متحدہ مجلس عمل کی شرائط

   
۴ جون ۲۰۰۳ء

ایل ایف او (Legal Framework Order) پر حکومت اور متحدہ مجلس عمل سمیت اپوزیشن کے تنازع نے مولانا فضل الرحمان کی طرف سے ان شرائط کے اعلان کے بعد ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے کہ اگر حکومت ملک میں (۱) قرآن و سنت کو سپریم لاء تسلیم کر لے (۲) اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کرے (۳) جمعہ کی چھٹی بحال کر دے (۴) بلاسود بینکاری کا آغاز کرے (۵) اور تعلیمی اداروں کی نجکاری روک دے تو متحدہ مجلس عمل ایل ایف او کے بارے میں اپنے موقف میں لچک پیدا کر سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے یہ اعلان کوئٹہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے جبکہ اس سے قبل صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے شرعی قوانین کے نفاذ کے عملی اعلانات کا آغاز کر دیا ہے جس پر بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے تبصروں اور حکومتی حلقوں کے بعض ذمہ دار حضرات کے ردعمل کے تناظر میں قومی سطح پر اس وقت جاری سیاسی کشمکش ایک نیا رخ اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔

صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لاء کے دور میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی اجازت سے دستور میں بہت سی ترامیم کی تھیں جن میں صدر کے اختیارات میں اضافہ اور ملکی نظام کو عملی طور پر صدارتی طرز پر ڈھالنے کے ساتھ ساتھ بعض اسلامی ترامیم کے اقدامات بھی شامل تھے۔ جب انہوں نے ۱۹۸۵ء میں غیر جماعتی الیکشن کرائے تو قومی اسمبلی سے اپنی آئینی ترامیم کی منظوری حاصل کرنے اور انہیں باضابطہ دستوری حیثیت دینے کا راستہ اختیار کیا۔ انہیں اس سلسلہ میں خاصی محنت کرنا پڑی اور مختلف حربوں سے کام لینا پڑا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں ’’شریعت گروپ‘‘ کے نام سے ایک گروپ قائم ہوگیا تھا جس نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ صدر ضیاء الحق نے جو آئینی ترامیم کی ہیں ان میں اسلامائزیشن سے متعلقہ ترامیم متاثر نہ ہوں بلکہ انہیں یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ سے قرآن و سنت کو دستوری طور پر ملک کا سپریم لاء قرار دلوایا جائے۔ صدر ضیاء الحق مرحوم کی آئینی ترامیم میں جہاں صدارتی اختیارات میں اضافہ اور اس نوعیت کی دیگر سیاسی دفعات شامل تھیں وہاں خدا تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے اعلان پر مشتمل قرارداد مقاصد کو دستور کا واجب العمل حصہ قرار دینے، وفاقی شرعی عدالت کے قیام اور حدود آرڈیننس کے نفاذ کی ترامیم بھی موجود تھیں۔ یہ تمام دستوری ترامیم اسلامائزیشن کے حوالہ سے بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھیں اس لیے ان کا تحفظ ضروری تھا۔ چنانچہ قومی اسمبلی کے بہت سے ارکان نے شریعت گروپ کی صورت میں صدر ضیاء الحق مرحوم کی طرف سے کی جانے والی دستوری ترامیم کو دستور کا باضابطہ حصہ بنانے کے لیے اس شرط پر آمادگی ظاہر کی کہ اسلامائزیشن سے تعلق رکھنے والی ترامیم کو تحفظ دیا جائے اور اس کے ساتھ قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دیا جائے۔ اس طرح آٹھویں ترمیمی بل کی صورت میں قرارداد مقاصد، وفاقی شرعی عدالت، حدود آرڈیننس اور صدارتی اختیارات سمیت صدر ضیاء الحق مرحوم کی تمام ترامیم کو دستور کا حصہ بنا دیا گیا اور قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دینے کے لیے قومی اسمبلی نے ایک الگ قرارداد کی صورت میں قوم سے وعدہ کیا کہ جلد ایک مستقل آئینی ترامیم کے ذریعے قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دے دیا جائے گا۔

اس کے بعد سینٹ آف پاکستان میں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف نے قومی اسمبلی کے اسی متفقہ وعدہ کی بنیاد پر ’’شریعت بل‘‘ پیش کیا جس کی سب سے اہم دفعہ قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کی تھی۔ اس شریعت بل پر کئی برس تک بحث جاری رہی، ملک بھر میں اس کے حق میں اور مخالف وسیع پیمانے پر قومی مباحثہ ہوا، بہت سی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔ اس کے لیے سینٹ آف پاکستان کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے ملک میں رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے سینٹ کی طرف سے سوالنامہ جاری کرنے کا حکم دیا جس کے جواب میں اس قدر خطوط موصول ہوئے کہ سینٹ کے ریکارڈ کے مطابق اس سے قبل کسی سوالنامے پر اتنی تعداد میں جوابات موصول نہیں ہوئے تھے۔ ہر سطح پر وسیع تر قومی مباحثے کے بعد ملک کی اہم سیاسی و دینی جماعتیں اس کی حمایت میں متحد ہوئیں اور راولپنڈی کے فلیش مین ہوٹل میں مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف سمیت بڑے بڑے راہنماؤں نے شریک ہو کر اس کی حمایت کا اعلان کیا اور بالآخر سینٹ آف پاکستان نے شریعت بل منظور کر لیا۔ اس کے بعد ضابطہ کے مطابق شریعت بل کو قومی اسمبلی میں نوے دن کے اندر پیش ہونا تھا مگر اس سے قبل قومی اسمبلی ٹوٹ گئی اور اس قدر طویل اور ہمہ گیر جدوجہد کے بعد سینٹ آف پاکستان سے منظور ہونے والا شریعت بل جس کا سب سے بڑا مقصد قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینا تھا، ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گیا۔

یہ دور بے نظیر بھٹو کا تھا جن کے بعد میاں نواز شریف برسراقتدار آئے اور ان کے دور میں قومی اسمبلی میں ایک شریعت بل پیش ہوا جو منظور بھی ہوگیا مگر اس میں قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کی بنیادی دفعہ کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر کے غیر مؤثر کر دیا گیا کہ

’’اس سے ملک کا سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ متاثر نہیں ہوگا‘‘۔

ظاہر بات ہے کہ اس شرط کے بعد قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کے اس فیصلے کی کوئی افادیت باقی نہیں رہ گئی تھی اس لیے اس کا بھی کوئی عملی نتیجہ سامنے نہ آیا۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کے سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے کو قرآن و سنت کی بالادستی کے دائرہ سے باہر رکھنے میں سب سے زیادہ دلچسپی اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ نے لی اور اس کی درپردہ مساعی سے یہ سب کچھ ظہور پذیر ہوا۔ اس کے بعد مختلف مواقع پر قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کے لیے آواز اٹھائی جاتی رہی مگر کسی طرف بھی شنوائی نہیں ہوئی۔

اب اگر متحدہ مجلس عمل نے صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ سیاسی بارگیننگ کے دوران اس مسئلہ کو دوبارہ اعلیٰ سطح پر اٹھایا ہے تو اگرچہ میرے جیسے نظریاتی کارکنوں کے لیے یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ اسلامائزیشن کی طرف کسی بھی پیشرفت کا موقع آخر سیاسی سودے بازی کے حوالہ سے ہی کیوں سامنے آتا ہے اور ملک کے مقتدر سیاسی حلقے اسے خود اپنی دینی و ملی ذمہ داری سمجھنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟ مگر اس کے باوجود ہماری خواہش ہے کہ متحدہ مجلس عمل کو اس مہم میں کامیابی حاصل ہو اور خدا کرے کہ وہ صدر جنرل پرویز مشرف کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ اگر وہ اپنی ذات، صدارت اور وردی کو ملک کے لیے ناگزیر تصور کرتے ہیں تو اسلام اس سے کہیں زیادہ ملک کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان کی بنیاد ہی اسلام پر ہے اور اسلام کے بغیر پاکستان کے جداگانہ تشخص اور ایک الگ ملک کے طور پر اس کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

متحدہ مجلس عمل کی دیگر شرائط بھی اسی نوعیت کی ہیں۔ مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل ملک کا دستوری ادارہ ہے جس نے دستور پاکستان کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ملک کے تمام مروجہ قوانین کا جائزہ لے کر انہیں اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے سفارشات مکمل کر کے انہیں حکومت کو پیش کر دیا ہے اور حکومت دستوری طور پر انہیں قومی اسمبلی میں پیش کر کے ان کے مطابق قانون سازی کی پابند ہے۔ اس صورت میں یہ شرط یا تجویز کوئی نیا مطالبہ نہیں بلکہ حکومت کو اس کی دستوری ذمہ داری کی طرف توجہ دلانے کی ایک کوشش ہے اور ہمارے خیال میں حکومت کو اس میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔

البتہ صدر ضیاء الحق مرحوم اور جنرل پرویز مشرف کی دستوری ترامیم میں دو فرق موجود ہیں:

  1. ایک یہ کہ صدر ضیاء الحق مرحوم کی دستوری ترامیم میں اسلامائزیشن سے متعلقہ اہم ترامیم بھی شامل تھیں جن کے تحفظ میں ملک کے دینی حلقوں کی گہری دلچسپی موجود تھی۔ جبکہ جنرل پرویز مشرف کی تمام ترامیم سیاسی نظام اور صدارتی اختیارات کے حوالہ سے ہیں۔
  2. دوسرا فرق یہ ہے کہ صدر ضیاء الحق مرحوم نے اپنی ترامیم کو حرف آخر قرار نہیں دیا تھا بلکہ انہیں منتخب قومی اسمبلی سے منظور کرانے کا راستہ اختیار کیا تھا جو ایک جائز اور معقول بات تھی۔ مگر صدر جنرل پرویز مشرف اپنی دستوری ترامیم کو حرف آخر قرار دے کر قومی اسمبلی کو ان پر غور اور ردوبدل کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور خود اپنی ذات کو ہی دستور اور دستوری اداروں کے مترادف قرار دینے پر مصر ہیں۔

اس پس منظر میں متحدہ مجلس عمل کی یہ مہم زیادہ کٹھن اور صبر آزما ہے اور اس کے آگے بڑھنے میں کامیابی کے محدود امکانات کے ساتھ ساتھ خطرات و خدشات کا ایک خطرناک صحرا بھی سامنے دکھائی دے رہا ہے۔ قرآن و سنت کو ملک کا بالاتر قانون قرار دینے اور اسلامائزیشن کی طرف کسی بھی حوالہ سے پیشرفت کی کوئی کوشش ہو تو اسے بہرحال ملک کے دینی حلقوں اور نفاذ اسلام کی خواہش رکھنے والے عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ خدا کرے کہ کوئی کوشش اس سلسلہ میں بھی بارآور ہو اور ملک صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست کی حیثیت اختیار کر سکے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter