ہماری خواہش تھی کہ طالبان حکومت کے سربراہ ملا محمد ربانی سے ملاقات ہو جائے مگر جب ان کے سیکرٹریٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ علالت کی وجہ سے ملاقاتوں سے حتی الوسع گریز کرتے ہیں اور ان کی ایک دو روز کی مصروفیات پہلے سے طے شدہ ہیں اس لیے فوری طور پر ملاقات مشکل ہوگی۔ دوسری طرف ہماری مجبوری یہ تھی کہ ایک دو روز سے زیادہ کابل میں قیام کی ہمارے پاس گنجائش نہیں تھی، اور ہم نے کابل پہنچنے سے قبل کابل حکومت کو کوئی پیشگی اطلاع بھی نہیں دی تھی اس لیے زیادہ زور نہیں دے سکتے تھے۔
البتہ نائب صدر ملا محمد حسن صاحب نے ہمیں چودہ اگست کو گیارہ بجے کا وقت مرحمت فرما دیا اور ان سے تفصیلی ملاقات اور گفت و شنید کا موقع مل گیا۔ میری ان سے پہلی ملاقات تھی، سابقہ تعارف نہیں تھا، اس کے باوجود انہوں نے جس خوش دلی اور بے تکلفی سے ہمارے ساتھ بات چیت کی اس سے ہمارے گروپ کے شرکاء بہت متاثر ہوئے۔ مزاج میں سادگی ہے، دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی سوال کا جواب تشنہ نہ رہے۔ اس لیے جب سوال و جواب کا سلسلہ زیادہ طویل ہونے لگا تو انہوں نے گھڑی کی طرف دیکھا اور ہم گفتگو کا دائرہ سمیٹتے ہوئے ان سے اجازت کے طلبگار ہوئے۔
انہوں نے افغانستان کی عمومی صورتحال پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہم اس وقت آزمائش اور امتحان کے مرحلہ میں ہیں۔ ایک طرف شمال کی جنگ نے ہمیں ہمہ تن متوجہ کر رکھا ہے، دوسری طرف بین الاقوامی پابندیوں کے باعث مشکلات و مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، اور تیسری طرف مسلسل خشک سالی بھی ہمارے لیے آزمائش بنی ہوئی ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہمارے عزائم میں بحمد اللہ تعالیٰ کوئی کمزوری نہیں ہے اور ہم نے طے کر رکھا ہے کہ اسلام کی سربلندی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے پروگرام میں کوئی لچک نہیں آئے گی۔ اور جب تک ایک طالب بھی باقی ہے اسلامی نظام کے نفاذ کا پرچم سر بلند رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ہم عثمانی ایمپائر (خلافت عثمانیہ) کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں اور اپنے انقلاب کو درآمد کر کے دوسرے ممالک کے لیے مشکلات کا باعث بنیں گے۔ لیکن میں اس سلسلہ میں دو باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ اسلامی نظام کا نفاذ ہمارا واحد مقصد ہے، اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ہمارے سامنے آئیڈیل اور نمونہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ ہے۔ ہم اس کی پیروی کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی طرح کا اسلام نافذ کرنا چاہ رہے ہیں جس طرح کا اسلام صحابہ کرامؓ کے دور میں نافذ تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں اپنے ملک کی حدود میں کر رہے ہیں اور اپنے ملک کے عوام کی خواہشات کے مطابق کر رہے ہیں۔ ہمارا یہ عزم اور فیصلہ ہے کہ افغانستان کی حدود میں اسلام اور صرف اسلام کا نفاذ ہوگا لیکن ہم دوسرے کسی ملک کے معاملہ میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ہماری خواہش ضرور ہے کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک اپنے اپنے ممالک میں اسلام نافذ کریں اور اگر کوئی مسلم ملک اس مقصد کے لیے آگے بڑھتا ہے تو ہم اس سے بھی تعاون کریں گے۔ لیکن اپنی طرف سے کسی ملک پر انقلاب مسلط کرنے اور مسلم ملکوں کے معاملات میں مداخلت کا کوئی پروگرام ہم نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی کو ایسا خطرہ محسوس کرنا چاہیے۔
افغان نائب صدر ملا محمد حسن نے کہا کہ میں پاکستان کے علماء کرام، صحافیوں، اور دانشوروں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ افغانستان آئیں، یہاں کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں، ہمارے بارے میں عالمی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈہ کی حقیقت معلوم کریں، اور اس بے بنیاد پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے معاملات میں رہنمائی کے لیے بھی علماء کرام اور دانشوروں کی راہ دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اہل علم و دانش اپنا وقت فارغ کر کے تشریف لائیں اور ہمارے حالات، ضروریات، اور مشکلات کا جائزہ لے کر ہماری رہنمائی فرمائیں۔
وفد میں شامل ایک تاجر دوست کے سوال پر ملا محمد حسن نے کہا کہ پاکستان کے تاجر اور سرمایہ کار اگر افغانستان میں آکر سرمایہ کاری کرنا چاہیں تو تجارت اور صنعت دونوں میدانوں میں ہم ان کا خیرمقدم کریں گے۔ اور اپنے حالات کے دائرہ میں جو سہولت ہمارے بس میں ہوگی فراہم کریں گے لیکن کوئی آئے تو سہی۔ افغان نائب صدر نے یہ بات زبان سے تو نہیں کہی مگر ان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ شاید وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہمارے ساتھ زبانی جمع خرچ تو بہت ہوتا ہے مگر کوئی عملی کام کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ جبکہ ہم اس انتظار میں ہیں کہ پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کے اصحاب صنعت و تجارت اور ارباب خیر آگے آئیں اور افغانستان کی تعمیر نو میں تعاون کرتے ہوئے صنعت و تجارت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے علاوہ صحت، تعلیم، سڑکوں کی تعمیر، اور عوامی فلاح کے دیگر کاموں میں بھی طالبان کی اسلامی حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔
ہماری دوسری اہم ملاقات مولانا ارسلان رحمانی سے ہوئی جو پرانے علماء میں سے ہیں اور ایک دینی درسگاہ میں دینی علوم کی تعلیم دیتے ہوئے جہاد کے میدان میں آگئے۔ انہوں نے پکتیکا کے صوبے میں مجاہدین کی قیادت کی اور ارگون کی چھاؤنی فتح کرنے کی وجہ سے ’’فاتح ارگون‘‘ کہلاتے ہیں۔ وہ کسی بڑے منصب پر تو فائز نہیں ہیں لیکن طالبان حکومت کے دماغوں میں شمار ہوتے ہیں ا ور اہم معاملات میں ان کی مشاورت اور رہنمائی سے طالبان حکومت کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ وہ ان مجاہد علماء میں سے ہیں جو اپنی سنیارٹی کی پروا کیے بغیر طالبان حکومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور ایک کارکن اور خدمت گار کے طور پر اسلامی حکومت کی خدمات سر انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اور یہی بات ان کے خلوص اور قابلیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
مولانا ارسلان رحمانی کے ساتھ بھی میرا بہت پرانا تعلق ہے اور وہ جہاد کے ابتدائی دنوں میں گوجرانوالہ تشریف لا چکے ہیں۔ انہیں ہماری کابل حاضری کی پیشگی اطلاع نہیں تھی اس لیے جب ہم ان کے گھر پہنچے تو وہ خوش ہونے سے زیادہ پریشانی میں پڑ گئے۔ کیونکہ وہ اسی وقت ایک اہم مسئلہ کے لیے پکتیکا روانہ ہونے والے تھے اور اگر ہم سے تھوڑی سی مزید تاخیر ہو جاتی تو وہ کابل سے روانہ ہو چکے ہوتے اور ہماری ملاقات نہ ہو پاتی۔ وہ بار بار افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ آپ ایسے وقت میں آئے ہیں کہ میں ایک انتہائی ضروری سفر پر روانہ ہو رہا ہوں جبکہ میری خواہش تھی کہ آپ سے تفصیلی بات چیت ہو اور ہم مختلف امور پر اطمینان سے تبادلہ خیالات کریں۔
مولانا ارسلان رحمانی نے اس موقع پر چند باتیں کیں جن میں بطور خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ افغانوں نے اس سے قبل بھی امت کی رہنمائی کی ہے کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا تعلق کابل سے ہے، حدیث نبویؐ کی چھ بڑی کتابوں (صحاح ستہ) میں سے پانچ کے مصنفین کا تعلق بھی اسی علاقہ سے ہے، اور آج افغان پھر اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالہ سے امت کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے دنیائے اسلام بالخصوص پاکستان کے علماء کرام اور دینی حلقوں سے گزارش ہے کہ وہ اس عظیم اور مقدس مشن میں افغان علماء اور عوام کے ساتھی بنیں اور افغانستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں۔