تحفظ نسواں بل اور دینی حلقے

   
۲۴ نومبر ۲۰۰۶ء

سینیٹر مولانا سمیع الحق نے سینٹ آف پاکستان میں ’’تحفظ نسواں بل‘‘ میں دس ترامیم پیش کر کے ان اہم امور کی آن ریکارڈ نشاندہی کر دی ہے جو مذکورہ بل میں دینی نقطہ نظر سے متنازع ہیں اور جن کی موجودگی میں ملک بھر کے دینی حلقے اس بل کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے کر اس کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کا جو مسودہ قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی نے منظور کیا تھا، اس پر پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے سرکردہ علماء کرام سے رائے لی تھی۔ اس میں علماء کرام نے واضح طور پر چند اہم امور کی نشاندہی کر دی تھی کہ ان میں ترامیم اور ردوبدل ضروری ہے اور علماء کرام کی مجوزہ سفارشات اور تجاویز کو بل میں شامل کیے بغیر اسے شرعی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان سفارشات اور ترامیم کو قطعی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اس بل کو متنازع صورت میں قومی اسمبلی سے منظور کرانے کے بعد ملک بھر کے ذرائع ابلاغ، این جی اوز اور لابیوں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے منظور کردہ ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کو قرآن و سنت کے عین مطابق ثابت کرنے اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ناگزیر قرار دینے کے لیے دن رات ایک کر دیں، لیکن خدا بھلا کرے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا کہ انہوں نے ایک جامع تجزیاتی مضمون کے ذریعے سے اس بل کی شرعی حیثیت کو واضح کر دیا اور مولانا سمیع الحق نے بھی سینٹ میں دس ترامیم پیش کر کے اتمام حجت کا اہتمام کیا ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تعجب کا باعث چودھری شجاعت حسین کا رویہ بن رہا ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہہ کر قومی اسمبلی کے اسپیکر کو مشروط استعفٰی پیش کیا کہ اگر اس بل میں کوئی بات شریعت کے خلاف ہے تو قومی اسمبلی کی رکنیت سے ان کا استعفٰی منظور کیا جائے، بلکہ اس کے بعد سے وہ مسلسل ملک بھر کے علماء کرام کو چیلنج دیے جا رہے ہیں کہ اگر کوئی اس بل کی کسی شق کو قرآن و سنت سے متصادم ثابت کر دے تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ مگر ہمارے خیال میں چودھری صاحب موصوف کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ بل میں کوئی دفعہ قرآن و سنت کے خلاف موجود ہے یا نہیں، نہ قومی اسمبلی کے اسپیکر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی علماء کرام کو چیلنج پر چیلنج دیے جانے کی کوئی تُک ہے، اس لیے کہ اس امر کا فیصلہ خود ان کی جیب میں موجود ہے جسے صرف نکال کر پڑھنے کی ضرورت ہے، اور یہ وہ فیصلہ ہے جس پر چودھری شجاعت حسین نے خود اپنے طلب کردہ علماء کرام کے ساتھ صبح نو بجے سے رات تین بجے تک مسلسل مذاکرات کے بعد دستخط ثبت کیے تھے، اور پھر خود اپنے ہاتھوں سے اسے قومی پریس کے حوالے کیا تھا۔ اگر چودھری صاحب کو وہ دن اور رات یاد ہے اور اپنے دستخطوں کو وہ پہچانتے ہیں تو پھر کسی اور کو انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ خود اس بل کی متعدد دفعات کو قرآن و سنت سے متصادم تسلیم کر چکے ہیں، بلکہ اس پر انہوں نے اپنی حلیف جماعتوں کو قائل کرنے کی مسلسل کوشش بھی کی ہے۔

ہمیں اس بات پر چودھری شجاعت حسین سے ہمدردی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنا موقف اپنی حلیف سیاسی جماعتوں سے نہیں منوا سکے اور ملک کے اصل حکمرانوں کو اس کے لیے اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ الٹا علماء کرام پر غصہ نکالنے اور انہیں بلاوجہ مورد الزام ٹھہرانے میں شب و روز مصروف ہوجائیں۔ ہم چودھری صاحب کا احترام کرتے ہیں، لیکن ان سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے غصے پر کنٹرول نہیں کر پا رہے تو وہ اسے اس کی صحیح جگہ پر نکالیں جہاں ان کی بات نہیں مانی گئی، اور انہیں آخر وقت تک قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے مسودے سے بے خبر رکھ کر ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے لیے ان کی ساری تگ و دو کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ اس کے لیے علماء کرام کو چاند ماری کی مشق کا نشانہ بنانا ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے سوا اور کوئی تاثر پیدا نہیں کر رہا۔

’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کو دینی حلقوں اور علماء کرام کی رائے کے علی الرغم بین الاقوامی سیکولر لابیوں کی خواہش کے مطابق منظور کرا کے اسے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی فتح قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب ملک میں انتہا پسندوں کی بات نہیں چلنے دی جائے گی۔ مگر یہ بات خوش فہمی اور خود فریبی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی، اس لیے کہ حکومت اور طاقت کے زور سے کسی قانون کو ملک پر مسلط کر دینا اور بات ہے، اور قوم سے اسے ذہنی طور پر قبول کرانا اس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ اس کا تجربہ اب سے کم و بیش نصف صدی قبل بھی کیا جا چکا ہے جو ناکام ثابت ہوا ہے، مگر ہمارے حکمران اس تجربہ کی ناکامی سے کوئی سبق حاصل کرنے کے بجائے اسے ایک بار پھر دہرانے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔

صدر محمد ایوب خان کے دور میں جب عائلی قوانین کے نام سے نکاح، طلاق اور وراثت کے شرعی قوانین کو ردوبدل کا نشانہ بنایا گیا تھا، تب بھی مغرب کا فکر و فلسفہ اور مغربی قوتوں اور لابیوں کے تقاضے ہی پیش نظر تھے۔ اس کے لیے ایک ’’عائلی کمیشن‘‘ بنا تھا جس میں دینی حلقوں کی نمائندگی صرف ایک عالم دین مولانا احتشام الحق تھانوی کی صورت میں تھی۔ اس کمیشن نے خاندانی نظام کے قوانین و ضوابط کو مغربی سسٹم کے قریب لانے کے لیے قرآن و سنت کے کچھ احکام کا جھٹکا کرنا چاہا تو حضرت مولانا تھانوی نے رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی اور کمیشن پر واضح کیا کہ قرآن و سنت کے واضح احکام میں ردوبدل کی اجازت نہیں دی جا سکتی، مگر جب کمیشن کے ارکان نہیں مانے تو کمیشن کے اس واحد عالم دین رکن نے کمیشن کی رپورٹ پر دوٹوک اختلافی نوٹ لکھ کر اپنا فرض پورا کیا۔ حکومت نے مولانا احتشام الحق تھانوی کے اس اختلافی نوٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے طاقت اور حکومت کے زور پر عائلی قوانین ملک میں نافذ کر دیے، مگر ساری دنیا اس حقیقت کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ نصف صدی کے قریب عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ قوانین اب بھی قوم میں متنازعہ ہیں۔ جہاں تک قانون کا جبر کام کرتا ہے اس سے زیادہ عائلی قوانین کا کوئی اثر معاشرے میں نہیں ہے۔ لوگ اب بھی نکاح، طلاق اور وراثت کے احکام میں مسائل علماء کرام ہی سے پوچھتے ہیں اور انہی پر عمل کرتے ہیں۔ قوم نے ان قوانین کو آج تک سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی انہیں ذہنی طور پر قبول کیا ہے۔

