اسلام آباد میں انسانی حقوق کا سہ روزہ

   
یکم دسمبر ۲۰۱۸ء

گزشتہ ہفتہ کے آخری تین دن اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ماحول میں گزرے، حافظ محمد حذیفہ خان سواتی اور مفتی محمد عثمان جتوئی ہمراہ تھے۔ ہم نے شریعہ اکادمی کے تحت منعقد ہونے والی تین روزہ ورکشاپ میں شرکت کی جو ’’حقوق انسانی کا قانون اور پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر منعقد ہوئی۔ جس کے لیے شریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اور ڈاکٹر حبیب الرحمان کا ذوق و محنت بڑا محرک تھا جبکہ معاونین میں مولانا محمد ادریس اور جناب اصغر شہزاد کی مساعی کارفرما تھیں۔ اسلام آباد اور دیگر شہروں سے علماء کرام اور اہل دانش کی خاصی تعداد شریک تھی جن میں بھیرہ سے مولانا مفتی شیر محمد خان اور کراچی سے ڈاکٹر اسحاق عالم بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

میری ایک عرصہ سے خواہش اور کوشش چلی آرہی ہے کہ امت مسلمہ اس وقت جن بین الاقوامی معاہدات کے حصار میں ہے اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمان ممالک اور معاشروں کو اسلام کے معاشرتی، قانونی، سیاسی، معاشی اور خاندانی احکام پر عملدرآمد میں رکاوٹوں کا سامنا ہے، ہمارے دینی و عصری تعلیمی اداروں کو اساتذہ و طلبہ کی ان معاہدات سے آگاہی کے ساتھ ان کے ’’مالہ و ما علیہ‘‘ سے واقفیت کا اہتمام کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں رائے عامہ کی راہنمائی کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ مجھے ذاتی طور پر جہاں موقع ملتا ہے گفتگو میں اسی کو اولیت دیتا ہوں، جبکہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ’’اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی چارٹر‘‘ کے حوالہ سے دورۂ حدیث کے طلبہ کو ہفتہ وار لیکچر کے ذریعے چارٹر کے تعارف اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ اس کے فرق و تضاد کے بارے میں روشناس کرانے کی کوشش کرتا ہوں، مگر ملک میں عمومی طور پر دینی و عصری جامعات کے ماحول میں اس کی ضرورت و اہمیت کا احساس دکھائی نہیں دے رہا۔

اس پس منظر میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی شریعہ اکادمی کا یہ پروگرام میرے لیے خوشخبری اور نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا اس لیے میں نے اپنے معمول کے خلاف مدرسہ میں دو دن چھٹی کر کے ورکشاپ میں حاضری دی اور بحمد اللہ تعالٰی پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی تمام نشستوں میں شریک رہا۔ کسی مبالغہ اور تکلف کے بغیر عرض کر رہا ہوں کہ مجھے اس سے بڑا فائدہ ہوا اور بہت سے ایسے گوشے اور پہلو سامنے آئے جن سے اس موضوع پر سالہا سال کے مطالعہ و تحقیق کے باوجود میں روشناس نہیں تھا، اور اس طرح ’’اطلبوا العلم من المہد الی اللحد‘‘ سے ’’لیطمئن قلبی‘‘ کی طرف پیشرفت کا خوشگوار احساس تازہ ہوا اور میں اس پر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اور ان کے رفقاء کا شکرگزار ہوں۔

ورکشاپ میں ’’بین الاقوامی معاہدات‘‘ کے مختلف زاویوں پر گفتگو کرنے والوں میں ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ڈاکٹر حبیب الرحمان، پروفیسر عبد الرؤف کھٹانہ، پروفیسر عطاء المصطفٰی، ڈاکٹر زاہد اقبال مغل، اور ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمان شامل تھے، جبکہ مولانا مفتی شیر محمد خان کی بزرگانہ سرپرستی اور دعائیں مسلسل شامل حال رہیں۔ دو نشستوں میں مجھے بھی کچھ عرض کرنے کے لیے کہا گیا، میں نے رواں تبصرہ کے طور پر چند گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ آخری سطور میں ذکر کروں گا۔

بین الاقوامی معاہدات میں سے (۱) انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ (۲) عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمہ کا معاہدہ (۳) سیاسی و شہری حقوق کے تحفظ کا معاہدہ (۴) بچوں کے حقوق کا معاہدہ (۵) جنگی قیدیوں کے حقوق اور ان سے متعلقہ امور کا معاہدہ (۶) اور اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کا بین الاقوامی معاہدہ بطور خاص زیر بحث آئے اور فاضل مقررین نے ان معاہدات کے پس منظر، دائرہ کار، اثرات و نتائج اور اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے تحفظات و خدشات پر تفصیلی روشنی ڈالی، اور ان معاہدات پر عملدرآمد کے طریق کار کے ساتھ ساتھ ان کی خلاف ورزی کی صورت میں مسلم ممالک اور حکومتوں کے خلاف کی جانے والی تادیبی کاروائیوں اور سرگرمیوں سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ ورکشاپ کے شرکاء کا عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ معاہدات عملاً بین الاقوامی قوانین کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان پر عملدرآمد کرانے والی اتھارٹی اور ادارے غیر اعلانیہ عالمی حکومت کا مقام حاصل کر چکے ہیں، جن کے نیٹ ورک اور میکنزم کے سامنے دنیا بھر کے مذاہب، علاقائی ثقافتیں، متنوع تہذیبیں اور ملکوں کے اپنے دستور و قانون کی عملی اور تنفیذی حیثیت بتدریج غیر مؤثر ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ اسلام ایک زندہ، فطری اور متحرک دین کے طور پر مزاحمت کر رہا ہے، اس لیے اسی کو عالمی اداروں اور قوتوں کی مخالفانہ بلکہ معاندانہ پالیسیوں اور سرگرمیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ تعلیم، ابلاغ اور ذہن سازی کے حوالہ سے دینی و عصری دونوں قسم کے مراکز کو اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا اور اپنے کردار کے تعین اور اس کی مؤثر ادائیگی کا اہتمام کرنا ہوگا۔

راقم الحروف نے اپنی گزارشات میں اس نکتہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، عرض کیا کہ اس کے چار بنیادی اسباب ہیں جنہیں سمجھنے اور اجاگر کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

  1. مغرب اور اس کی ہمنوا اقوام آسمانی تعلیمات اور مذہب کے معاشرتی کردار سے کلیتاً دستبردار ہوگئے ہیں جبکہ مسلمان اس کے لیے کسی صورت میں تیار نہیں ہیں۔
  2. مغرب کا موجودہ فلسفہ و نظام بادشاہ، جاگیردار اور چرچ کے مشترکہ دور حکمرانی میں پیدا ہونے والے انسانی، معاشرتی اور تہذیبی جبر کا ردعمل ہے۔ مغرب اس ردعمل کو ہم پر بھی بلاوجہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ امت مسلمہ کا اس پس منظر سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمارا ماضی اور پس منظر اس سے قطعی مختلف ہے اور ہم مغرب کے اس ردعمل کا حصہ بننے کے لیے کسی صورت میں تیار نہیں ہیں۔
  3. ان معاہدات کی تشکیل و ترتیب اور ان پر عملدرآمد کے نظم و طریق کار میں امت مسلمہ کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے اور ہماری شرکت و اتفاق کے بغیر کیے گئے یکطرفہ معاہدات ہم پر مسلط کیے جا رہے ہیں اور یہ طرز عمل قابل قبول نہیں ہے۔
  4. جبکہ امت مسلمہ کی رولنگ کلاس ان معاملات میں امت کی نمائندگی کرنے کی بجائے بالادست قوتوں کی حاشیہ بردار بن کر رہ گئی ہے اور انہی کے ایجنڈے کو مسلم معاشروں میں آگے بڑھانے کے لیے مصروف عمل ہے۔
   
2016ء سے
Flag Counter