گزشتہ اٹھارہ برس کے دوران بلامبالغہ بیسیوں بار برمنگھم جانے کا اتفاق ہوا ہے، مگر ۷ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو جب میں برمنگھم کے ایئرپورٹ پر اترا تو یہ شہر میرے لیے بالکل نیا تھا، اس لیے کہ یہ وہ برمنگھم نہیں تھا جو برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے اور دنیا بھر میں معروف ہے۔ بلکہ یہ امریکہ کی ریاست الاباما کا ایک شہر ہے جو نیویارک سے تقریباً تیرہ سو میل جنوب کی طرف واقع ہے اور جہاں میرے بچپن کے ایک دوست اور ساتھی افتخار رانا کئی برسوں سے قیام پذیر ہیں۔
افتخار رانا کا تعلق گکھڑ سے ہے، وہاں ہمارے پڑوسی تھے، ہم نے اکٹھے تعلیم حاصل کی اور اکٹھے ہی پلے بڑھے۔ انہوں نے انجینئرنگ کی لائن اختیار کی اور پاک فوج میں چلے گئے اور میں دینی تعلیم میں مصروف ہو گیا۔ پاک فوج سے ریٹائرمنٹ لے کر وہ امریکہ چلے آئے اور یہاں برقی پاور کی ایک کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔ پہلے ریاست جارجیا کے شہر آگستا میں رہتے تھے، اب برمنگھم میں ہیں۔ چند ماہ قبل جب مئی کے دوران میں دو ہفتے کے لیے امریکہ آیا تو ان کے لیے وقت نہیں نکال سکا تھا، جس پر وہ اور ان کی اہلیہ خاصے ناراض ہوئے اور فون پر اس کا اظہار بھی کیا۔ اس لیے اس بار ان کے لیے وقت بہرحال نکالنا پڑا اور میں ۷ اکتوبر کو دو دن کے لیے ان کے ہاں جا پہنچا۔
ان کا قیام برمنگھم سے پندرہ میل کے فاصلے پر ہوور نامی بستی میں ہے جسے وہ ویلیج (گاؤں) کہتے ہیں، مگر مجھے وہاں زندگی کی سہولتوں اور دیگر حوالوں سے گاؤں والی کوئی بات دکھائی نہیں دی۔ کیونکہ ہمارے ہاں گاؤں کا تصور یہ ہے کہ وہ پختہ سڑک، فون، گیس، پانی، سیوریج، مارکیٹ اور دیگر شہری ضروریات سے پوری طرح نہیں تو کم از کم ان میں سے نصف سے ضرور محروم ہو۔ لیکن امریکہ کے دیہات میں مجھے ان تمام سہولتوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ دو مزید سہولتوں کا اضافہ بھی نظر آیا۔ ایک یہ کہ شہروں کی نسبت دیہات کے ماحول میں فضائی آلودگی کم ہے، اور دوسرا ٹریفک کا شور بھی شہروں جیسا نہیں ہے۔
رانا صاحب نے دفتر سے میری خاطر چھٹی لے لی اور برمنگھم اور ہوور کی خوب سیر کرائی۔ برمنگھم میں وہ مجھے ولکن پارک لے گئے جہاں لوہے کا ایک بلند و بالا مجسمہ نصب کیا جا رہا ہے۔ ابھی زیرتعمیر ہے، اس لیے وہاں گھومنے پھرنے کی عام اجازت نہیں، مگر رانا صاحب نے وہاں کے انچارج اوزی سے میرا تعارف ’’پریسٹ آف مائی ویلیج‘‘ کہہ کر کرایا تو اس کے چہرے پر احترام اور ادب کے تاثرات ابھر آئے اور اس نے ہمیں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی اس جگہ کے بارے میں اچھی خاصی بریفنگ دے دی۔ اس کا کہنا تھا کہ جس جگہ آپ کھڑے ہیں اس کے نیچے کوئلے کی کان ہے جو بیس میل تک چلی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوہے کی کان بھی ہے، اور کچھ عرصہ قبل تک اس شہر میں ۲۸ فرمیں لوہے اور کوئلے کی کھدائی کا کام کرتی تھیں جن میں سے ۲۷ بند ہو چکی ہیں اور اب صرف ایک فیکٹری کام کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں لیبر بہت مہنگی ہے، اس لیے صنعتکار اپنی ملیں میکسیکو اور اس طرح کے دیگر ملکوں میں منتقل کرتے جا رہے ہیں جہاں لیبر سستی ہے۔ اور اس سے امریکہ میں ہزاروں افراد ہر سال روزگار سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس زیرزمین لوہے اور کوئلے کا وسیع ذخیرہ ہے لیکن اس کا نکالنا ہمیں بہت مہنگا پڑتا ہے، اس لیے ہم اسے نکالنے کی بجائے باہر سے درآمد کر کے اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔
اوزی نے بتایا کہ یہ مجسمہ ولکن نامی ایک شخص نے ۱۹۰۴ء میں تیار کیا تھا اور اسے امریکہ کے شہر سینٹ لوئس میں اسی سال منعقد ہونے والے صنعتی میلے میں برمنگھم کی نمائندگی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ مجسمہ یادگار کے طور پر یہاں نصب کیا گیا، اور اب ایک سو سال مکمل ہونے پر اسے نئے سرے سے تیار کیا جا رہا ہے، جبکہ اگلے سال ۲۰۰۴ء کے اپریل میں اس کی باقاعدہ صد سالہ تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
ہوور میں رانا صاحب مجھے مسلمانوں کے ایک سکول میں بھی لے گئے جہاں نویں گریڈ تک بچوں اور بچیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک فلسطینی خاتون محترمہ عصمت اس کی پرنسپل ہیں، اسکول کے ساتھ مسجد بھی ہے جہاں ہم نے ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی۔ ایک بچے نے اذان دی، بچے نے ہی اقامت کہی، جبکہ ایک فلسطینی بزرگ نے نماز پڑھائی جو سوٹڈ بوٹڈ تھے، ڈاڑھی مجھ سے بھی لمبی تھی اور سر سے ننگے تھے۔ ہمارے ہاں اس کیفیت کو عجیب سمجھا جاتا ہے مگر عرب بھائیوں میں یہ ساری باتیں چل جاتی ہیں۔ سکول کا تعلیمی ماحول اور دینی تربیت کا اہتمام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ مروجہ تعلیمی نصاب اہتمام کے ساتھ معیاری انداز میں پڑھایا جاتا ہے، اس کے ساتھ دینی تربیت اور ماحول کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ بچوں کو قرآن کریم کے کچھ حصے بھی یاد کرائے جاتے ہیں اور عقائد، عبادات اور اخلاق کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
افتخار رانا نے بتایا کہ ان کے بیٹے عماد رانا نے بھی چند سال اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے اور جب وہ یہاں سے فارغ ہو کر دوسرے سکول میں منتقل ہوا تو اسے قرآن کریم کے تین پارے یاد تھے اور دین کی بنیادی باتوں کا بخوبی علم تھا۔ یہاں مسلمان گھرانوں میں اپنے بچوں کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ افتخار رانا کی تین سالہ نواسی سوہا پاکستانی لباس پہنے سر پر چھوٹا سا دوپٹہ لے کر اسے گردن کے گرد لپیٹے ہوئے میرے پاس آئی تو سچی بات ہے کہ وہ مجھے بہت ہی اچھی لگی۔ اور جب اس نے میری طرف دیکھ کر اپنی ماں سے کہا کہ انکل سے کہو وہ ہمارے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھائی دیں، تو میرے ذہن میں یہاں کے مسلمانوں کی نئی پود کے بارے میں پیدا ہونے والے خدشات کے نقوش مدھم پڑتے چلے گئے، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین یا رب العالمین۔
یہاں کے مسلمان دوستوں نے ایک عمارت کرائے پر لے کر ایک دینی مرکز قائم کر رکھا ہے جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ہوتی ہے اور وقتاً فوقتاً دینی اجتماعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ مغرب کے بعد وہاں ایک نشست کا اہتمام تھا، جس میں مردوں اور خواتین کی آبادی کے لحاظ سے اچھی خاصی تعداد نے شرکت کی۔ مجھے اس نشست میں اظہار خیال کے لیے کہا گیا۔ میں نے اپنی گفتگو میں شرکائے مجلس کو تین امور کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی:
- پہلی بات یہ کہ مختلف ممالک سے نقل مکانی کر کے آپ حضرات یہاں آئے ہیں اور آپ نے امریکہ کو اپنا وطن بنا لیا ہے، تو جہاں آپ یہاں کے وسائل اور سہولتوں سے استفادہ کر رہے ہیں، وہاں اس سوسائٹی کا آپ پر حق بنتا ہے کہ آپ اسے کچھ دیں بھی۔ اس ملک اور سوسائٹی نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے اور آپ اسے بھرپور طریقے سے وصول کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ اس سوسائٹی کو دے کیا رہے ہیں؟ صرف لینا اور لیتے ہی چلے جانا تو انصاف کی بات نہیں ہے، لہٰذا اس سوسائٹی کو کچھ دینا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
اس سلسلہ میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے پاس انہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے اور ہم انہیں بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ ان کے پاس دنیا کے وسائل اور سہولتوں کی فراوانی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، اور یہ ہمیں ان سے بہرہ ور کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے پاس روح کا سکون اور آخرت کی نجات کا سامان نہیں ہے، جو بحمد اللہ تعالیٰ تمام تر خرابیوں کے باوجود ہمارے پاس موجود ہے، وہ ہم انہیں دے سکتے ہیں اور یہ ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم وہ انہیں مہیا کریں۔
یہ بات میں محض عقیدت و جذبات کے حوالے سے نہیں کر رہا بلکہ یہ ایک امرِ واقعہ ہے۔ میں نے چند سال قبل نوٹنگھم برطانیہ میں ایک بڑے پادری صاحب سے اس سلسلہ میں بات کی اور ان سے پوچھا کہ مغربی سوسائٹی میں خاندانی سسٹم کی بربادی اور روحانی سکون کے فقدان کے حوالے سے جو صورتحال ہے، کیا وہ اس سے مطمئن ہیں؟ انہوں نے نفی میں سر ہالیا اور کہا کہ یہ صورتحال ہمارے لیے بڑی پریشان کن ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ کے نزدیک اس کا حل کیا ہے؟ تو انہوں نے بڑے صاف انداز میں یہ بات کہہ دی کہ ہمارے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے، ہم تو آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
اس لیے یہاں رہنے والے مسلمانوں کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اس صورتحال اور ضرورت کا احساس کریں اور سوسائٹی کے ہر فرد تک اسلام کی دعوت اور پیغام پہنچانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں۔
- دو سری بات میں نے مسلمانوں کی نئی پود کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کی کہ آپ حضرات اس کا صحیح طور پر احساس نہیں کریں گے تو اپنی نئی نسل کو آپ اسلام کے ساتھ وابستہ نہیں رکھ سکیں گے۔
- تیسرے نمبر پر میں نے اس بات پر زور دیا کہ دین صرف عبادات کا نام نہیں ہے، بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورے توازن کے ساتھ ادا کرنا ہی اصل دین ہے۔ اسی طرح دین اور دنیا کی تقسیم کا جو تصور ہمارے ہاں عام طور پر پایا جاتا ہے وہ درست نہیں ہے۔ اسلام دین اور دنیا دونوں کی بہتری کا تصور دیتا ہے اور دونوں کو بہتر بنانے کی تلقین کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی کام آپ نیک نیتی کے ساتھ صحیح طریقے سے کریں گے تو وہ دین ہو گا، اور دین کا کوئی بڑے سے بڑا کام نیت کی خرابی کے ساتھ انجام دیں گے تو وہ دنیاداری میں شامل ہو جائے گا۔
افتخار رانا مجھے یہاں کے پرائمری سکول ’’ہوور ایلیمنٹری سکول‘‘ میں بھی لے گئے۔ سکول کی پرنسپل محترمہ ڈاکٹر رائیلی نے دفتر سے باہر آ کر ہمارا خیرمقدم کیا اور خود ساتھ چل کر سکول کے مختلف شعبوں اور کلاسوں کا معائنہ کرایا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کلاسوں میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ لائبریری سے استفادہ کرتے اور کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے دیکھا تو خوشی کے ساتھ ساتھ حسرت کے جذبات نے بھی دل کا گھیراؤ کر لیا کہ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی اس قسم کے انتظامات، معیار اور سہولتوں کا تصور نہیں پایا جاتا جو یہاں ایک پرائمری سکول کے بچوں اور اساتذہ کو میسر ہیں۔ ڈاکٹر رائیلی نے بتایا کہ وہ سکول میں معمول کے تعلیمی نظام اور طریق کار کے ساتھ ساتھ دو مختلف تجربات بھی کر رہی ہیں:
- ایک یہ کہ بعض بچوں کے والدین کی خواہش پر ان کے بچوں کو ایک ہی ٹیچر کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو انہیں سارے مضامین پڑھاتی ہیں، اور بچے مختلف ٹیچروں سے الگ الگ مضامین پڑھنے کی بجائے ایک ہی ٹیچر سے ساری تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
- دوسرا یہ کہ مختلف درجات کی تین کلاسوں کو بعض مضامین میں اکٹھا کر دیا جاتا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ چھوٹی کلاسوں کے بچے بڑے بچوں سے سیکھیں اور مختلف درجات اور عمر کے بچوں کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی استفادہ کا ماحول پیدا ہو۔ ان کلاسوں میں بچوں کے والدین بھی وقتاً فوقتاً آتے ہیں اور ان سے بچوں کو لیکچر دلوائے جاتے ہیں۔
رانا صاحب اور ان کے دوستوں کا اصرار تھا کہ میں کم از کم ہفتہ دس دن ان کے ہاں ضرور قیام کروں، مگر پروگرام کے شیڈول میں گنجائش نہیں تھی، اور جمعہ کا وعدہ میں نے دارالہدیٰ اسپرنگ فیلڈ واشنگٹن کے لیے کر رکھا تھا، اس لیے دو دن قیام کے بعد جمعرات کی شام کو ’’یار زندہ صحبت باقی‘‘ کا ورد کرتے ہوئے میں برمنگھم سے بالٹیمور کی طرف پرواز کر گیا۔