محمد صلاح الدین شہیدؒ

   
جنوری ۱۹۹۵ء

وہ دن بلاشبہ پاکستان کی صحافتی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ہفت روزہ تکبیر کراچی کے مدیر اعلیٰ محمد صلاح الدینؒ سفاک قاتلوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ محمد صلاح الدینؒ بے لاگ تجزیہ نگار اور بے باک قلمکار ہی نہیں بلکہ معاشرہ میں شر کی قوتوں کو چیلنج کرنے اور ظلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے والے بے خوف راہنما بھی تھے۔ انہوں نے لفافے، بریف کیس اور کلاشنکوف کے اس دور میں صحافت اور سچائی کے رشتے کو قائم کیا اور اسلام و پاکستان کے پرچم کو سربلند رکھا اور بالآخر اسی راہِ وفا میں اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔

راقم الحروف محمد صلاح الدین شہیدؒ کا پرانا قاری اور ان کی حق گوئی کا معترف رہا ہے۔ مختلف مجالس میں ان سے ملاقات بھی ہوتی رہی ہے مگر اسی سال اگست میں ان کے ساتھ چند روز کی رفاقت کا موقع ملا تو یہ بات مشاہدہ کا حصہ بنی کہ قلم کا محمد صلاح الدینؒ اور عمل کا محمد صلاح الدینؒ دونوں ایک ہی شخصیت ہیں۔ وہ اگست ۱۹۹۴ء میں ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر چند روز کے لیے لندن تشریف لے گئے، فورم کے سالانہ تعلیمی سیمینار میں ’’اسلامی نظام تعلیم و تربیت میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘‘ کے موضوع پر پرمغز مقالہ پیش کیا جو الشریعہ کے گزشتہ شمارے میں شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ نوٹنگھم اور لیسٹر میں فورم کے زیراہتمام مختلف اجتماعات سے خطاب کیا۔ جنوبی افریقہ سے پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی اور اسلام آباد سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور راقم الحروف بھی ان نشستوں میں شریک رہے۔ کسے خبر تھی کہ یہ یادگار ملاقاتیں زندگی کی آخری ملاقاتیں ثابت ہوں گی۔

آج کے دور میں جبکہ معاشرہ کے ہر طبقہ میں بھرم قائم رکھنے کے لیے ریڈی میڈ میک اپ کا سامان ہر وقت جیب میں رکھنا ضروری سمجھا جا رہا ہے اور شخصی زندگی اور قومی زندگی کے درمیان تفاوت کی دیوار کلچر کا حصہ بنتی جا رہی ہے، ایک ہی چہرے کے ساتھ سب سے نباہ کرنے والا ’’محمد صلاح الدین‘‘ یقیناً پرانے دور کی شرافت، وضع داری اور سچائی کی علامت بن گیا تھا جو بے قید امنگوں کے ساتھ اکیسویں صدی کی طرف بڑھنے والے مادر پدر آزاد جذبوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔

محمد صلاح الدین نے اسلامی اقدار کی سربلندی اور ملکی سالمیت اور قومی خودمختاری کی جنگ میں بے دلیل دشمن کو گولی کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا جو ان کی اخلاقی فتح ہے۔ اور اگر راہِ وفا کے راہرو ’’اخلاقی فتح‘‘ کا یہ پرچم تھامے حوصلہ اور جرأت کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو اسے عملی فتح کی منزل سے ہمکنار کرنا بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائیں اور اہل قلم کو ان کی طرح قلم کی آبرو کا تحفظ کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter