نفاذِ اسلام اور پارلیمنٹ

   
۲۰۱۷ء

اس کے بعد پاکستان میں جب شریعت کے عملی نفاذ کا مطالبہ شروع ہوا تو یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ اگر شریعت نافذ کرنی ہے تو کسی چیز کے شریعت ہونے یا نہ ہونے میں فیصلے کی اتھارٹی کون ہو گی؟ یہ بنیادی جھگڑا چلتا رہا ہے۔ بات اصولی طور پر ٹھیک ہے کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہونا چاہیے اور پاکستان میں شریعت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اصول میں لکھا ہوا ہے اور دستور میں گارنٹی دی گئی ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کرے گی اور پاکستان میں قرآن و سنت کے احکام نافذ کیے جائیں گے بالخصوص عدالتوں میں۔ لیکن یہ بنیادی جھگڑے کی بات باقی رہی کہ کون سی بات شریعت کی ہے اور کون سی نہیں؟ کون سا قانون شریعت کے مطابق ہے اور کون سا شریعت کے خلاف ہے؟ دستوری نظام میں اس کا فیصلہ کرنے کی اتھارٹی کون ہو گی؟ آخر کوئی تو فائنل اتھارٹی ہو گی جس کا فیصلہ نافذ ہو جائے کہ جس کے بعد بحث اور دلیل کی گنجائش باقی نہ رہے، اس کے بغیر نظام نہیں چلے گا۔

جدید قانون دان حضرات اور دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ یہ کہتا ہے کہ یہ اتھارٹی پارلیمنٹ کو دے دی جائے۔ قرآن و سنت اور شریعت کی تعبیر اور کسی چیز کے شرعی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے۔ پارلیمنٹ کی اکثریت جو فیصلہ کر دے وہ ٹھیک ہے وہی شریعت ہے، اور جدھر اقلیت ہو وہ قانون ختم ہو جائے۔ یہ بہت لمبی اور بہت گہری بحث ہے جو کہ طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے اور اس کشمکش اور بحث نے بہت سے خیر کے کاموں کا راستہ روکا ہوا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل، اس سے پہلے اسلامی مشاورتی کونسل، اور اس سے پہلے ادارہ تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ اس مقصد کے لیے بنا تھا کہ علماء اور جدید قانون دان ماہرین کا ایک مشترکہ فورم ہو گا جو پارلیمنٹ کی رہنمائی کرے گا کہ کون سا قانون شریعت کے مطابق ہے اور کون سا شریعت کے مطابق نہیں۔ مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیعؒ جو ہمارے اکابر اور تحریکِ پاکستان کے مرکزی رہنماؤں میں سے تھے ،انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ کی میٹنگ تھی جس میں جسٹس صاحبان بھی تھے اور ہم بھی تھے۔ یہ کشمکش زیر بحث تھی کہ شریعت کے طے کرنے کی اتھارٹی کون ہے۔ آپ کو تعبیرات کے فرق کا علم ہے کہ اسلامی احکام کی تعبیرات جدید دانشور کیا کر رہے ہیں؟ اور ہماری قدیم اجتماعی اور روایتی تشریح و تعبیر جو چلی آ رہی ہے جس پر ہم قائم ہیں وہ مختلف ہے۔ مفتی صاحبؒ نے لکھا ہے کہ بحث ذرا آگے بڑھی تو میں نے چیئرمین جسٹس صاحب سے کہا کہ دو تین میٹنگوں میں بات سمجھ میں آگئی ہے۔ پاکستان کو جس طرف آپ لے جانا چاہ رہے ہیں میں نہیں جانے دوں گا، اور جس طرف میں لے جانا چاہ رہا ہوں آپ نہیں جانے دیں گے۔ یہ گاڑی یہیں کھڑی رہے گی۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر اب تک وہیں کھڑی ہے، ستر سال ہو گئے ہیں۔

