(۲۳ اکتوبر ۱۹۹۵ء کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں تحریک احیائے امت کے زیراہتمام ’’مسلم امہ اور اقوام متحدہ کا دوہرا معیار‘‘ کے عنوان پر سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر قاضی حسین احمد نے کی۔ جبکہ ریٹائرڈ جنرل حمید گل، سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ، صاحبزادہ پیر سید امین الحسنات، پیر اعجاز احمد ہاشمی اور دیگر دانشوروں کے علاوہ تحریک احیائے امت کے کنوینر صاحبزادہ سید خورشید احمد گیلانی اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے بھی خطاب کیا۔ مولانا راشدی کے خطاب کا متن درج ذیل ہے۔ ادارہ الشریعہ)
۲۴ اکتوبر ۱۹۹۵ء کو اقوام متحدہ کا پچاسواں یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر عالمی سطح پر اقوامِ متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ سے قبل بھی عالمی سطح پر اقوام کی ایک مشترکہ تنظیم ’’انجمنِ اقوام‘‘ کے نام سے موجود تھی جس کا مقصد مختلف ملکوں کے درمیان محاذ آرائی اور مسلح تصادم کے امکانات کو روکنا اور بین الاقوامی طور پر رواداری اور مفاہمت کی فضا کو فروغ دینا تھا۔ لیکن انجمن اقوام اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد ’’اقوام متحدہ‘‘ کے نام سے ایک نئی عالمی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جو گزشتہ نصف صدی سے اقوام عالم کے درمیان مختلف شعبوں میں باہمی تعاون و مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے اپنے پروگرام اور ترجیحات کے مطابق مصروفِ عمل ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے بعد نصف صدی کے دوران جو خدمات سرانجام دی ہیں ان پر اس وقت پوری دنیا میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے، لیکن برادر مسلم ملک ملائیشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیر محمد نے گزشتہ دنوں عالم اسلام کے بارے میں اقوام متحدہ کے طرزعمل کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس کی پچاس سالہ تقریبات کے بائیکاٹ کی بات کر کے اقوام متحدہ کی کارکردگی کے حوالہ سے بحث و مباحثہ کو ایک نیا رخ دے دیا ہے اور مسلم امہ کے ساتھ اقوام متحدہ کے تعلقات اور طرزعمل کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کا وسیع سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
عالم اسلام کے ساتھ اقوام متحدہ کے طرزعمل کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں گزشتہ نصف صدی کے دوران عالم اسلام کی داخلی صورتحال پر ایک نظر ڈالنا ہوگی اور ان توقعات کو پیش نظر رکھنا ہوگا جو معروضی حالات میں ملتِ اسلامیہ کو اقوام متحدہ سے فطری طور پر ہونی چاہیے تھیں۔ اقوام متحدہ جس وقت تشکیل و تنظیم کے مراحل طے کر رہی تھی اور انسانی حقوق کی سربلندی اور عالمی سطح پر انصاف اور رواداری کے فروغ کو اپنی منزل قرار دے کر سفر کا آغاز کر رہی تھی اس وقت عالم اسلام کے بہت سے ممالک استعماری قوتوں کی غلامی سے تازہ تازہ آزاد ہوئے تھے اور بعض مسلم ممالک ابھی آزادی کے لیے جانگسل جدوجہد کے مراحل سے گزر رہے تھے۔ جبکہ گزشتہ نصف صدی کے دوران عالم اسلام کے بیشتر ممالک آزاد ہو کر اپنی خودمختار حکومتیں قائم کر چکے ہیں مگر بہت سے ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں مسلم اقوام آزادی اور خودمختاری کے لیے ابھی تک جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس دوران مسلم اقوام و ممالک کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ وہ سیاسی، معاشی اور فوجی طور پر استحکام حاصل کریں، نوآبادیاتی دور کے غلامی کے اثرات سے نجات پائیں اور اقتصادی خودکفالت کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوں۔ جبکہ مسلم ممالک کو عرصہ دراز تک اپنی غلامی میں رکھنے والے ممالک، عالم اسلام میں اپنے اثرات کو قائم رکھنے اور مسلم ممالک کو سیاسی خودمختاری اور اقتصادی خودکفالت کی منزل سے روکنے کے لیے مسلسل مصروفِ کار چلے آ رہے ہیں، حتیٰ کہ مختلف مسلم علاقوں پر نوآبادیاتی تسلط قائم رکھنے والے استعماری ممالک برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال (اور اب روس بھی) اس مقصد کے لیے امریکہ کی زیرقیادت متحدہ محاذ قائم کر چکے ہیں کہ عالم اسلام ان کے دائرہ اثر سے نکلنے نہ پائے اور مسلم ممالک بدستور ان کی ریموٹ کنٹرول نوآبادیات بنے رہیں۔
