دوبئی کے چند دینی و علمی مراکز میں حاضری

   
تاریخ : 
۳۰ جنوری ۲۰۰۱ء

دوبئی پہلے بھی کئی بار جا چکا ہوں مگر اس بار خاصے عرصہ کے بعد جانے کا اتفاق ہوا۔ نو روزہ قیام کے دوران میرے میزبانوں محمد فاروق الشیخ، حافظ بشیر احمد چیمہ، مفتی عبد الرحمان اور چوہدری رشید احمد چیمہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ وقت نکال کر مجھے مختلف مقامات پر لے جا سکیں۔ چنانچہ ان کی توجہات کے باعث میں نے خاصا مصروف وقت گزارا اور کوشش رہی کہ ذاتی معلومات اور استفادہ کے ساتھ ساتھ اپنے قارئین کے لیے بھی دلچسپی کی کچھ چیزیں جمع کر سکوں جس کے لیے ان دوستوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔

دوبئی، شارجہ، عجمان، ام القوین، الفجیرہ اور راس الخیمہ کی چھ ریاستوں میں متعدد شخصیات اور دوستوں سے ملاقاتوں کے علاوہ مختلف دینی مراکز دیکھنے کا موقع ملا جن میں سے چند ایک کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہاں مساجد اور درسگاہوں کا نظام سرکاری تحویل میں ہے جو محکمہ اوقاف کے زیراہتمام چلتا ہے لیکن مخیر شخصیات محکمہ اوقاف کی اجازت سے خود بھی مساجد و مدارس قائم کر سکتی ہیں اور اس قسم کے کئی مدارس دینی تعلیم و تدریس میں مصروف ہیں۔

دوبئی میں بڑے قبرستان کے قریب سوناپور کے علاقہ میں ایک صاحب خیر الشیخ حسن راشد عبار نے مسجد العبار تیار کی ہے جس کے ساتھ مدرسہ بلال بن رباحؒ کے نام سے دینی درسگاہ قائم ہے۔ اس درسگاہ کے منتظم بھارت سے تعلق رکھنے والے مولانا مفتی محمد فاروق ندوی ہیں جبکہ شام کے الشیخ محی الدین محمد سالم ان کے نائب ہیں۔ اس درسگاہ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور طالبات دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مدرسہ کے نصاب میں قرآن کریم حفظ و ناظرہ کے ساتھ ساتھ عربی زبان، حدیث و فقہ اور حساب وغیرہ کے مضامین شامل ہیں۔

اسی طرح دوبئی میں مدرسہ مصعب بن عمیرؓ ہے جو پاکستانی تاجروں نے باہمی تعاون سے قائم کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ تین شاخیں کام کر رہی ہیں۔ ان مدارس میں پاکستانی بچے قرآن کریم حفظ کرتے ہیں اور انہیں دیگر دینی ضروریات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ شارجہ میں مسجد الکویتی کے ساتھ ایک دینی درسگاہ ہے جہاں سینکڑوں بچے اور بچیاں قرآن کریم حفظ و ناظرہ اور ضروریات دین کی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ مگر مجھے سب سے زیادہ خوشی ’’مرکز جمعۃ الماجد للثقافۃ والتراث‘‘ میں جا کر ہوئی جو دوبئی کے علاقہ ’’ہور الغز‘‘ میں ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست مولانا مفتی عبد الرحمان وہیں کام کرتے ہیں اور انہی کے ساتھ اس مرکز میں حاضری ہوئی۔ مرکز جمعۃ الماجد کے بارے میں پہلے بھی سن رکھا تھا اور میرا خیال تھا کہ کوئی رسمی اور روایتی قسم کا ادارہ ہوگا مگر اپنی واپسی سے ایک روز قبل وہاں گیا تو ادارہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی اور اپنے دیر سے آنے اور دوبئی میں مزید نہ رک سکنے پر افسوس ہوا۔ مجھے چار پانچ روز پہلے وہاں جانے کا موقع مل جاتا تو اس ادارے کے بارے میں زیادہ تفصیلی معلومات جمع کرتا اور استفادہ کے زیادہ مواقع مل جاتے۔ مگر مرکز دیکھنے کے بعد اس کی حسرت ہی دل میں رہ گئی۔

الشیخ جمعۃ الماجد متحدہ عرب امارات کے بڑے تاجروں میں سے ہیں جن کا کاروبار مختلف شعبوں میں پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور انہوں نے دوبئی میں اپنے تجارتی ہیڈکوارٹر کے ساتھ ایک بڑی بلڈنگ میں ثقافتی اور علمی ورثہ کی حفاظت و ترویج کے لیے یہ مرکز ۱۹۸۷ء سے شروع کر رکھا ہے۔ وہ خود اس علمی مرکز کے سربراہ ہیں جبکہ ان کے ساتھ امارات یونیورسٹی العین کے پروفیسر ڈاکٹر نجیب عبد الوہاب سیکرٹری جنرل کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور عراق سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جاسم محمد جرجیس ان کے نائب ہیں۔ ان دونوں حضرات سے میری ملاقات اس مرکز میں ہوئی اور مختلف امور پر گفت و شنید کا موقع بھی ملا۔

مرکز جمعۃ الماجد میں ایک بہت بڑی لائبریری کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں مختلف علوم و فنون پر تین لاکھ سے زیادہ کتابیں جمع کی جا چکی ہیں اور کتابوں کے حصول کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کتابوں کی حفاظت اور ترتیب کے لیے مستقل عملہ کام کر رہا ہے اور انہیں دو الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ استفادہ اور تحقیق کا ذوق رکھنے والوں کی سہولت کے لیے موضوعات کے مطابق ضروری کتابوں کا ایک ذخیرہ ایک منزل میں ترتیب دیا گیا ہے جہاں مطالعہ و تحقیق کرنے والوں کو استفادہ کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، جبکہ کتابوں کا بڑا ذخیرہ ایک الگ مقام پر بہت بڑے ہال میں ترتیب کے ساتھ الماریوں میں لگایا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ان ممتاز اصحاب علم کی ذاتی لائبریریاں بھی الگ الگ الماریوں میں ان کے ناموں کے ساتھ موجود ہیں جو ان اصحاب علم کی وفات کے بعد مرکز جمعۃ الماجد نے ان کے ورثاء سے خریدی ہیں۔ انہی میں سے ایک الماری پر شام کے بزرگ عالم دین الشیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ کا نام نظر سے گزرا تو اسے تفصیل سے دیکھنے کی خواہش ہوئی مگر وقت کم ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔

الاستاذ ابوغدہؒ ماضی قریب میں عرب دنیا کے سب سے بڑے حنفی عالم تھے۔ وہ میرے استاذ حدیث ہیں، اخوان المسلمون کے شام کے سربراہ تھے، حافظ الاسد کے دور میں ریاستی جبر کا شکار ہونے والے سرکردہ سنی علماء میں سے تھے، ان کی وفات جلاوطنی کے عالم میں ریاض (سعودی عرب) میں گزشتہ برس ہوئی اور مجھے ریاض اور لندن میں ان کی زیارت اور ان سے استفادہ کی سعادت حاصل ہوئی۔

مرکز جمعۃ الماجد میں نادر و نایاب مخطوطات جمع کرنے اور ان کی حفاظت کا بھی اہتمام ہے۔ اب تک چھ ہزار کے لگ بھگ اصل مخطوطات حاصل کیے گئے ہیں جبکہ جن مخطوطات کی فوٹو کاپی مہیا کی گئی ہے ان کی تعداد دس ہزار اور مائیکروفلم کے ذریعے حاصل کیے جانے والے مخطوطات کی تعداد پچاس ہزار بیان کی جاتی ہے۔ مخطوطات کی حفاظت اور ترتیب اور علاج وغیرہ کے لیے ماہرین کی مستقل ٹیم موجود ہے جبکہ مرکز میں کام کرنے والے عملہ کی تعداد ایک سو افراد سے زائد ہے جن میں ایک بڑی تعداد مختلف علوم و فنون کے ماہرین اور متخصصین کی ہے۔

مرکز کے ساتھ ایک کالج ’’کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ‘‘ کے نام سے قائم ہے جہاں تین ہزار سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کالج کی خصوصیت یہ ہے کہ صبح کے اوقات میں دیگر کالجوں کی طرح معمول کی کلاسیں ہوتی ہیں مگر شام کے اوقات میں کم آمدنی والے لوگوں کے لیے واجبی فیس کے ساتھ یا بلافیس تعلیم کا اہتمام ہے جس میں سے اکثر کو آمد و رفت کی سہولت بھی کالج کی طرف سے مفت فراہم کی جاتی ہے۔ کالج میں بی اے تک تعلیم ہوتی ہے جسے اب ایم اے تک بڑھایا جا رہا ہے اور پی ایچ ڈی کا شعبہ شروع کرنے کا بھی پروگرام ہے۔

مرکز جمعۃ الماجد کے علاوہ الشیخ جمعۃ الماجد نے ’’جمعیۃ بیت الخیر‘‘ کے نام سے ایک رفاہی ادارہ قائم کر رکھا ہے جس کے تحت بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کو وظائف دیے جاتے ہیں اور ان کی کفالت کی جاتی ہے۔

مرکز کی طرف سے دیگر علمی مطبوعات کے علاوہ عربی زبان میں ایک ضخیم سہ ماہی علمی مجلہ ’’آفاق الثقافۃ والتراث‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے جس کا جنوری تا مارچ ۲۰۰۱ء کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے۔ آرٹ پیپر پر پونے دو سو سے زائد صفحات کا یہ خوبصورت مجلہ ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ وقیع علمی مواد پر مشتمل ہے۔ ادارتی تحریر کے بعد اسکا پہلا مقالہ ’’فقہی ورثہ جمود اور ارتقاء کے درمیان‘‘ کے عنوان پر الجزائر کے الاستاذ محمد ربارؒ کا تحریر کردہ ہے۔ اور دوسرا مقالہ طرابلس لیبیا کے دعوت اسلامی کالج کے استاذ الصدیق بشیر بن نصر کی کاوش کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے جرمن دانشور ودکریمز کی کتاب ’’تاریخ الشرق الثقافی تحت حکم الخلافۃ‘‘ پر ناقدانہ تبصرہ کیا ہے اور ان کی علمی و واقعاتی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے ساتھ اس نوعیت کے آٹھ علمی اور تاریخی مرکزی مقالات کے علاوہ طب و علاج اور صنعت پر بھی تین اہم مقالے شامل ہیں جن سے مجلہ اور اسے شائع کرنے والے مرکز کی اعلیٰ علمی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔

الشیخ جمعۃ الماجد سے میری ملاقات نہیں ہو سکی مگر ان کی علمی سرگرمیاں دیکھ کر اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کر کے خوشگوار حیرت ہوئی کہ آج کے دور میں بھی ایسے اصحاب خیر موجود ہیں جو علم اور اہل علم کے ساتھ اس درجہ کی دوستی رکھتے ہیں اور جنہوں نے ملت کے ثقافتی و علمی ورثہ کے تحفظ و ترویج کے لیے اپنے بیشتر وسائل وقف کر رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو شرف قبولیت سے نوازیں اور دیگر اصحاب خیر کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter