پہلی کمپنی کا نام استعمال کرنے کا حق نہیں ہوتا، اس کا ٹریڈ مارک اور اس کی سٹیمپ استعمال کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ ضد کریں کہ ہم نئی کمپنی کے لیے پرانی کمپنی کا نام استعمال کریں گے، کمپنی نئی ہے، مگر نام، ٹریڈ مارک، سٹیمپ اور ساری علامتیں پرانی کمپنی کی استعمال کرتے ہیں تو اس کو قانون کی دنیا میں فراڈ کہا جاتا ہے۔ قادیانیوں کے اسی فراڈ کو روکنے کے لیے ۱۹۸۴ء میں قانون نافذ کرنا پڑا کہ وہ اسلام کا نام استعمال نہیں کریں گے اور اسلامی شعائر استعمال نہیں کریں گے۔

یہ سادہ سی بات ہے، کامن سینس کی بات ہے، مگر اس کو بھی قادیانیوں نے رد کر دیا اور صرف رد نہیں کیا، بلکہ دنیا بھر میں ۱۹۸۴ء سے لے کر اب تک منفی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری حق تلفی ہو رہی ہے، پاکستان میں مسلمان ہمیں عبادت گاہ نہیں بنانے دے رہے، اپنی کتاب کی تلاوت نہیں کرنے دے رہے، وغیرہ۔ بین الاقوامی ادارے، جو انسانی حقوق یا شہری حقوق کے نام سے کام کر رہے ہیں، قادیانی وہاں جا کر واویلا کرتے ہیں اور ان کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔

میں اپنی ایک کمزوری بھی عرض کر دینا چاہوں گا کہ جب قادیانی پاکستان کے دستور اور قانون کے خلاف کوئی مقدمہ لے کر جاتے ہیں تو حکومت پاکستان کو وہاں دفاع کرنا چاہیے مگر حکومت پاکستان اس میں فریق نہیں بنتی۔ حالانکہ پاکستان کے خلاف درخواست ہے، پاکستان کے دستور اور قانون کے خلاف درخواست ہے تو پاکستان کا دفاع حکومت کو کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی اداروں میں درخواست جاتی ہے اور انہوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو وہاں پاکستان کی پوزیشن کی وضاحت حکومت پاکستان کو کرنی چاہیے، لیکن وضاحت کے لیے حکومت نہیں جاتی اور کوئی بھی نہیں جاتا تو فیصلہ قادیانیوں کے حق میں ہو جاتا ہے۔ ۱۹۸۴ء سے لے کر اب تک صورتحال یہ ہے کہ جو بین الاقوامی ادارے کام کر رہے ہیں، ان میں قادیانیوں کی درخواست جاتی ہے، جواب میں ہماری طرف سے کوئی نمائندہ نہیں جاتا یا کوئی جاتا ہے تو چپ بیٹھا رہتا ہے تو وہ ان کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں۔ انہوں نے جن کی بات سنی ہے تو ان کے حق میں ہی فیصلہ کریں گے اور پھر ایسے فیصلوں کی بنیاد پر ہی بین الاقوامی موقف اور دباؤ منظم ہوتا ہے۔

اس وقت بین الاقوامی تاثر واقعتاً یہ ہے اور اس میں قادیانیوں کی ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ ہماری بے پرواہی بھی شامل ہے۔ بات انصاف کی کرنی چاہیے۔ قادیانیوں کی ہٹ دھرمی کے ساتھ ہماری یہ بے پرواہی کہ ہم اس کی پرواہ نہیں کر رہے کہ اقوام متحدہ میں، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن میں اور یورپی یونین میں جہاں ہمارے خلاف یہ کیس جاتے ہیں، ہم وہاں فریق نہیں بنتے اور ہم وہاں جا کر اپنا دفاع نہیں کرتے، نہ حکومت کرتی ہے، نہ کوئی اور کرتا ہے چنانچہ فیصلہ ان کے حق میں ہو جاتا ہے اور اس پر بین الاقوامی ادارے مطالبہ کرتے ہیں کہ جب آپ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے رکھا ہے تو ان کو غیر مسلموں کی طرح حقوق بھی دیں۔ آپ جو یہ کہتے ہیں کہ قادیانی نماز نہیں پڑھیں گے اور مسجد نہیں بنائیں گے، یہ پابندیاں ختم کریں۔ تقریباً اکثر بین الاقوامی اداروں کا ہم سے یہ مطالبہ ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلموں کے شہری حقوق سے محروم نہ کریں۔

یہ ہے اس کا بیک گراؤنڈ۔ اس پس منظر میں اس قسم کے فیصلے آ رہے ہیں، اس کے پیچھے بین الاقوامی دباؤ ہے اور اس دباؤ کے پیچھے قادیانیوں کی ضد، ہٹ دھرمی اور محنت ہے اور ہماری بے پرواہی بھی ہے کہ ہم اس فورم پر کوئی لڑائی نہیں لڑ رہے۔

حالیہ فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ملک کی دیگر غیر مسلم اقلیتوں عیسائی، سکھ، یہودی اور ہندوؤں کو شہری حکومت حاصل ہیں تو قادیانیوں کو بھی شہری حقوق ملنے چاہئیں، ان کی عبادت گاہیں ہیں تو ان کی بھی ہونی چاہئیں، وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتے ہیں تو انہیں بھی اجازت ہونی چاہیے، وہ جلسے کرتے ہیں تو انہیں بھی جلسے کی ممانعت نہیں ہونی چاہیے۔

میں عرض کرنا چاہوں گا کہ بین الاقوامی اداروں کا یہ مطالبہ اور اس کے دباؤ پر ہونے والے اس قسم کے فیصلے ہمارے لیے دو وجہ سے ممکن نہیں ہیں کہ ہم دباؤ کو قبول کریں اور ان فیصلوں کو قبول کریں۔

ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب خود قادیانی دستور کے فیصلے کو نہیں مان رہے تو وہ مطالبہ کس بات کا کر رہے ہیں؟ وہ حقوق لیں گے تو آخر دستور اور قانون کے تحت لیں گے، قانون کو تو وہ تسلیم نہیں کر رہے۔ جب تک قادیانی دستور کے فیصلے کو اور پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے تو ان کا اس مطالبے کا جواز نہیں بنتا۔ وہ جب دستور کو مان نہیں رہے، فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں اس کے خلاف مہم چلا رہے ہیں تو جس فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں اور جس کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں، اس فیصلے کے تحت حق کیسا مانگ رہے ہیں؟

یہ ایک بنیادی اصولی بات ہے اور میں قادیانیوں سے اکثر کہتا ہوں کہ دیکھو بھئی! یہ فیصلہ تم نے کرنا ہے، ہم نے نہیں کرنا۔ ہم تو فیصلہ کر چکے ہیں، پارلیمنٹ، عدالت، تمام سیاسی پارٹیاں اور تمام مکاتب فکر فیصلہ کر چکے ہیں۔ ۱۹۷۴ء میں جو فیصلہ ہوا تھا اس میں کوئی سیاسی پارٹی پیچھے نہیں تھی، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی وغیرہ سب اس فیصلے میں شریک تھیں۔ تاجر برادری، وکلاء، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، شیعہ سب شریک تھے، یہ پوری قوم کا متفقہ فیصلہ ہے۔

اس لیے ایک بات تو یہ ہے کہ چونکہ قادیانی اس فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہے اور اس فیصلے کے خلاف پوری دنیا میں کمپین کر رہے ہیں، اب تک انہی کی مہم چل رہی ہے، ون وے ٹریفک چل رہی ہے تو جب تک وہ اس دستوری فیصلے کو تسلیم نہیں کر لیتے، اس وقت تک ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم ان کے حقوق کی بات کریں۔

دوسری بات یہ ہے کہ دیگر غیر مسلموں میں اور قادیانیوں میں فرق ہے اور عملی فرق ہے، مثلاً‌ یہاں ہندو رہتے ہیں، وہ اپنی عبادت گاہ بناتے ہیں تو اس کو مندر کہتے ہیں، اپنی کتاب چھاپتے ہیں تو اسے گیتا کہتے ہیں۔ اگر ہم قادیانیوں کو ہندوؤں والے حقوق دیں گے تو وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہیں گے اور کتاب چھاپنے کی اجازت ملے گی تو قرآن چھاپیں گے جس سے جھگڑا اسی طرح رہے گا۔

اسی طرح سکھ یہاں رہتے ہیں، ان کے مذہب کو پانچ سو سال ہو گئے ہیں۔ یہ ہندوؤں سے الگ ہوئے تھے اور مسلمان ہوتے ہوتے رہ گئے تھے، تو یہ اپنی مذہبی روایات کے اعتبار سے خلط ملط ہیں۔ کسی سکھ سے بات کریں گے تو وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول کہے گا، قرآن پاک کو اللہ کی کتاب کہے گا اور صوفیائے کرام سے، بالخصوص حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ بابا فریدؒ ہمارے بزرگ ہیں اور اہل اللہ میں سے ہیں۔ سکھوں کی مذہبی کتاب گروگرنتھ میں قرآن پاک کی آیتیں ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں ہیں، صوفیائے کرام کا تذکرہ ہے اور بابا فریدؒ کی کافیاں اس میں سب سے زیادہ ہیں۔

بابا فریدؒ کے ساتھ ان کے تعلق پر ایک لطیفہ عرض کروں گا کہ ایک دفعہ لندن ساؤتھ آل کے علاقہ میں مجھے بیگ خریدنا تھا، میں ایک سکھ کی دکان پر گیا تو وہاں بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کی فوٹو لگی ہوئی تھی۔ میں نے کہا سردار جی! آپ نے بابا فریدؒ کی فوٹو لگائی ہوئی ہے۔ وہ کہنے لگا آپ انہیں مانتے ہیں؟ میں نے کہا ہم ہی تو انہیں مانتے ہیں۔ اس نے کہا کہ پھر آپ سے بیگ کے پیسے کیوں لینے ہیں، آپ بیگ ویسے ہی لے جائیں۔ میں نے بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کا ایک عقیدت مند کے طور پر نام لیا تو اس نے مجھ سے بیگ کے پیسے نہیں لیے۔

سکھوں کی مذہبی کتاب میں یہ سب کچھ ملے گا لیکن انہوں نے اپنا نام الگ کر رکھا ہے، وہ مسلمان نہیں کہلاتے، اپنی کتاب کو قرآن نہیں کہتے اور ہماری طرز پر مسجد نہیں بناتے۔ باوجودیکہ قرآن کی بات کرتے ہیں، حدیث کی بات کرتے ہیں، صوفیاء کرام کی بات بھی کرتے ہیں اور بڑے ادب و احترام سے کرتے ہیں، لیکن چونکہ وہ الگ ہیں، اپنے آپ کو انہوں نے الگ کر لیا اور اپنے نام اور شناخت کو الگ کر لیا ہے، اپنی کتاب کو گروگرنتھ کہتے ہیں، اپنی عبادت گاہ کو گردوارہ کہتے ہیں اور اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ لاہور میں سکھ موجود ہیں، یہاں آتے بھی ہیں، لیکن کسی کو اشتباہ نہیں ہوتا کہ یہ مسلمان ہیں، سب انہیں سکھ ہی سمجھتے ہیں۔

