چودہ اگست کو اہل پاکستان نے اور پندرہ اگست کو انڈیا کے باشندوں نے یوم آزادی منایا کہ اس دن انہیں فرنگی استعمار سے آزادی ملی تھی۔ مگر اسی خطہ کے دو کونوں کے لاکھوں عوام ابھی آزادی کو ترس رہے ہیں اور اس کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ کشمیر کے باشندوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا جو ابھی تک تشنۂ تکمیل ہے۔ جبکہ اراکان (برما) کے باشندوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انہیں بھی پاکستان کا حصہ بنایا جائے اور اس کے بعد سے وہ مسلسل اس معصوم خواہش کی سزا بھگت رہے ہیں۔ جموں و کشمیر اور اراکان دونوں خطوں کے مظلوم مسلمان ظلم و جبر کی چکی میں پس رہے ہیں اور ’’یوم آزادی‘‘ منانے والوں سے ان کا سوال ہے کہ ہماری آزادی کا فیصلہ کب ہوگا اور ہم کب جبر و تشدد کے ماحول سے آزاد ہو کر آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے؟ اس پس منظر میں اراکانی مسلمانوں کی داستانِ غم اور اپیل ان کے ایک نمائندہ مولانا عبد القدوس برمی (فون ۰۳۲۱۲۲۶۸۰۹۴) کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے۔
’’چھتیس ہزار مربع پر مشتمل خطہ ارکان ۱۷۸۴ء تک ایک آزاد اسلامی ملک تھا جس پر برمی راجہ بود و پھیہ نے قبضہ کیا اور اسے برما (میانمار) میں ضم کر دیا، جو کہ اب برما کے سات صوبوں میں سے ایک اہم صوبہ ہے جہاں ستر فیصد مسلمان آباد ہیں۔ چونکہ یہ ایک اسلامی ملک تھا اور اکثریت مسلمانوں کی ہے اس لیے برمی حکومت نے شروع دن سے ہی یہاں کے مسلمانوں کو مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرنے، ان کا قتل عام اور نسل کشی کرنے، ان پر ظلم و ستم ڈھانے اور ان کو ملک سے بے دخل کرنے کی مذموم کوشش شروع کر رکھی ہے۔ نہ جانے اس دوران ان اراکانی مسلمانوں نے کتنی دفعہ پڑوسی ملک کی طرف ہجرت کی اور کتنے شہید ہوئے۔
صرف ۱۹۹۱ء میں پانچ لاکھ اراکانی مسلمانوں نے بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی جن میں سے اب بھی تین لاکھ روہنگیا اراکانی مہاجرین محسنی کیمپ اور کتوپلنگ کیمپ وغیرہ میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ۳ جون ۲۰۱۲ء میں برمی حکومت نے پھر روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا جو تاحال وقتاً فوقتاً اندرونی طور پر جاری ہے۔ اس دوران کم و بیش ایک لاکھ اراکانی مسلمان شہید ہوئے، تین لاکھ بے گھر ہوئے اور پندرہ لاکھ اراکانی مسلمان متاثر ہوئے۔ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم و محبوس لاکھوں روہنگیا مہاجرین اور اندرون اراکان موجودہ روہنگیا مسلمان کیسی غلامانہ و مظلومانہ زندگی گزار رہے ہیں، اس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔
اس لیے بعض مبصرین نے لکھا ہے کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ستائی ہوئی قوم اراکانی روہنگیا مسلمان ہیں۔ اراکانی مسلمانوں کی یہ سلگتی بستیاں، کٹتی لاشیں، مسلم عورتوں کی لٹتی عزتیں، انگاروں پر تڑپتے شیر خوار بچوں کے نازک جسم، نوجوانوں کو چن چن کر مارنے کے ہولناک طریقے، بے یار و مددگار بیچ سمندر میں پڑے مسلمان جن کی صدائیں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے نام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آزادی جیسی نعمت سے نوازا۔
لہٰذا (اس صورت حال میں تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ) عید الاضحیٰ کے مبارک موقع پر ان مظلوم اراکانی مسلمانوں کو یاد رکھیں اور اراکانی مسلمانوں کے کیمپوں اور اندرون اراکان کے متاثرین کے لیے اپنی قربانی کے حصے بھیجیں تاکہ انہیں بھی بھوک و افلاس کی بدترین گھڑیوں میں کچھ گوشت کھانے کو مل سکے۔ ان مظلوم و مقہور مسلمانوں اور مہاجرین کی ہر ممکن مدد کریں۔ جمعیۃ خالد بن ولید الخیریہ اراکان گزشتہ انتیس سال سے اکابر و مستند علماء و مشائخ کی نگرانی میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ ان مظلوم اراکان مہاجرین کو گوشت کھانا تو دور کی بات ہے انہیں تو پیٹ بھر کر کھانا بھی میسر نہیں۔ آپ سے پرزور اپیل ہے کہ حسب سابق اس سال بھی بکرے، گائے اور قربانی کے حصے خالد بن ولید الخیریہ کے توسط سے وہاں بھیج کر ان مظلوم مسلمانوں کو بھی میزبانی رحمان میں شریک کریں۔ امید ہے کہ آپ اس اجتماعی قربانی (وقف) میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور ان بے یار و مددگار اراکانی مہاجرین و متاثرین کو ضیافت ربانی اور عید کی خوشی میں شامل کریں گے اور قربانی سمیت ہر ممکن تعاون کر کے ان کی حوصلہ افزائی کریں گے، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔‘‘