چنانچہ ہمارا ایک بڑا جھگڑا پارلیمنٹ کی خود مختاری کے حوالے سے ہے کہ پارلیمنٹ کو تعبیر اور تشریح کا حق دے دیا جائے۔ اس پر شریعت بل کی تحریک کے دوران ایک اعلیٰ سطحی مذاکرہ وفاقی وزیر قانون اور وفاقی وزیر مذہبی امور کے ساتھ چل رہا تھا، میں بھی اس میں شریک تھا۔ ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ قرآن و سنت کو سپریم لاء یعنی بالادست اور بالاتر قانون قرار دیا جائے، اور ملک میں جو قانون، رسم و رواج ، یا ضابطہ قرآن و سنت کے متصادم ہے وہ ختم ہو جائے۔ مذاکرات میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ قرآن و سنت کی بالادستی تو ہم تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن قرآن و سنت کی تعبیر اور تشریح کی اتھارٹی کون ہو گی؟ پارلیمنٹ خود اتھارٹی ہو گی یا اسے کسی اور سے تشریح لینی ہو گی۔ یہ بڑا پرانا جھگڑا ہے جو پاکستان بننے کے بعد سے چلا آ رہا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن و سنت ملک کا سپریم لاء ہے تو یہ فیصلہ کرنا کہ یہ اسلام ہے اور یہ اسلام نہیں ہے، اس میں اتھارٹی کون ہو گی؟

اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی تھی کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کی پابند ہو گی اور اس کی رہنمائی اسلامی نظریاتی کونسل کرے گی۔ یہ کونسل تمام مکاتبِ فکر کے ذمہ دار نمائندہ علماء کرام پر مشتمل ہو گی اور ان کے ساتھ ملک کے ممتاز قانون دان ماہرین ہوں گے۔ کونسل کو مسائل بھیجے جائیں گے اور وہ کسی قانون کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے کی سفارش کرے گی، جس کی بنیاد پر پارلیمنٹ قانون سازی کرے گی۔ یہ ایک درمیان کا راستہ نکالا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کی قوتِ تنفیذ بھی متاثر نہ ہو اور قرآن و سنت کے احکام کی تشریح و تعبیر بھی علماء کے ذریعے ہو۔

اس کے بعد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی تو اس کا بنیادی کام بھی یہ ہے کہ وہ کسی قانون کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس میں بھی مختلف مکاتبِ فکر کے علماء اور جج صاحبان مشترک طور پر حصہ ہوتے ہیں، لیکن اس کو کچھ وسیع اختیارات مل گئے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام محض سفارش ہے لیکن وفاقی شرعی عدالت کو محدود طور پر فیصلوں کا اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ کسی قانون کو ختم بھی کر سکتی ہے۔

چنانچہ ہمارے ملک کے دستور میں یہ دو ادارے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت اس کام کے لیے ہیں کہ وہ کسی قانون کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کا فیصلہ دیں۔ وہ سفارش کے درجے میں ہو یا فیصلے کے درجے میں، پارلیمنٹ اس کو منظور کرے اور وہ نافذ ہو جائے۔ یہ دو ادارے ہیں بہت سے معاملات میں فیصلہ کر چکے ہیں، البتہ فیصلوں پر عملدرآمد کا مرحلہ بہت مشکل ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے مسلسل کام کر کے اور ملک کے تمام قوانین کا جائزہ لے کر ایک جامع رپورٹ مرتب کر کے حکومت کو پیش کر رکھی ہے کہ فلاں قانون میں فلاں فلاں شق قرآن و سنت سے متصادم ہے اس کو ختم کر کے یہ شق آنی چاہیے۔ جہاں تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور تجاویز کا تعلق ہے اس میں کوئی خلا نہیں ہے۔ کم و بیش ملک میں موجود ہر قانون کے بارے میں ایک واضح رائے موجود ہے، اور متبادل قانون بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اس کی بجائے یہ قانون ہونا چاہیے۔ لیکن چونکہ اس کی حیثیت سفارش کی ہے، باوجودیکہ دستور میں لکھا ہوا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل جو سفارشات پیش کرے گی، حکومت انہیں قانون سازی کے لیے متعلقہ اسمبلی میں پیش کرنے کی پابند ہے، وفاقی معاملات میں وفاقی حکومت اور صوبائی معاملات میں صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ کونسل کو سفارشات اسمبلی میں پیش کر کے قانون کی شکل دیں، یہ قانون اور ضابطہ تو موجود ہے لیکن ایسے ہوتا نہیں ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کام تو کر رہی ہے لیکن وہ عمل میں نہیں آ رہا، اور وفاقی شرعی عدالت کو فیصلے کرنے کا اختیار تو ہے وہ فیصلہ کرتی بھی ہے لیکن اس کے فیصلوں پر عملدرآمد میں رکاوٹ یہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل ہونے کے بعد ’’فریزر‘‘ میں لگ جاتے ہیں۔ کئی فیصلوں کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کی رٹ درخواستیں سپریم کورٹ میں موجود ہیں، جب حکومت کی پالیسی طے ہوتی ہے تو وہ ان کو نکالتے ہیں، ورنہ وہی پڑی رہتی ہیں۔

یہ بات سمجھنی چاہیے کہ قانون اور دستور کی زبان بالکل مختلف ہوتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا دینی حلقہ قانون اور دستور کی زبان اور باریکیوں کو نہیں سمجھتا۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔ اس مسئلے پر کہ ’’قرآن و سنت ملک کا سپریم لاء ہوں گے‘‘ اس میں وہ اضافہ چاہتے تھے کہ ’’قرآن و سنت ملک کا سب سے بڑا سورس آف لاء ہوں گے‘‘ یعنی قانون سازی کا سرچشمہ اور ذریعہ ہوں گے۔ ایک عام آدمی سے بات کریں تو وہ کہے گا کہ یہ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں یہ کون سی غلط بات ہے۔ لیکن ہمارا مطالبہ تھا کہ قرآن و سنت سورس آف لاء نہیں ہوں گے، خود ان کے جو احکام ہیں وہ نافذ ہوں گے، ان کی روشنی میں ہم اس کا خلاصہ نہیں نکالیں گے۔ سورس آف لاء کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی ہم خود کریں گے۔ اور ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ قرآن و سنت خود لاء ہے۔

ہم عام طور پر دستور اور قانون کی زبان نہیں سمجھتے، اسی المیہ کے حوالے سے ایک بات اور ذکر کرنا چاہوں گا جو تاریخ کا حصہ ہے۔ مولانا صوفی محمد نے جب مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ شریعت کی تحریک چلائی، اس کے نتیجے میں نفاذِ شریعت ریگولیشن جاری ہوا جو معاہدے کے تحت نافذ ہوا۔ میں اس وقت متحدہ شریعت محاذ پاکستان کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ میں نے وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے خود سوات کا دورہ کیا، یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا ہوا ہے اور کیسے ہوا ہے۔ جس دن میں راولپنڈی پیر ودھائی سے بس پر بیٹھا، اس دن کے نوائے وقت نے اس ریگولیشن کا اردو ترجمہ چھاپا تھا جو میں نے راولپنڈی سے جاتے ہوئے راستے میں پڑھا۔ چونکہ اس میدان میں مجھے بھی پچاس سال ہو گئے ہیں اس لیے تھوڑا بہت دستور و قانون کی زبان کو سمجھتا ہوں کہ جملہ کیا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ ریگولیشن پڑھ کر میں نے سر پکڑ لیا کہ اس میں تو کچھ بھی نہیں تھا، انہوں نے صرف اصطلاحات بدلی تھیں کہ سیشن جج اب ضلع قاضی کہلائے گا اور سول جج تحصیل قاضی کہلائے گا۔ سوات پہنچا، وہاں مولانا قاری عبد الباعثؒ میرے دوست تھے جو کہ ایم این اے رہے ہیں، سیدو شریف میں مسجد کے خطیب تھے، میں ان کے پاس ٹھہرا اور ان سے کہا کہ خدا کے بندو! آپ لوگوں نے یہ کیا نافذ کیا ہے؟ اس میں تو کچھ بھی نہیں ہے، سوائے اس کے کہ تھوڑا بہت اصطلاحات کا فرق ہے۔ میں نے کہا البتہ ایک فرق ہوا ہے کہ وہ عائلی قوانین جو سارے ملک میں متنازع چلے آ رہے ہیں اور پہلے یہاں نافذ نہیں تھے، اب آپ نے اس معاہدے کے ذریعے ان کو یہاں بھی نافذ کروا دیا ہے۔ میں نے انہیں وہ شق پڑھ کر سنائی کہ یہ عائلی قوانین جس پر ہمارے علماء سالہا سال سے لڑتے چلے آ رہے ہیں، وہ اس سے پہلے مالاکنڈ ڈویژن کے علاقے میں نافذ نہیں تھے، اب آپ نے اس پر دستخط کر دیے ہیں اور وہ یہاں بھی نافذ ہو گئے ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ یہ معاہدہ آپ نے پڑھا نہیں تھا، ویسے ہی سب نے دستخط کر دیے؟ تو وہ کہنے لگے کہ وہ معاہدہ انگریزی میں تھا، چیف سیکرٹری نے کہا تھا کہ اس میں آپ کے سارے مطالبے لکھے ہوئے ہیں، تو ہم نے دستخط کر دیے۔ میں نے کہا خدا کے بندے! چیف سیکرٹری تو فریق ثانی ہے۔ میں نے کہا، یہاں ہائی کورٹ کے وکلاء میں آپ کو کوئی دیندار وکیل نہیں ملا جس کو آپ ساتھ ملاتے اور اس سے پڑھوا لیتے کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے؟ یا چلو چھوڑیں وکیل کو، قانون کی زبان سمجھنے والے علماء بھی ہیں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا سمیع الحق، یا مولانا قاضی عبد اللطیف سے پڑھوا لیتے۔ یہ قانون کی زبان سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ وہ کہنے لگے کہ سیکرٹری نے کہا تھا ہم نے اس میں آپ کی شریعت نافذ کر دی ہے، تو ہم نے دستخط کر دیے۔

