خلافت کے موضوع پر ابھی ایک راؤنڈ باقی ہے، خاص طور پر ویلفیئر اسٹیٹ اور انسانی حقوق کے حوالہ سے خلافت راشدہ کے سنہرے دور کے بارے میں گفتگو بہت اہمیت کی حامل ہے، لیکن ”وقفہ بہت ضروری ہے“ کے پیش نظر اسے چند روز کے لیے مؤخر کرتے ہوئے محترم قاضی حسین احمدؒ کی وفات پر اپنے تعزیتی تاثرات اور جذبات کا اظہار آج کے کالم میں کرنا چاہتا ہوں۔
قاضی صاحب مرحوم کے ساتھ میرے تعلقات کی نوعیت دوستانہ تھی اور مختلف دینی و قومی تحریکات میں باہمی رفاقت نے اسے کسی حد تک بے تکلفی کا رنگ بھی دے رکھا تھا، ان کے ساتھ میرا تعارف اس دور میں ہوا جب وہ جماعت اسلامی پاکستان کے قیم تھے۔ پاکستان قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مجھے اتحاد میں شامل جماعتوں کے راہنماؤں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا ہوتا تھا، یہ رابطہ انتخابی مہم میں بھی تھا اور تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے چلائی جانے والی اجتماعی تحریک میں بھی تھا، بعد میں جب سینیٹ آف پاکستان میں مولانا قاضی عبد اللطیفؒ اور مولانا سمیع الحق کے پیش کردہ ’’شریعت بل‘‘ کے لیے ملک گیر عوامی جدوجہد منظم کرنے کا مرحلہ سامنے آیا تو اس کے لیے قاضی حسین احمد صاحب پیش پیش تھے اور انہوں نے اس سلسلہ میں بہت متحرک اور بھرپور کردار ادا کیا۔ اس تحریک کے لیے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر دونوں محاذوں پر ’’متحدہ شریعت محاذ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے سربراہ مولانا عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ آف اکوڑہ خٹک تھے اور سیکرٹری جنرل قاضی حسین احمدؒ کو چنا گیا۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری میرے سپرد تھی جبکہ متحدہ شریعت محاذ کے سرگرم راہنماؤں میں مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ ، مولانا معین الدین لکھویؒ اور مولانا محمد اجمل خانؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
متحدہ شریعت محاذ نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ان راہنماؤں کی قیادت میں زبردست عوامی مظاہرہ کیا، قاضی حسین احمدؒ اس ساری مہم کا اہم اور متحرک کردار تھے، شریعت بل کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ قرآن و سنت کو ملک کے دستور میں سپریم لاء کی حیثیت حاصل ہوگی اور اس سے متصادم تمام قوانین، ضابطے اور رواجات ختم ہو جائیں گے۔ سینیٹ آف پاکستان نے یہ شریعت بل منظور کر لیا تھا مگر جب قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو میاں نواز شریف صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اسے قومی اسمبلی میں اس شرط کے ساتھ منظور کیا گیا کہ ’’بشرطیکہ ملک کا سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ اس سے متاثر نہ ہو‘‘ اور اس طرح دستور کی دیگر رسمی اسلامی دفعات میں ایک اور رسمی سی دفعہ کا اضافہ ہوگیا۔ قاضی صاحب محترم کے ساتھ اس سے قبل ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی رفاقت رہی جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا، اس میں قادیانیوں کو اسلام کا نام استعمال کرنے سے قانونًا روک دیا گیا ہے اور ان کے لیے اسلام کی مذہبی علامات اور اصطلاحات کے استعمال کو قانونی جرم قرار دیا گیا ہے۔
اس دوران ایک دلچسپ واقعہ ہوا جس کا تذکرہ تو بعض مجالس میں کر چکا ہوں مگر اسے تحریری طور پر ریکارڈ میں تفصیل کے ساتھ لانے کا موقع نہ مل سکا۔ یہ اگر قاضی صاحب مرحوم کی زندگی میں ہو جاتا تو زیادہ بہتر تھا لیکن تقدیر کے فیصلوں کا کسے علم ہے؟ بہرحال اب بھی اسے ریکارڈ میں آجانا چاہیے، اس لیے تحریر کر رہا ہوں، اس دور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ میں منقسم تھی، درخواستی گروپ کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور سیکرٹری جنرل مولانا سمیع الحق تھے جبکہ فضل الرحمن گروپ کے امیر حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمن تھے۔ درخواستی گروپ میں حضرت درخواستیؒ کی علالت کی وجہ سے حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ نائب امیر اول کے طور پر قائم مقام امیر کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اس دوران قاضی حسین احمد صاحبؒ نے جماعت اسلامی پاکستان کے قیم (سیکرٹری جنرل) کی حیثیت سے حضرت مولانا سید حامد میاںؒ سے رابطہ کیا کہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اگر یہ قرارداد پاس کر دے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جن افکار و نظریات سے جمعیۃ علماء اسلام یا دوسرے حلقوں کو اختلاف ہے، جماعت اسلامی انہیں مولانا مودودیؒ کے تفردات سمجھتے ہوئے ان مسائل میں جمہور علماء اہل سنت کے ساتھ ہے تو کیا اس قرارداد کے بعد جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی دونوں مل کر ملک میں دینی جدوجہد کی پوزیشن میں ہوں گی؟ مولانا سید حامد میاںؒ نے اس مسئلہ پر درخواستی گروپ کو بھی اعتماد میں لینا مناسب سمجھا اور مولانا محمد اجمل خانؒ سے بات کی، دونوں بزرگوں نے آپس میں مشورہ سے طے کیا کہ اس سوال کا کوئی حتمی جواب دینے سے پہلے مسلکی حوالہ سے تین بڑے بزرگوں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، اور حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ دونوں حضرات نے ان تینوں بزرگوں کے پاس حاضر ہو کر مشورہ کرنے کی ذمہ داری میرے سپرد کی اور میں نے حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کے نمائندے کے طور پر تینوں بزرگوں کے سامنے یہ سوال رکھا، اس پر تینوں بزرگوں کے جوابات مختلف تھے۔
والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے جواب دیا کہ اگر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اس مفہوم کی قرارداد پاس کر دے تو پھر ہمارے پاس جماعت اسلامی کے ساتھ اختلاف باقی رکھنے کا کوئی شرعی اور اخلاقی جواز نہیں رہ جاتا۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے ارشاد فرمایا کہ صرف اس مضمون کی قرارداد کافی نہیں ہوگی بلکہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کو مولانا مودودیؒ کی شخصیت کے بارے میں بھی اپنا موقف واضح کرنا ہوگا، جبکہ علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کا موقف یہ تھا کہ صرف قرارداد سے کام نہیں بنے گا اس لیے کہ اصل اختلاف جماعت اسلامی کے دستور کی اس شق سے شروع ہوا تھا جس میں جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ رسول خدا کے سوا کسی کو معیار حق نہ سمجھے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے اور کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو۔ اس پر حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے اعتراض کیا تھا کہ اس سے صحابہ کرامؓ کے معیار حق اور تنقید سے بالاتر ہونے کی نفی ہوتی ہے اور تقلید کی بھی نفی ہوتی ہے جو جمہور اہل سنت کے موقف سے انحراف ہے۔ اس سے اختلاف کا آغاز ہوا تھا اس لیے اگر جماعت اسلامی اختلافات کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے دستور کی اس شق میں علماء اہل سنت کے حسب منشا ترمیم کرنا ہوگی ورنہ قرارداد کے بعد بھی اصل اختلاف جوں کا توں رہے گا۔
میں نے جب تینوں بزرگوں کے جوابات حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کو پہنچائے تو انہوں نے باہمی مشورہ سے علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ کے جواب کو زیادہ قرین قیاس قرار دیا اور مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ میں قاضی حسین احمد صاحب کو مل کر اس سے آگاہ کردوں۔ چنانچہ میں نے قاضی صاحب موصوف سے ملاقات کی اور انہیں یہ پیغام پہنچا دیا۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ مجلس شوریٰ میں قرارداد کی منظوری کی صورت تو میں کر سکتا ہوں لیکن جماعتی دستور میں ترمیم کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ اس پر دونوں طرف سے خاموشی اختیار کر لی گئی مگر تھوڑے عرصہ کے بعد قاضی حسین احمد صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوگئے، یہ وہ دور تھا جب وہ متحدہ شریعت محاذ کے سیکرٹری جنرل تھے اور میں سیکرٹری اطلاعات تھا، گڑھی شاھو لاہور کے علامہ اقبالؒ روڈ پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کی تنظیم اسلامی پاکستان کے مرکزی دفتر میں متحدہ شریعت محاذ کی مرکزی کونسل کا اجلاس تھا، قاضی صاحب مرحوم جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو چکے تھے لیکن ابھی انہوں نے حلف نہیں اٹھایا تھا، اس اجلاس میں قاضی صاحب اور راقم الحروف ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، میں نے انہیں جماعت کا امیر منتخب ہونے پر مبارک باد دی تو انہوں نے بے تکلفی سے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ اب تو میں ترمیم کی پوزیشن میں بھی آگیا ہوں اب بات کرو! میں نے ہنستے ہوئے دل لگی کے انداز میں کہا کہ ’’رسم تاج پوشی کے بعد بات کریں گے‘‘۔ یعنی وہ جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کا حلف اٹھا لیں تو اس کے بعد بات چلائیں گے، اس بات سے میں نے حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ اور حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کو آگاہ کر دیا لیکن اس سلسلہ میں اس کے بعد پھر کوئی بات کسی طرف سے بھی باضابطہ طور پر سامنے نہیں آئی اور یہ سارا قصہ تاریخ کی نذر ہوگیا۔