اس حوالہ سے انسانی حقوق، انصاف اور مساوات کی علمبردار اقوام متحدہ سے بجاطور پر یہ توقع ہونی چاہیے تھی کہ وہ بیرونی تسلط قائم رکھنے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کی اس کشمکش میں آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کرنے والی اقوام کا ساتھ دیتی۔ لیکن گزشتہ نصف صدی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ اقوام متحدہ انصاف اور انسانی حقوق کی ان توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ موجودہ عالمی تناظر یہ ہے کہ مغربی ممالک اور عالم اسلام کے درمیان تسلط قائم رکھنے اور اس سے نجات حاصل کرنے کی یہ کشمکش واضح محاذ آرائی کی صورت اختیار کر چکی ہے جس میں مغربی ممالک کے اہداف و مقاصد متعین طور پر سامنے ہیں کہ:
- مسلم ممالک نظریاتی اور سیاسی اتحاد کی منزل کی طرف بڑھنے نہ پائیں۔
- ایٹمی ٹیکنالوجی اور جدید ترین حربی وسائل کو مسلم ممالک کی دسترس سے دور رکھا جائے۔
- امداد اور قرضوں کے نام پر مسلم ممالک کی معیشت کو جکڑ کر انہیں اقتصادی طور پر خودکفالت حاصل نہ کرنے دی جائے۔
- مغربی مفادات کی حفاظت کرنے والے مسلم حکمرانوں کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے اور مسلم ممالک کی نظریاتی قوتوں کو ’’بنیاد پرست‘‘ قرار دے کر انہیں اقتدار تک پہنچنے سے ہر حال میں روکا جائے۔
- عالم اسلام کے مذہبی اور تہذیبی تسلسل کو مبینہ ’’انسانی حقوق‘‘ سے متصادم قرار دے کر اس کے خلاف معاشرتی بغاوت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
یہ ساری تگ و دو عالم اسلام کو مغرب کا دست نگر بنائے رکھنے اور مسلم ممالک پر مغرب کے سیاسی و اقتصادی تسلط کو دوام دینے کے لیے ہے۔ اور اس کشمکش کے حوالہ سے اقوام متحدہ کے کردار کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو انسانی حقوق، اقوام عالم کے درمیان مساوات، آزادی اور عالمی سطح پر انصاف کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اس کشمکش میں اقوام متحدہ مغربی استعمار کی مکمل طور پر حلیف بلکہ آلہ کار نظر آتی ہے۔ اس سے ہٹ کر گزشتہ نصف صدی کے دوران عالم اسلام کو درپیش واقعاتی مسائل و مشکلات کے حوالہ سے بھی اقوام متحدہ کی کارکردگی پر ایک نظر ڈال لی جائے:
- فلسطینی عوام کے مسلمہ انسانی حقوق اور بیت المقدس پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے بارے میں اقوام متحدہ نے خود اپنی واضح قراردادوں کی نفی کرتے ہوئے عملاً اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا اور اقوام متحدہ کی سردمہری اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے آج نسل پرست اسرائیل من مانی کر رہا ہے۔
- کشمیر میں کشمیری عوام کے حق خودرادیت کو واضح طور پر تسلیم کرنے کے باوجود اقوام متحدہ کشمیریوں کے قتل عام اور ان کے حقوق کی پامالی پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اور انہیں خودارادیت کا مسلمہ حق دلانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر سکی۔
- بوسنیا میں مسلمانوں کے قتل عام پر اقوام متحدہ نے یہ کردار ادا کیا کہ ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کے نام سے بوسنیا کی نوزائیدہ حکومت کو غیر مسلح کر دیا تاکہ سابق یوگوسلاویہ کے حربی وسائل پر پہلے سے قابض سرب فوج اطمینان کے ساتھ بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام کر سکے۔
- چیچنیا میں مسلمانوں کے قتل عام پر اقوام متحدہ کو ایک لفظ کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
- قازقستان میں روس کے ایٹمی تجربات کے دوران مبینہ طور پر ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی المناک موت پر اقوام متحدہ مکمل خاموش ہے۔
