دارالعلوم عیدگاہ کبیر والا میں کافی عرصے کے بعد حاضری کا اتفاق ہوا، حضرت مولانا منظور الحق صاحبؒ اور حضرت مولانا عبد الخالق صاحبؒ کی زیارت تو مجھے یاد نہیں البتہ حضرت مولانا علی محمدؒ کی خدمت میں حاضری اور دعاؤں کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے۔ مولانا محمد انورؒ میرے دوستوں اور بے تکلف ساتھیوں میں سے تھے، جماعتی اور تحریکی زندگی میں ان کے ساتھ ایک عرصہ رفاقت رہی ہے۔ حضرت مولانا ارشاد احمد زید مجدہم میرے دعاگو بزرگوں میں سے ہیں، ہمیشہ شفقت فرماتے ہیں اور دعاؤں سے نوازتے ہیں، متعدد بار انہوں نے دارالعلوم کے کئی پروگراموں میں حاضری کے لیے فرمایا مگر ہر بار ایسا ہوتا رہا کہ میں نے مطلوبہ وقت کہیں اور دے رکھا ہوتا تھا، اور میری عادت ہے کہ ایک وقت کسی جگہ دے دوں تو اپنی امکانی بساط تک اس میں ردوبدل نہیں کرتا۔
۳ فروری کو دارالعلوم میں ختم نبوت کانفرنس تھی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مخدوم العلماء حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلٰی برادرم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے خطاب فرمانا تھا۔ اس لیے میں نے حکم کی تعمیل میں حاضری دی اور تحفظ ناموسِ رسالتؐ کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کیں۔ دارالعلوم کی روایات کے مطابق پرجوش اجتماع تھا، علمائے کرام کی ایک کثیر تعداد شریک تھی جبکہ عوام کا جم غفیر تھا اور رات گئے تک لوگوں کی بڑی تعداد مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں کے ارشادات سماعت کرتی رہی۔ میں نے جو معروضات پیش کیں ان میں سے دو باتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
ایک یہ کہ مغرب کا کہنا ہے کہ مسلمان جذباتی قوم ہے، قرآن کریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی بات برداشت نہیں کرتی اور ان کے حوالے سے جذباتی ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس بات سے اختلاف نہیں ہے کہ ہم واقعی جذباتی قوم ہیں اور قرآن کریم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی بات برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، مگر ہمارے نزدیک یہ بات عیب کی نہیں بلکہ خوبی اور کمال کی ہے، اس لیے کہ یہ قرآن کریم اور جناب نبی کریمؐ کے ساتھ محبت اور کمٹمنٹ کی علامت ہے۔ جہاں تعلق ہوتا ہے وہاں غصہ ضرور آتا ہے اور جہاں محبت ہوتی ہے وہاں غیرت کا ہونا بھی فطری بات ہے۔ غصہ بھی فطرت ہے اور غیرت بھی فطرت ہے اس لیے کہ اللہ تعالٰی نے انسان میں کوئی بات بھی غیر ضروری پیدا نہیں کی، البتہ ہر چیز کے استعمال کی حدود متعین کی ہیں اور جائز و ناجائز کے دائرے بیان کیے ہیں کہ غصہ صحیح جگہ پر آنا چاہیے اور غلط مقام پر نہیں آنا چاہیے۔
ایک مغربی دانشور نے لکھا کہ ہمیں تو کسی بات پر غصہ نہیں آتا، ہمارے سامنے کوئی بائبل کی بات کرے یا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بات کرے ہمیں کوئی غصہ نہیں آتا۔ میں نے اس پر عرض کیا کہ جس کو کسی بات پر غصہ نہیں آتا اسے کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جا کر اپنا علاج کرانا چاہیے، اس لیے کہ جس طرح بات بات پر غصہ آنا نفسیاتی بیماری ہے اسی طرح کسی بات پر غصہ نہ آنا بھی نفسیاتی بیماری ہے اور اس کا علاج ضروری ہو جاتا ہے۔
دوسری گزارش میں نے یہ کی کہ مغربی دانشوروں کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے اجتماعی اور معاشرتی معاملات میں بائبل اور حضرت عیسٰیؑ کا حوالہ ترک کر دیا ہے اور ہم اپنے قومی اور معاشرتی امور آزاد ذہن کے ساتھ طے کرتے ہیں، جبکہ مسلمانوں نے اپنے ذہنوں پر ابھی تک قرآن کریم اور حضرت محمدؐ کا حوالہ بقول ان کے ’’مسلط‘‘ رکھا ہوا ہے اور وہ اس کے دائرے سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مغربی دانشوروں کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہم مسلمانوں کی تمام تر کمزوریوں اور خرابیوں کے باوجود آج بھی ہمارا سب سے بڑا حوالہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی ہے۔ اور یہ حوالہ بحمد اللہ اتنا مضبوط ہے کہ بش، ٹونی بلیئر اور اوباما کو بھی مسلمانوں کے کسی اجتماع میں بات کرنا ہوتی ہے تو قرآن کریم کی کوئی آیت یا جناب رسول اکرمؐ کا کوئی ارشاد یاد کر کے اس کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔
مغربی اقوام اور ہمارے درمیان یہ فرق بلاشبہ موجود ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مغرب کے پاس نہ اصل توریت موجود ہے اور نہ ہی اصل انجیل تک ان کی رسائی ہے۔ اور آج کی عملی صورتحال یہ ہے کہ کوئی یہودی توریت کے کسی نسخے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنے کا حوصلہ نہیں پاتا کہ یہ وہی توریت ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، اور کسی مسیحی میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ انجیل کے کسی نسخے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکے کہ یہ وہ انجیل ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ جبکہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان قرآن کریم کے کسی بھی نسخے پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ وہ قرآن کریم ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ قرآن کریم کے وہ نسخے جو حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں لکھے گئے تھے ان میں سے ایک اوریجنل نسخہ لندن میں برٹش میوزیم کی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے جس کی زیارت کی مجھے سعادت حاصل ہوئی ہے۔ حضرت سید نفیس شاہ صاحبؒ اور حضرت مولانا محمد عیسٰی منصوری کے ہمراہ میں وہاں گیا اور دیگر بہت سے نوادرات کے ساتھ قرآن کریم کا وہ نسخہ بھی دیکھا اور اسے ہاتھوں میں اٹھانے کا شرف حاصل کیا۔ اس نسخے کو دیکھ کر اللہ تعالٰی کی بے نیازی پر میرے ایمان کو مزید اطمینان حاصل ہوا کہ قرآن کریم کے اصلی نسخے کی حفاظت برطانیہ میں ہو رہی ہے اور اس کی اصلیت کی ضمانت غیر مسلم دے رہے ہیں۔
آپ حضرات کی دلچسپی کے لیے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سیدنا حضرت علیؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا مصحف قرآنی بھی دریافت ہوا ہے اور یمن کے دارالحکومت صنعاء کے میوزیم میں موجود ہے۔ اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ جب پہلی بار صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، ان دنوں کا قصہ ہے کہ اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ یمن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا مصحف علوی دریافت ہوا ہے جس پر تحقیق ہو رہی ہے۔ میں ان دنوں جمعیۃ علماء اسلام (درخواستی گروپ) کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کا چیف ایڈیٹر تھا، جبکہ مولانا چنیوٹی جمعیۃ کے سیکرٹری اطلاعات تھے۔ انہوں نے ایک گفتگو میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ کہیں کوئی شرارت یا سازش نہ ہو، مجھے بھی تشویش ہوئی۔ مولانا چنیوٹی نے اس خدشے کو سنجیدگی سے لیا اور اس مقصد کے لیے صنعاء کا مستقل سفر کیا، کچھ دن وہاں رہے، اس نسخے کی زیارت کی اور جہاں جہاں انہیں کوئی شبہ ہو سکتا تھا وہاں سے چیک کیا اور واپسی پر رپورٹ دی جو ہم نے ہفت روزہ ترجمان اسلام میں شائع کی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن کے کسی پرانے کتب خانہ سے قدیمی رسم الخط میں لکھا ہوا قرآن کریم کا ایک نسخہ دریافت ہوا ہے جس کے بارے میں معروف ہے کہ یہ حضرت علیؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ یمن کی حکومت نے اس مصحف علوی کو اپنی تحویل میں لے کر جرمنی کے ماہرین کی ایک ٹیم سے انکوائری کرائی ہے اور انہوں نے تفصیلی تحقیقات کے بعد یہ رپورٹ دی ہے کہ کاغذ، سیاہی، رسم الخط اور دیگر حوالوں سے یہ بات درست ہے کہ یہ اسی زمانے کا لکھا ہوا قرآن کریم ہے اور حضرت علیؓ نے اسے تحریر کیا ہے۔ مولانا چنیوٹی کا فرمانا تھا کہ مجھے جہاں جہاں کوئی شبہ ہو سکتا تھا میں نے اسے چیک کیا ہے اور مجھے پورا اطمینان ہے کہ مصحف عثمانی اور مصحف علوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
میں نے عرض کیا کہ یہ بات قرآن کریم کی حفاظت کے حوالے سے اس کے اعجاز کی ایک اور دلیل ہے جسے اللہ تعالٰی نے آج کے دور میں ہمارے لیے ظاہر کیا ہے۔ بات اصل میں مغربی دانشوروں کے اس اعتراض کی ہو رہی تھی کہ ہم نے تو بائبل اور مسیح علیہ السلام کا حوالہ ترک کر دیا ہے مگر مسلمانوں نے قرآن کریم اور سنتِ رسولؐ کے حوالے ابھی تک باقی رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ یہ بات درست ہے اور مسلمانوں کے ساتھ مغرب کی تہذیبی اور ثقافتی کشمکش کی یہی سب سے بڑی بنیاد ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے کے مسلمان اپنے اجتماعی اور معاشرتی معاملات میں اسلام کے کردار اور قرآن و سنت کے حوالے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکمران طبقات کی بات الگ ہے کہ وہ مغرب کے پروردہ اور تربیت یافتہ ہیں لیکن عام مسلمان دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں قرآن و سنت کے ساتھ اپنے اس تعلق پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں اور مسلم دنیا کے ساتھ مغربی اقوام کے اختلاف کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔
اس سلسلہ میں ایک لطیفے کا ذکر بھی مناسب رہے گا کہ دو دوست آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر اللہ تعالٰی تمہیں دو گاڑیاں دے تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا کہ ایک تمہیں دے دوں گا۔ اس نے پھر پوچھا کہ اگر دو موٹر سائیکل مل جائیں تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا کہ ایک تمہیں دے دوں گا۔ پھر سوال کیا کہ اللہ تعالٰی تمہیں دو مکان دے تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا کہ ایک تمہیں دے دوں گا۔ اس نے پوچھا اگر اللہ تعالٰی تمہیں دو گائیں دے تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا کہ ان کی بات نہ کرو وہ میرے پاس موجود ہیں۔ بھئی! ہمارے پاس تو قرآن و سنت دونوں موجود ہیں ہم سے انہیں چھوڑ دینے کی توقع حماقت کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