ایک اور المیہ ذکر کرتا ہوں، میں خود اس میں مبتلا رہا ہوں اور اب بھی کسی حد تک شریک ہوں۔ میں نے ساری صورتحال معلوم کرنے کے لیے دو آدمیوں سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ اتفاق سے اس وقت ڈی آئی جی پولیس ہمارے وزیر آباد کے تھے، ہمارا علاقائی تعلق تھا، میں گکھڑ کا ہوں اور تحصیل وزیر آباد ہی ہے۔ میں نے سوچا کہ اس حوالے سے ان سے ملتا ہوں اور ان سے صورتحال معلوم کرتا ہوں کہ کیا ہوا ہے؟ میں نے پیغام بھیجا، وہ بڑے خوش ہوئے، انہوں نے بلایا اور وہاں کی صورتحال بتائی کہ یہ ہوا ہے، ایسے ہوا ہے۔ میں نے تفصیلی رپورٹ لکھی تھی جو چھپ چکی ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہائی کورٹ کے دو تین وکیل جو دیندار اچھے وکیل ہوں ان سے ملنا چاہیے۔ پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل بشیر حسین تھے، میں ان سے ملا، تعارف کروایا، غائبانہ طور پر اخبارات کے ذریعے وہ مجھے جانتے تھے۔ میں نے کہا، میں آپ کے پاس شکوہ لے کر آیا ہوں کہ آپ کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ آپ مسلمان ہیں اور شریعت بھی چاہتے ہیں، آپ کے ساتھ اور وکلاء بھی ہوں گے۔ انہوں نے کہا جی ہمارا پورا گروپ ہے۔ میں نے کہا، آپ حضرات علماء کرام کے ساتھ مل کر یہ تکلف نہیں کر سکے کہ آپ ان کو گائیڈ کریں کہ قانون کی زبان یہ ہے، آپ ان کے ساتھ ملیں، تحریک میں شریک ہوں اور ان سے کہیں کہ ہماری خدمات حاضر ہیں۔ یقین جانیے میرے کہنے پر وہ رونے لگ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم علماء کرام کے پاس گئے تھے، ہم نے اپنی خدمات پیش کی تھیں، لیکن تحریکِ نفاذِ شریعت کی شورٰی کی طرف سے ہمیں یہ کہا گیا کہ آپ کی ضرورت نہیں ہے، یہ علماء کا کام ہے، آپ کا کام نہیں ہے۔ ہماری اپنی صورتحال یہ ہے، چنانچہ جو کچھ ہوا، سو ہوا۔

2016ء سے
Flag Counter