حضرت سید علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخشؒ کے مزار پر گزشتہ جمعرات کو ہونے والے دہشت گردی کے وحشیانہ واقعہ پر ملک بھر میں بلکہ عالمی سطح پر جس صدمے اور غم و غصے کا مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے وہ نہ صرف یہ کہ بجا ہے بلکہ اس سطح اور توقع سے بہت کم ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس قسم کے افسوسناک واقعات اس تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں کہ کسی بھی سانحہ کو ان واقعات کے مجموعی تناظر سے الگ کر کے اس کی اپنی اہمیت و سنگینی کے حوالے سے دیکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ حضرت سید علی ہجویریؒ امت مسلمہ بالخصوص جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے ان عظیم محسنین میں سے ہیں جن کی برکت سے یہ خطہ دائرۂ اسلام میں شامل ہوا اور ہم آج اسلام کا کلمہ پڑھتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اسلام تین راستوں سے داخل ہوا:
- سندھ میں محمد بن قاسم کی فاتحانہ یلغار،
- افغانستان کی جانب سے پٹھانوں اور مغلوں کی پیش قدمی،
- اور جنوبی ہند میں عرب تاجروں کی آمد
نے اس خطہ کو اسلام سے متعارف کرایا۔ لیکن عام لوگوں کے دلوں میں اسلام کی جگہ بنانے اور انہیں اسلام کی حقانیت و برکات سے روشناس کرانے میں ان صوفیائے کرامؒ کا کردار سب سے اہم اور نمایاں ہے جن میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ اور حضرت سید علی ہجویریؒ کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں۔ اور یہ انہی بزرگوں کی روحانی برکات و فیوض کی کارفرمائی ہے کہ جنوبی ایشیا بالخصوص شمالی ہند کے اکثر لوگوں نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ برطانوی استعمار کے کم و بیش ۲۰۰ سالہ دور میں مسیحی بشارت اور شدھی کی خوفناک تحریکوں کے باوجود اس خطہ کے مسلمان اپنے ایمان اور عقیدہ کو بچانے میں کامیاب رہے، اور بالآخر ’’پاکستان‘‘ کے نام سے ایک الگ ریاست قائم کر کے انہوں نے اپنے جداگانہ تشخص کو دنیا سے منوا لیا۔
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے گوجرانوالہ میں منعقدہ ایک سیمینار میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ اندلس پر مسلمانوں کے صدیوں تک قائم رہنے والے اقتدار کے بعد جب وہاں مسیحیوں کا تسلط قائم ہوا تو نئے حکمران مقامی آبادی کی بڑی تعداد کا مذہب تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور آج اسپین میں مسلم اقتدار کے دور کی نشانیاں تو دیکھنے کو ملتی ہیں مگر مقامی آبادی میں مسلمان ناپید ہو کر رہ گئے ہیں، جبکہ متحدہ ہندوستان پر تسلط کے بعد برطانوی استعمار اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود انہیں یہاں کی آبادی کے مذہبی تشخص کو کمزور کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ راقم الحروف بھی اس سیمینار کے مقررین میں شامل تھا، میں نے اس سوال پر عرض کیا کہ اندلس اور اسپین میں اسلام طارق بن زیادؒ کی تلوار کے ذریعے داخل ہوا تھا، جب تک مسلمانوں کی تلوار کا زور قائم رہا اسلام بھی موجود رہا، لیکن جب مسلمانوں کی تلوار کی قوت کمزور پڑی تو مسلمانوں کے ساتھ اسلام بھی وہاں سے نکل گیا۔ مگر جنوبی ایشیا میں اسلام نے حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ اور حضرت سید علی ہجویریؒ جیسے درویش صفت صوفیائے کرام کے ذریعے پیشرفت کی ہے جنہوں نے جسموں کو مسخر کرنے کی بجائے قلوب تک رسائی حاصل کی اور یہاں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے دلوں میں اسلام کا بیج بو دیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اقتدار کی قوت کمزور ہونے اور تلوار کے کند ہو جانے کے باوجود تعلیم و تزکیہ، یعنی مدرسہ اور خانقاہ کا نیٹ ورک مسلسل موجود رہنے کے باعث اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق پوری قوت کے ساتھ قائم رہا۔ حتیٰ کہ آج کے عالمی استعمار کو مسلمانوں کے اس دینی تشخص اور روحانی وابستگی کو کمزور کرنے کی کوئی صورت قابل عمل دکھائی نہیں دے رہی، اور اسلامی ثقافت و عقیدہ کے خلاف عالمی استعمار کے ہر وار کے بعد اس کے ساتھ مسلمانوں کی کمٹمنٹ اور وفاداری زیادہ قوت کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔
ان بزرگوں کو دنیا سے رخصت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں لیکن ان کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و محبت آج بھی ان کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لیے ڈھال بنی ہوئی ہے۔ اور ان بزرگوں کے مزارات پر ہونے والی غلط رسوم اور بدعات و خرافات سے قطع نظر لوگوں کے دلوں میں پائی جانے والی محبت و عقیدت کے حوالے سے یہ مراکز مسلمانوں کے لیے تہذیبی پناہ گاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سوویت یونین کے خاتمہ پر وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کی آزادی کے بعد مجھے تاشقند اور سمرقند جانے کا اتفاق ہوا اور یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ پون صدی کے ریاستی جبر اور اسلام کے اظہار کی ہر صورت پر پابندی کے باوجود وہاں عام مسلمانوں کا دین اور دینی روایات کے ساتھ تعلق باقی ہے۔ صرف اتنا فرق پڑا کہ اسلامی اقدار و روایات کے ساتھ وابستگی جو پون صدی تک انڈر گراؤنڈ رہی، جبری دور ختم ہونے کے بعد زمین کی سطح پر آگئی ہے۔ وہاں کے بعض دانشوروں سے اس سلسلہ میں بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ زیرزمین تہہ خانوں میں قائم خفیہ دینی مدرسے اور تصوف کے بعض سلسلوں کی بظاہر بے ضرر نظر آنے والی رسوم و روایات دین کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق باقی رہنے کا ذریعہ بنی ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کا اسلام کے ساتھ رشتہ مکمل طور پر منقطع نہیں ہونے دیا۔
اسی طرح کی بات ترکی کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے کہ وہاں کم و بیش نصف صدی تک دین اور دینی اقدار کے خلاف ریاستی جبر، آئین و قانون کے ذریعے کارفرما رہا ہے لیکن جبر کی یہ رسی ڈھیلی پڑتے ہی اسلام اور اسلامی اقدار پھر سے سوسائٹی میں اپنی جگہ بناتی جا رہی ہیں۔ وہاں بھی اس کا سب سے بڑا سبب تصوف کے بعض سلسلوں کا باقی رہنا بیان کیا جاتا ہے، اور تصوف کے بعض سلسلوں کی کچھ رسوم و روایات جو سیکولر حلقوں کے ہاں بے ضرر سمجھی جاتی رہیں اور پختہ کار دینی حلقوں کے ہاں وہ رسوم و بدعات متصور ہوئیں مگر وہی رسوم و بدعات عام مسلمانوں کا دین کے ساتھ تعلق رکھنے کا ذریعہ بن گئیں اور آج ترکی کا معاشرہ ایک بار پھر ماضی کی حسین یادوں کو تازہ کرتا نظر آرہا ہے۔
وسطی ایشیا اور ترکی کے اس تجربہ کے بعد بھی جب مغربی استعمار پاکستان میں اپنے تئیں ’’صوفی اسلام‘‘ کے فروغ اور اس کے ذریعے ’’مولوی اسلام‘‘ یا ’’وہابی اسلام‘‘ کو کارنر کرنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے تو مجھے تاریخ کا ایک باشعور طالب علم ہونے کی حیثیت سے اس پر ہنسی آتی ہے کہ جس ’’صوفی اسلام‘‘ کو آج کا مغرب ’’شریعتی اسلام‘‘ سے گلوخلاصی حاصل کرنے کے لیے ہتھیار سمجھ رہا ہے وہ تو اسلام اور مسلمانوں کی آخری اور مضبوط ترین پناہ گاہ ہے اور ایک ایسا کیموفلاج حصار ہے جس کی حفاظتی صلاحیت و قوت کا دنیا وسطی ایشیا اور ترکی میں کھلی آنکھوں مشاہدہ کر چکی ہے۔ بات اس رخ پر زیادہ آگے نکل گئی ہے مگر یہ ضروری بھی تھا کہ حضرت سید علی ہجویریؒ اور ان جیسے دیگر بزرگان کرام کے ساتھ عام مسلمان کی عقیدت و محبت کے حوالہ سے ایک شعوری دیوبندی کا نقطۂ نظر بھی قارئین کے سامنے آئے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دیوبندی حضرات ان مزارات کے بارے میں منفی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے بلکہ ان بزرگوں کے ساتھ ہماری عقیدت و محبت کسی سے کم نہیں ہے، البتہ ہم ان مزارات پر ہونے والی رسوم و بدعات کے بارے میں ضروری تحفظات رکھتے ہیں اور ان کا حسب موقع اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ ہمارے یہ تحفظات ان سے مختلف نہیں ہیں جن کا ذکر بریلوی مکتب فکر کے امام مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے اپنی تحریروں میں کیا ہے۔ اس لیے داتا دربار کا یہ سانحہ کسی ایک مکتب فکر کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے صدمہ کا باعث ہے اور یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا کوئی نارمل اور باشعور مسلمان اس قسم کی شرمناک حرکت کر سکتا ہے۔ کچھ افراد اگر بے وقوفی، جذباتیت اور انتہائی شاطرانہ برین واشنگ کی وجہ سے اس المناک سانحہ کے لیے استعمال ہوئے ہیں تو ان کی شدید مذمت اور اس انتہائی غلط طریق کار کے سدباب کے مطالبات کے ساتھ ساتھ، بلکہ ان سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ پس منظر میں کارفرما پالیسی ساز قوتوں کو بے نقاب کیا جائے جو ایک عرصہ سے ’’صوفی اسلام‘‘ اور ’’شریعتی اسلام‘‘ کے درمیان فرق کے عنوان سے پاکستان میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ مجھے اپنے ایک بزرگ دوست مولانا مفتی منیب الرحمان کے اس ارشاد گرامی سے اتفاق نہیں ہے کہ ’’ہم را اور بلیک واٹر کو نہیں جانتے، دہشت گردی مقامی لوگ کر رہے ہیں‘‘۔ یہ تجاہل عارفانہ ہے۔ اگر ’’را‘‘ اور ’’بلیک واٹر‘‘ کو مفتی منیب الرحمان نہیں جانتے تو اور کون جانتا ہے؟ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دہشت گردی کے پس منظر میں کارفرما منصوبہ بندی کا جائزہ لیا جائے، اس کے مقاصد اور اہداف کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور حقیقت پسندی کی بنیاد پر اس کا تجزیہ کیا جائے کہ اس میں کون، کس طرف سے اور کس سطح پر استعمال ہو رہا ہے۔ اس کے بغیر ہم حضرت سید علی ہجویریؒ اور ان کے عقیدت مندوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکیں گے۔