مدرسہ نصرۃ العلوم میں اسباق مکمل ہونے کے بعد سالانہ امتحان تک دو اڑھائی ہفتے کا وقت مل جاتا ہے اور اس دوران ملک بھر سے احباب کے تقاضے بھگتانا ہوتے ہیں کیونکہ شعبان کے مہینے میں عام طور پر میں ملک میں نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس سال اس مدت میں جامعہ دارالعلوم کراچی، جامعہ انوار القرآن کراچی، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، جامعہ ابوہریرہ خالق باد نوشہرہ، جامعہ مدینۃ العلم فیصل آباد، جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد، جامعہ فاروقیہ شیخوپورہ، جامعہ مدنیہ بہاولپور، جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو، جامعہ خالدیہ شاد باغ لاہور، دارالعلوم تعلیم القرآن پلندری، مدرسہ انوار العلوم دھیرکوٹ آزاد کشمیر، جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر، جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد، جامعہ سعدیہ فیصل آباد، ادارہ النور فیصل آباد، جامعہ حفصہ ڈیرہ غازی خان، جامعہ عبد اللہ بن مسعود خانپور اور ان کے علاوہ تلہ گنگ، حضرو، خوشاب، گجرات، کوٹ عبد المالک، کالی صوبہ، کوٹ ہلال، بستی ملوک، رینالہ خورد، جڑانوالہ اور دیگر مقامات کے دینی مدارس میں حاضری اور مختلف تقریبات سے خطاب کا موقع ملا اور اس طرح تقریباً یہ تین ہفتے انتہائی مصروفیت میں گزرے۔ اسی وجہ سے قارئین کی خدمت میں کئی روز سے حاضری کا موقع نہیں ملا اور اب جبکہ وفاق المدارس العربیہ کے سالانہ امتحانات کی آمد آمد نے مدارس کی تقریبات میں کچھ ٹھہراؤ پیدا کیا ہے تو مجھے بھی تھوڑی سی فرصت ملی ہے اور قلم ہاتھ میں لینے کا موقع میسر آیا ہے۔
اس دوران زیادہ تر ختم بخاری شریف کی تقریبات ہوئیں جن میں طلبہ و طالبات دونوں کے حوالے سے گزارشات پیش کیں۔ وفاق المدارس کے نصاب کے مطابق طلبہ تو بخاری شریف مکمل پڑھتے ہیں اور ان کی آخری حدیث بخاری شریف کی آخری روایت ہوتی ہے، لیکن طالبات کے نصاب میں مکمل بخاری شریف شامل نہیں ہے بلکہ ان کا نصاب کتاب النکاح پر مکمل ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان کے سامنے کتاب النکاح کی آخری روایت کے حوالہ سے گفتگو کرنا ہوتی ہے۔ طالبات کے پروگراموں میں عام طور پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میری تعلیمی سندِ حدیث والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے حوالہ سے ہے جو شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد ہیں، مگر طالبات کے سامنے بخاری شریف کی روایت میں ایک اور سند کے حوالہ سے پڑھتا ہوں جس میں واسطے کم ہیں اور ایک عظیم محدثہ خاتون بھی اس سند میں شامل ہیں۔ اس سند کے مطابق مجھے مکہ مکرمہ کے ایک معروف شافعی محدث الشیخ ابوالفیض محمد یاسین الفادانیؒ سے مشافہتًا روایت حدیث کی اجازت حاصل ہے اور انہیں الشیخہ امۃ اللہ محدثہ دہلویہؒ سے روایت حدیث کی اجازت حاصل تھی جو معروف محدث شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کی دختر ہیں اور اپنے والد محترم سے احادیث نبویہ روایت کرتی ہیں۔
کتاب النکاح کے آخر میں امام بخاری نے ایک تفصیلی روایت کا کچھ حصہ ذکر کیا ہے جو غزوۂ مریسیع کے اس معروف واقعہ سے متعلق ہے جس میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو گیا تھا اور ہار کی تلاش میں خاصا وقت گزر جانے پر پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے قافلہ والوں کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس موقع پر تیمم کی آیات نازل ہوئی تھیں جنہیں صحابہ کرامؓ نے خاندانِ صدیق اکبرؓ کی برکات میں شمار کیا ہے۔ اس واقعہ کا ایک حصہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہیں اس لیے وہ باپ کی حیثیت سے انہیں سمجھائیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ جب حضرت عائشہ کو سمجھانے کے لیے ان کے کجاوے تک گئے تو کجاوے کے اندر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کی گود میں سر رکھے آرام فرما رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اسی حالت میں حضرت عائشہؓ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور کچھ مکے بھی رسید کیے مگر حضرت عائشہؓ صرف اس لیے حرکت نہیں کر رہی تھیں کہ اس سے آنحضرتؐ کی نیند میں خلل آئے گا۔ اس تفصیلی واقعہ کا صرف اتنا حصہ امام بخاریؒ نے کتاب النکاح کی آخری حدیث کے طور پر ذکر کیا ہے جس کا بظاہر نکاح سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر امام بخاریؒ اس کے ذریعے یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ لڑکی کا نکاح ہو جانے اور اس کے اپنے گھر بار والی ہو جانے کے بعد بھی والدین سے اس کا تعلق ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے بعد بھی ماں باپ اسے ڈانٹ ڈپٹ سکتے ہیں اور اس کے معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کے ایک معاملہ میں لوگوں کو شکایت پیدا ہوئی تو وہ شکایت ان کے والد محترم کے سامنے رکھی گئی اور حضرت ابوبکرؓ نے اس پر حضرت عائشہؓ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور مکے بھی مارے حالانکہ وہ ام المؤمنین تھیں اور اپنے گھر بار والی تھیں۔
یہ بات آج کے عالمی تناظر میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے، اس لیے کہ آج کا مغربی فلسفہ و کلچر جو خود کو دنیا کے واحد عالمی کلچر کے طور پر پیش کر رہا ہے اور بہت سے مسلم ممالک کے معاشرے بھی اس کی پیروی میں مسلسل پیشرفت کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ لڑکا لڑکی جب بالغ ہو جائیں تو اس کے بعد ماں باپ کا ان پر کوئی حق باقی نہیں رہ جاتا، وہ اپنے ہر فیصلے میں آزاد ہیں اور ان کے کسی بھی معاملہ میں ماں باپ کو مداخلت، روک ٹوک یا ڈانٹ ڈپٹ کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ جبکہ امام بخاری یہ واقعہ پیش کر کے بتا رہے ہیں کہ شادی ہو جانے کے بعد بھی ماں باپ کا یہ حق باقی رہتا ہے۔
ہمارے ہاں آج کل عام طور پر عدالتیں اسی نوعیت کے فیصلے کر رہی ہیں کہ لڑکا لڑکی بالغ ہوجانے کے بعد ماں باپ کا کوئی حق باقی نہیں رہ جاتا۔ حتٰی کہ اگر کوئی لڑکی گھر سے بھاگ جاتی ہے یا کسی لڑکے کے ساتھ نکل جاتی ہے اور پھر ماں باپ کے عدالت سے رجوع کرنے پر وہ اپنا نکاح نامہ پیش کر دیتے ہیں تو عدالت ماں باپ کی شکایت کو کسی درجہ میں درخوراعتنا سمجھے بغیر انہیں خالی ہاتھ بھیج دیتی ہے۔ یہ مغربی ثقافت کی پیروی کی ہی ایک صورت ہے مگر ایسا کرتے ہوئے ہم یہ بات بالکل بھول جاتے ہیں کہ مغرب میں بے شک لڑکا لڑکی بالغ ہوجانے کے بعد خودمختار ہو جاتے ہیں اور ان پر ماں باپ کا کوئی حق باقی نہیں رہتا لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی امر واقعہ ہے کہ اس کے بعد ماں باپ کی کوئی ذمہ داری بھی باقی نہیں رہ جاتی۔ مثلاً لڑکی بالغ ہوگئی ہے تو اب وہ اپنے اخراجات کی خود ذمہ دار ہے، اپنی شادی کا بندوبست وہ خود کرے گی، اگر خاوند کے ساتھ نہیں رہ سکی تو متبادل انتظام خود اس کی اپنی ذمہ داری ہے، وہ شادی کرے یا نہ کرے، ایک جگہ سے اجڑے یا دس جگہ سے اجڑے، ماں باپ کا کوئی درد سر نہیں ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی اور شرعی طور پر بھی صورتحال یہ ہے کہ لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد اپنے گھر بار والی ہوجانے تک اس کے تمام اخراجات باپ کے ذمے ہیں، اس کی شادی کا انتظام اور اس کے تمام اخراجات باپ کی ذمہ داری ہے، بلکہ ہمارے معاشرے میں تو باپ اسے بہت کچھ دے دلا کر رخصت کرتا ہے۔ شادی کے بعد وہ اگر اپنے خاوند کے ساتھ نہیں رہ سکی، طلاق ہوگئی ہے، بیوہ ہوگئی ہے یا ناچاقی ہوگئی ہے تو اس لڑکی کو باپ سنبھالے گا یا بھائی سنبھالیں گے جس کے لیے شریعت نے درجہ بدرجہ باقاعدہ قوانین و ضوابط بیان کیے ہیں اور فقہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
دراصل مغرب نے شادی کو ایک فرد کا دوسرے فرد کے ساتھ معاملہ قرار دے رکھا ہے اور اس کا تصور یہ ہے کہ دو افراد باہمی ضرورت پوری کرنے کے لیے آپس میں سوشل کنٹریکٹ کر رہے ہیں جس میں کسی تیسرے فرد کو مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ مگر اسلام نے شادی کو دو افراد کے ساتھ ساتھ دو خاندانوں کا معاملہ بھی قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں واضح حکم دیا گیا ہے کہ اگر میاں بیوی میں اختلاف پیدا ہو جائے اور اس کے بڑھ جانے کی صورت میں باہمی مصالحت نہ ہو رہی ہو تو دونوں خاندانوں کا ایک ایک شخص لے کر دونوں کو حکَم بنایا جائے گا جو ان کے درمیان معاملات طے کرائیں گے۔ اسی طرح اسلام میں لڑکی کے بالغ ہوجانے کے بعد بلکہ شادی ہو جانے کے بعد بھی اس کے ماں باپ اور خاندان کا تعلق اور ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ باقی رہتی ہے۔ اور جب ان کی ذمہ داری باقی رہتی ہے تو لازمی بات ہے کہ اسی حساب سے حق بھی باقی رہتا ہے۔
اس پس منظر میں امام بخاریؒ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرف سے حضرت عائشہؓ کو ڈانٹ ڈپٹ کے معاملہ کو کتاب النکاح کا حصہ بنایا ہے اور اس پر عنوان یہ قائم کیا ہے کہ ’’طعن الرجل ابنتہ فی الخاصرۃ عند العتاب‘‘ اگر باپ کسی وجہ سے بیٹی پر ناراض ہو تو ناراضگی کا اظہار کرتے وقت وہ اسے پہلو میں مکے بھی مار سکتا ہے۔ اب اس بات کے ثبوت کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عائشہؓ سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ روایت امام بخاریؒ نے متعدد مقامات پر الگ الگ عنوانات کے ساتھ ذکر کی ہے اور اس سے مختلف مسائل مستنبط کیے ہیں۔ مثلاً اسے حضرت صدیق اکبرؓ کے خاندان کی فضیلت میں بیان کیا ہے، کتاب التفسیر میں آیت تیمم کے شان نزول کے طور پر ذکر کیا ہے، اور حدود و تعزیرات کے ساتھ ’’تادیب‘‘ کے درجہ کے ثبوت میں بھی یہ روایت پیش کی ہے۔
اسلام کے نظامِ قانون میں سزاؤں کے تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ حدود کا ہے کہ قرآن و سنت میں بعض جرائم کی سزائیں طے شدہ ہیں جن میں کمی بیشی اور ترمیم نہیں ہو سکتی۔ دوسرا درجہ تعزیرات کا ہے کہ بہت سے جرائم میں سزا کا تعین اور اس میں ردوبدل کا حکومت اور عدالت کو حق حاصل ہے۔ مگر یہ دونوں قسم کی سزائیں صرف باقاعدہ عدالت ہی دے سکتی ہے۔ جبکہ تیسرا درجہ تادیب کا ہے کہ باپ اپنی اولاد کو، خاوند اپنی بیوی کو، استاذ اپنے شاگرد کو، یا مالک اپنے غلام کو تعزیر سے کم درجہ کے جرم میں ہلکی پھلکی سزا خود بھی دے سکتا ہے۔ مغرب کا فلسفہ سزا کے اس درجے کا انکار کرتا ہے مگر اسلام میں سزا کا یہ درجہ موجود ہے اور اس کے لیے شریعت اسلامیہ میں باقاعدہ احکام و قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ اس لیے بچیوں کو نکاح کے بارے میں یہ روایت پڑھتے ہوئے ساری باتیں ذہن نشین کر لینی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان گزارشات پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