جبکہ قادیانی دستوری فیصلہ تسلیم کیے بغیر اپنی عبادت گاہ بنائیں گے تو اسے مسجد کہیں گے، اپنی کتاب کے طور پر قرآن چھاپیں گے، اپنے آپ کو مسلمان کہیں گے اور تمام شعائر مسلمانوں کے استعمال کریں گے جس سے جھگڑا ویسے کا ویسا رہے گا جسے ختم کرنے کے لیے ۱۹۸۴ء کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ۱۹۸۴ء کے صدارتی امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت ضابطہ طے ہے کہ قادیانیوں کے بطور غیر مسلم حقوق ہیں لیکن یہ پاکستان کی دوسری غیر مسلم اقلیتوں کی طرح نہیں ہیں، انہیں اسلام کے نام اور مسلمانوں کے شعائر سے الگ اپنی شناخت بنانی ہو گی۔ اس لیے کہ یہ جب بھی نام لیں گے اسلام کا نام لیں گے، جب بھی کتاب چھاپیں گے تو قرآن چھاپیں گے، جب بھی عبادت گاہ بنائیں گے تو مسجد بنائیں گے تو ہمارا اشتباہ اور جھگڑا بدستور قائم رہے گا جیسے پہلے تھا۔

میں نے عرض کیا ہے کہ یہ دو رکاوٹیں ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملک کے تمام دینی حلقے عدمِ اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور آج (۳۰ جولائی) کو آسٹریلیا مسجد لاہور میں متحدہ علماء کونسل اور ملی مجلس شرعی کے زیر اہتمام تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کا مشترکہ اجتماع میری صدارت میں ہوا، اس میں ہم نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تسلیم نہیں ہے، آپ کو دو ٹوک فیصلہ کرنا ہوگا، عدالت عظمیٰ دوبارہ فیصلہ کرے، یا پارلیمنٹ کرے۔

پہلی بات یہ ہے کہ قادیانی ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کے اس فیصلے کو تسلیم کریں۔ اگر وہ تسلیم نہیں کرتے تو پھر جو لوگ دستور و قانون کے فیصلے تسلیم نہیں کرتے ان کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ جو دستور کو تسلیم نہ کریں، حکومت کی رٹ کو تسلیم نہ کریں تو ان کے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے۔ ہم ملک میں کئی آپریشن کر چکے ہیں اس بات پر کہ وہ رٹ تسلیم نہیں کر رہے۔ حکومت رٹ تسلیم نہ کرنے والے دوسرے طبقوں کے خلاف آپریشن کرتی ہے، ہمیں اس سے انکار نہیں ہے، ہم بھی ساتھ دیتے ہیں، جبکہ قادیانی دستور کی رٹ تسلیم نہیں کر رہے تو ان سے دستور کی رٹ کون تسلیم کروائے گا؟ اور دستور کی اور ریاست کی رٹ تسلیم کرائے بغیر آپ ان کو کیا دے سکتے ہیں؟ لہٰذا عدالت عظمی کو اور پارلیمنٹ کو قادیانیوں سے دستور کو تسلیم کرانے کے لیے کوئی روڈ میپ بنانا پڑے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب وہ دستور تسلیم کر لیں گے تو اس کے بعد ظاہر ہے کہ آپ انہیں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے نام پر مسلمانوں کا نام استعمال کرنے کی اجازت تو نہیں دیں گے، انہیں قرآن پاک کی اشاعت کی اجازت نہیں دیں گے۔ لہٰذا مسئلہ حل کرنا پڑے گا اور میری درخواست ہے کہ گول مول فیصلوں سے اور کنفیوژن سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔

ہماری پورے احترام کے ساتھ عدالت عظمیٰ، پارلیمنٹ اور حکومت سے درخواست ہے کہ یہ دو مسئلے حل کریں تو اس کے بعد باقی مسائل پر بات کر لیں گے، لیکن جب تک یہ دو مسئلے حل نہیں ہوتے اس وقت تک کوئی فیصلہ بھی پاکستان کے عوام کو اور دینی حلقوں کو مطمئن نہیں کر سکے گا۔

2016ء سے
Flag Counter