- خلیج کی جنگ زرگری میں عراق کی فوجی قوت کو تباہ کر کے، تیل کی دولت کو مغربی ممالک کی تجوریوں میں منتقل کر کے اور خلیج پر مغربی ممالک کی افواج کو مسلط کر کے اقوام متحدہ الٹا عالم اسلام پر احسان جتلا رہی ہے کہ ایک مسلم ملک پر دوسرے مسلم ملک کے ہاتھوں ابتلاء آنے پر ہم نے کس چابکدستی اور تیز رفتاری کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا ہے۔
- ان کے علاوہ صومالیہ اور آذربائیجان سمیت بہت سے دیگر خطوں کے مسائل کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے جہاں اقوام متحدہ نے عالم اسلام کے بارے میں اپنے دوہرے معیار کا تسلسل قائم رکھا اور استعماری ممالک نے مسلم اقوام کے خلاف اپنے اہداف اقوام متحدہ کی چھتری تلے حاصل کیے۔
اور آخر میں اس نظریاتی اور فکری جنگ کا ذکر بھی نامناسب نہ ہوگا جو اقوام متحدہ کے نام پر بلکہ اس کے ذریعے اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف لڑی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو بنیاد بنا کر نہ صرف اسلام کے عقائد و احکام کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے بلکہ مسلمانوں کے معاشرتی و خاندانی نظام کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اس عنوان سے مغربی لابیاں اور عالمی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو مسلسل مہم جاری رکھے ہوئے ہے اس کا نقشہ کچھ یوں ہے:
- معاشرتی جرائم کی قرآنی سزاؤں ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے، قصاص میں قتل کرنے اور سنگسار کرنے کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ بائبل میں بھی جرائم کی یہی سزائیں بیان کی گئی ہیں۔
- آزادیٔ رائے کے نام پر خدا، رسول اور مذہب پر تنقید بلکہ گستاخی اور اہانت کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور پورے عالم اسلام میں گستاخانِ رسولؐ کو مغرب کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے جس کی واضح مثال سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور مصر کے ڈاکٹر ابوزید کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے۔
- نکاح و طلاق اور وراثت کے بارے میں مسلمانوں کے خاندانی مذہبی قوانین کو عالمی معیار اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے منافی قرار دے کر ان کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
- ہم جنس پرستی، بغیر شادی کے بچوں کی ولادت اور آزادانہ جنسی تعلقات کو قانونی تحفظ دلانے کے لیے اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنسیں مسلم حکومتوں پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔
اور اس طرح عالم اسلام کے خلاف مغربی استعمار کی اعتقادی، فکری اور تہذیبی جنگ میں بھی اقوام متحدہ مغرب کی حلیف اور آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ان حالات میں ملائیشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیر محمد کی طرف سے اقوام متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کا بطور احتجاج بائیکاٹ کرنے کے نعرۂ مستانہ کا جائزہ لیا جائے تو وہ عالم اسلام کے بارے میں اقوام متحدہ کے پچاس سالہ طرزعمل کا فطری ردعمل اور ملتِ اسلامیہ کے دلی جذبات کا عکاس نظر آتا ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں جو لوگ اقتدار کی مسند پر فائز ہیں ان کی اکثریت خود مغرب کی نمائندہ اور اس کے مفادات کی محافظ ہے، ان سے ملتِ اسلامیہ کے جذبات کا ساتھ دینے کی توقع کرنا خودفریبی کے مترادف ہوگا۔ البتہ عالم اسلام کی دینی تحریکات اور علمی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کا ادراک کریں اور عالم اسلام کے خلاف مغربی استعمار کی نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی یلغار کے پس منظر میں اقوام متحدہ کے طرزعمل کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کر کے عالمی رائے عامہ کو اس سے باخبر کرنے کا اہتمام کریں۔