اس سلسلے میں صرف ایک مثال سے معروضی صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عائلی قوانین کے تحت نکاح کے رجسٹریشن فارم میں ’’تفویض طلاق‘‘ کے خانہ کا اضافہ کیا گیا تھا جس میں نکاح کے وقت خاوند سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اس نے اپنی ہونے والی بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے؟ اس سوال کو نکاح فارم میں درج کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ مغرب کو مطمئن کیا جائے کہ ہم نے عورت کو طلاق کا حق دے دیا ہے، لیکن آپ ملک کے کسی بھی حصے میں نکاح کی کسی تقریب میں نکاح فارم پُر کرنے والے نکاح رجسٹرار اور اس پر دستخط کرنے والے ایک درجن کے لگ بھگ افراد سے پوچھ لیں کہ کیا انہوں نے تفویض طلاق کے اس خانہ کو پر کرنے کے لیے کوئی سوال و جواب یا مشاورت کی ہے؟ عام طور پر نکاح رجسٹرار ہی اس خانہ میں ’ہاں‘ یا ’نہ‘ لگانے کا فریضہ اپنی طرف سے انجام دے دیتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے عائلی قوانین کے بارے میں قوم کی سنجیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، اس لیے ہمیں اس بارے میں ذرہ بھر شبہ نہیں کہ ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ حکومت کی طاقت سے نافذ ہو جانے کے باوجود عوام میں ایک جائز قانون کے طور پر کبھی قبولیت حاصل نہیں کر سکے گا اور جب تک علماء کرام کی سفارشات اور تجاویز کے مطابق اس بل کو دوبارہ مرتب کر کے منظور نہیں کرایا جاتا، یہ شرعی طور پر متنازعہ ہی رہے گا۔ البتہ اس بل کے ذریعے سے فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دینے کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، وہ ضرور قابل تشویش ہے اور اس کی روک تھام کے لیے دینی حلقوں کو اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔

قومی اسمبلی میں اس بل کے پیش ہونے کے بعد امریکی وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد کا امریکی سفارتخانہ پاکستان میں تحفظ ختم نبوت کے قوانین، تحفظ ناموس رسالت کے قانون اور حدود آرڈیننس کو ختم کرانے کے لیے حکومت اور ارکان اسمبلی سے مسلسل رابطے میں ہے۔ اور اب جبکہ تحفظ حقوق نسواں بل کو متنازعہ صورت میں منظور کر لیا گیا ہے، امریکی سفارتخانہ کے افسر نے اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ باقی دو قوانین کے بارے میں بھی جلد پیشرفت ہوگی۔ اس کے بعد اس بل کے مقاصد اور اس سلسلے میں حکومت کے آئندہ پروگرام کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا اور اس عمل کو مؤثر بریک لگانے کے لیے اب اس کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہا کہ جس طرح ملک کے دینی حلقوں نے ماضی میں تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے لیے فرقہ وارانہ تفریق اور سیاسی گروہ بندی سے بالاتر ہو کر مکمل دینی اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ پوری قوم کی رہنمائی اور نمائندگی کی تھی، اب اس فضا کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور پاکستان کے اسلامی تشخص اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر نئی جدوجہد کی داغ بیل ڈالی جائے۔

گزشتہ روز جامعہ اشرفیہ لاہور میں سرکردہ علماء کرام نے مجتمع ہو کر اس مقصد کے لیے ’’مجلس تحفظ حدود اللہ‘‘ کے نام سے جو غیر سیاسی فورم قائم کیا ہے اور ۲۷ نومبر کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہی ملک گیر سطح پر علماء کرام اور دینی کارکنوں کا قومی کنونشن طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ صحیح سمت میں بروقت فیصلہ ہے جسے کامیاب بنانے کے لیے ملک کے تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں، علماء کرام، دانشوروں اور کارکنوں کو بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ یہ دینی جدوجہد کا ناگزیر تقاضا اور وقت کی آواز ہے جسے علماء کرام اور دینی کارکنوں نے بروقت محسوس کر لیا تو امید ہے کہ پاکستان کے دینی تشخص اور پاکستانی معاشرے کی دینی اقدار کو طاقت کے زور سے بلڈوز کرنے کی تازہ کوشش بھی ان شاء اللہ ان کے ایمان اور عزم کا سامنا نہیں کر سکے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter