حضرت حاجی عبد الوہابؒ کی وفات کا صدمہ دنیا بھر میں محسوس کیا گیا اور اصحاب خیر و برکت میں سے ایک اور بزرگ ہم سے رخصت ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حاجی صاحب محترم دعوت و تبلیغ کی محنت کے سینئر ترین بزرگ تھے جنہوں نے حضرت مولانا محمد الیاس دہلویؒ، حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ جیسے بزرگوں کی معیت و رفاقت کی سعادت حاصل کی اور زندگی بھر اسی کام میں مصروف رہے۔ وہ حقیقی معنوں میں فنا فی التبلیغ تھے اور دعوت و تبلیغ کے تقاضوں، نزاکتوں اور اتار چڑھاؤ کو نہ صرف بخوبی سمجھتے تھے بلکہ کئی مشکل مراحل میں ان کی راہنمائی اور دعائیں مشکلات کے حل میں بروقت کام آ جاتی تھیں۔ دین یا دنیا کا کوئی کام اس قدر وسعت اور قبولیت حاصل کر لے تو اسی حساب سے مشکلات اور الجھنوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جو کہ فطری بات ہے، البتہ حضرت حاجی صاحبؒ کی موجودگی ہمارے جیسے کارکنوں کے لیے اطمینان کا باعث ہوتی تھی کہ بات ایک حد سے آگے نہیں بڑھ پائے گی۔
حضرت عمر فاروقؓ نے ایک بار حضرت حذیفہ بن الیمانؓ سے پوچھا تھا کہ امت میں رونما ہونے والے اجتماعی فتنوں کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو تو ہمیں بھی بتاؤ۔ حضرت حذیفہؓ نے بے ساختہ جواب دیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے ایسے کسی فتنہ کا ہمیں ڈر نہیں ہے۔ مجھے آج کے حالات کے تناظر میں حضرت عمرؓ کے خلوص و دبدبہ کے اس پہلو کی ایک جھلک حضرت حاجی عبد الوہابؒ میں دکھائی دیتی تھی اس لیے جب حاجی صاحبؒ کی وفات کی خبر سنی تو جو دعائیں زبان پر جاری ہوئیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بڑوں کے فوت ہو جانے پر جماعتوں، حلقوں اور اداروں میں جو مسائل کھڑے ہو جایا کرتے ہیں اللہ تعالٰی دعوت و تبلیغ کے اس عالمگیر عمل و محنت کو ان سے محفوظ رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
میری ایک عرصہ سے حاجی صاحبؒ سے نیازمندی تھی اور ہمیشہ ان کی شفقتوں اور دعاؤں سے مستفید ہوتا تھا، اس کی ایک وجہ تو والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ ان کی عقیدت و محبت تھی جس کا مختلف مواقع پر عملی اظہار میں نے دیکھا ہے، ان کی وجہ سے مجھے بھی محبت سے نوازتے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ہمارے مخدوم حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کا شمار بھی جماعت کے بزرگوں میں ہوتا تھا اور مجھے ایک عشرہ سے زیادہ عرصہ تک مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ان کی خدمت کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ حاجی صاحب محترم کے ساتھیوں اور دوستوں میں سے تھے اور ان کے درمیان تعلق و محبت کے کئی مراحل کا میں شاہد ہوں۔
میرا ایک عرصہ سے تبلیغی جماعت کے ساتھ سال کے دوران ایک سہ روزہ لگانے کا معمول ہے اور یاد پڑتا ہے کہ شاید پہلا سہ روزہ میں نے ۱۹۶۳ء کے دوران گکھڑ کے قریب گاؤں کوٹ نورا میں لگایا تھا۔ ایک مرتبہ سہ روزہ کی تشکیل کے لیے رائے ونڈ حاضری ہوئی تو حضرت حاجی صاحبؒ نے ملاقات پر بے حد خوشی کا اظہار فرمایا اور جماعتی ساتھیوں سے کہا کہ اسے سہ روزہ کے لیے مرکز میں رکھو چنانچہ میں نے وہ دو تین روز مرکز میں ہی گزارے۔ کچھ عرصہ قبل گوجرانوالہ کے تبلیغی مرکز کی مسجد کے سنگ بنیاد کے لیے تشریف لائے تو میں بھی حاضر تھا، بہت خوش ہوئے اور دعاؤں سے نوازا۔ حاجی صاحب محترمؒ خود تو دعوت و تبلیغ ہی کے لیے وقف تھے اور ان کا ایک ایک لمحہ اسی کے لیے گزرتا تھا مگر ملک کی عمومی دینی صورتحال پر ان کی گہری نظر ہوتی تھی، وہ حالات کے اتار چڑھاؤ اور دینی جدوجہد کی ضروریات سے آگاہ رہتے تھے اور مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ دینی مدارس کی حوصلہ افزائی اور علماء کرام کی قدردانی کا خاص ذوق رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاً اس سلسلہ میں ساتھیوں کو ہدایات دیتے رہتے تھے۔
یہ اللہ تعالٰی کی بے نیازی اور حکمت کا ایک پہلو ہے کہ جس روز رائے ونڈ میں حضرت حاجی عبد الوہابؒ کے جنازہ اور تدفین کی تیاری ہو رہی تھی اسی روز ہمارے ایک ساتھی مولانا عبد الوہاب کا واہنڈو میں نکاح تھا۔ ان کے والد محترم بتاتے ہیں کہ وہ اپنی شادی سے قبل ہی تبلیغ سے وابستہ ہوگئے تھے جس کی برکت سے نہ صرف ان کا خاندان بلکہ رشتہ داروں کا پورا ماحول دینی اعمال کے دائرہ میں آگیا۔ انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کے نام پر اور دوسرے بیٹے کا نام حاجی عبد الوہابؒ کے نام پر رکھا، جبکہ آٹھ بیٹوں کو دین کی تعلیم دلائی۔ مولوی عبد الوہاب جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل اور الشریعہ اکادمی میں درس نظامی کے استاذ ہیں، ان کا نکاح واہنڈو میں والد گرامیؒ کے ایک مرید خاص بھائی سردار صاحب کی بیٹی سے ہوا اور برادر عزیز مولانا عبد الحق خان بشیر نے نکاح پڑھایا۔ میں آج اس عجیب اتفاق کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ حضرت حاجی عبد الوہابؒ تو رات ہم سے رخصت ہوگئے مگر ان کے نام پر جس بچے کا نام رکھا گیا اور انہی کی دعوت و تلقین کے باعث جسے عالم دین بنایا گیا وہ عبد الوہاب آج نئی زندگی کا آغاز کر رہا ہے۔ اللہ تعالٰی حضرت حاجی صاحبؒ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام سے نوازیں اور دعوت و تبلیغ کی عالمی محنت کو ان کے خلوص اور راہنمائی کے دائرے میں مسلسل ترقیات و ثمرات عطا فرمائیں، آمین ثم آمین۔