قاضی حسین احمد صاحبؒ کا خاندانی پس منظر جمعیۃ علماء ہند کا تھا، ان کے والد محترم حضرت مولانا قاضی عبد الرب صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جمعیۃ علماء ہند کے صوبائی صدر تھے، دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے، قاضی صاحبؒ کے بھائی مولانا عبد القدوسؒ بھی فاضل دیوبند تھے جو وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے ہیں، قاضی صاحبؒ کا نام حسین احمد حضرت مدنیؒ کی نسبت سے رکھا گیا تھا اور قاضی صاحبؒ نے مجھے خود بتایا کہ وہ چھ سال کی عمر تک گفتگو نہیں کر سکتے تھے، ایک بار حضرت مدنیؒ ان کے گھر تشریف لائے تو ان کے والد محترمؒ نے حضرت مدنیؒ سے دعا اور دم کرنے کی درخواست کی، حضرت مدنیؒ نے دم کیا، دعا فرمائی اور قاضی حسین احمد صاحب کے منہ میں لعاب ڈالا، قاضی صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد میں نے بولنا شروع کر دیا، وہ کہا کرتے تھے کہ میں حضرت مدنیؒ کی زندہ کرامت ہوں۔
اس سلسلہ میں ایک لطیفے کی بات یہ ہے کہ قاضی صاحب جب جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو ان دنوں میں امریکہ گیا وہاں میرے میزبان جماعت اسلامی کے ایک معروف راہنما تھے، ان کے والد محترم بھی عالم دین تھے، وہ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے آئے تو آمنا سامنا ہوتے ہی انہوں نے مجھے مبارک باد دی کہ مبارک ہو جماعت اسلامی پر جمعیۃ علماء اسلام نے قبضہ کر لیا ہے، انہوں نے یہ بات اگرچہ دل لگی کے طور پر کہی تھی مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری دینی جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے مخصوص داخلی ماحول کی وجہ سے پیدا ہونے والے بُعد کو کم کرنے اور مل جل کر کام کرنے کا کھلا ماحول قائم کرنے میں قاضی صاحب مرحوم کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔
قاضی حسین احمد ملک میں نفاذ اسلام اور دیگر دینی و قومی تحریکات کے لیے دینی جماعتوں اور مختلف مکاتب فکر کے درمیان مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کرنے میں ہمیشہ متحرک رہتے تھے، ان میں بات سننے کا حوصلہ تھا، اس لیے ہم ان سے بعض نازک معاملات پر بھی بے تکلفی سے بات کر لیا کرتے تھے۔ جن دنوں قاضی صاحبؒ کا لندن میں دل کا بائی پاس آپریشن ہوا، میں لندن میں تھا، ان کی بیمار پرسی کے لیے حاضر ہوا تو وہاں مجلس میں افغانستان کی خانہ جنگی زیر بحث تھی، ان دنوں انجینئر گلبدین حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود کے دھڑوں میں سخت جنگ ہو رہی تھی، پروفیسر برہان الدین ربانی افغانستان کے صدر تھے، ان کے ساتھ انجینئر گلبدین حکمت یار کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا لیکن انہوں نے وزارت عظمیٰ قبول نہیں کی اور ان دونوں دھڑوں کے درمیان جنگ نے بہت تباہی پھیلائی۔ طالبان اسی خانہ جنگی کے رد عمل میں سامنے آئے تھے، میں نے اس مجلس میں قاضی صاحب مرحوم سے کہا کہ انجینئر حکمت یار اور پروفیسر برہان الدین ربانی کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی کے مسلسل جاری رہنے کے ذمہ دار آپ ہیں، قاضی صاحب تھوڑے سے پریشانی ہوئے اور پوچھا وہ کیسے؟ میں نے کہا کہ یہ دونوں آپ کے سیاسی حلقہ کے لوگ ہیں، سیاسی فکر کے حوالہ سے دونوں کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، آپ کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ آپ گلبدین حکمت یار کے ساتھ فریق بن کر کھڑے ہو جائیں، آپ ہی ان میں صلح کرانے کی پوزیشن میں تھے لیکن آپ نے حکمت یار کے حق میں فریق بن کر خود کو جانبدار بنا لیا ہے اس لیے اب کون ان میں صلح کرائے گا؟ یہ بات سن کر قاضی صاحبؒ تو خاموش ہوگئے لیکن مجلس کے دوسرے حضرات نے میری بات کی تائید کی۔
بہرحال قاضی حسین احمدؒ ایک فکرمند، حوصلہ مند اور دردِ دل سے بہرہ ور راہنما تھے، ان کی جدائی ہم سب کے لیے صدمہ کی بات ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