ہمارے دینی مدارس — مقاصد، جدوجہد اور نتائج

   
جولائی ۱۹۹۰ء

دینی مدارس کے تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے اور ملک بھر کے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ سالانہ تعطیلات گزارنے کے بعد اپنے تعلیمی سفر کے نئے مرحلہ کا آغاز ماہِ گزشتہ کے وسط میں کر چکے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ان ہزاروں دینی مدارس کا تعلق مختلف مذہبی مکاتبِ فکر سے ہے اور ہر مذہبی مکتب فکر کے دینی ادارے اپنے اپنے مذہبی گروہ کے تشخص و امتیاز کا پرچم اٹھائے نئی نسل کے ایک معتد بہ حصہ کو اپنے نظریاتی حصار اور فقہی دائروں میں جکڑنے کے لیے شب و روز مصروف عمل ہیں۔

دینی مدارس کے موجودہ نظام کی بنیاد امدادِ باہمی اور عوامی تعاون کے ایک مسلسل عمل پر ہے جس کا آغاز ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد اس جذبہ کے ساتھ ہوا تھا کہ اس معرکۂ حریت کو مکمل طور پر کچل کر فتح کی سرمستی سے دوچار ہوجانے والی فرنگی حکومت سیاسی، ثقافتی، نظریاتی اور تعلیمی محاذوں پر جو یلغار کرنے والی ہے اس سے مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ اور تہذیب و تعلیم کو بچانے کی کوئی اجتماعی صورت نکالی جائے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے دیوبند میں مدرسہ عربیہ (دارالعلوم دیوبند)، سہارنپور میں مظاہر العلوم اور مراد آباد میں مدرسہ شاہی کا آغاز ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان کے طول و عرض میں ان مدارس کا جال بچھ گیا۔ ان مدارس کے لیے بنیادی اصول کے طور پر یہ بات طے کر لی گئی کہ ان کا نظام کسی قسم کی سرکاری یا نیم سرکاری امداد کے بغیر عام مسلمانوں کے چندہ کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انتہائی سادگی اور قناعت کے ساتھ ان مدارس نے برصغیر کے مسلمانوں کی بے پناہ دینی و علمی خدمات سرانجام دیں۔

ان مدارس کے منتظمین اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ایسے مردانِ باصفا کی تھی جو وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کا ارادہ کر لیتے تو دنیاوی زندگی کی سہولتیں اور آسائشیں بے دام غلام کی طرح ان کے دروازے پر قطار باندھے کھڑی نظر آتیں، لیکن غیور و جسور فقراء کے اس گروہ نے مسلمان کو مسلمان باقی رکھنے کے عظیم مشن کی خاطر نہ صرف ان آسائشوں اور سہولتوں کو تج دیا بلکہ اپنی ذاتی انا اور عزتِ نفس کی قیمت پر صدقات، زکوٰۃ و عشر اور ایک ایک دروازے سے ایک ایک روٹی مانگنے کے لیے اپنی ہتھیلیاں اور جھولیاں قوم کے سامنے پھیلا دیں۔ اور ہر قسم کے طعن و تشنیع اور تمسخر و استہزاء کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے انتہائی صبر و ثبات کے ساتھ ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جس نے برصغیر میں اسپین کی تاریخ دہرانے کی فرنگی خواہش اور سازش کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا۔ اور برطانوی حکمران بالآخر یہی حسرت دل میں لیے ۱۹۴۷ء میں یہاں سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہوگئے۔

دینی مدارس کی جدوجہد کے نتائج و ثمرات کے حوالہ سے اگر معاشرے میں ان مدارس کے اجتماعی کردار کا تجزیہ کیا جائے تو تمام تر خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود اس کی شکل کچھ اس طرح سامنے آتی ہے کہ:

  • لارڈ میکالے نے مسلمانوں کی نئی نسل کو ذہنی لحاظ سے انگریز کا غلام بنانے اور نوآبادیاتی فرنگی نظام کے کل پرزوں کی شکل میں ڈھالنے کے لیے جس نظامِ تعلیم کی بنیاد رکھی تھی اس کے مقابلے میں دینی مدارس ایک مستحکم اور ناقابل شکست متوازی نظام تعلیم کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اور اس طرح فرنگی تعلیم و ثقافت سے محفوظ رہنے کی خواہش رکھنے والے غیور مسلمانوں کو ایک مضبوط نظریاتی اور تہذیبی حصار میسر آگیا۔
  • جدید عقل پرستی کی بنیاد پر دینی عقائد و روایات سے انحراف، انکارِ ختم نبوت، انکارِ حدیث اور اس قسم کے دیگر اعتقادی اور مذہبی فتنوں نے سر اٹھایا تو یہ دینی مدارس پوری قوت کے ساتھ ان کے سامنے صف آراء ہوگئے اور ملت اسلامیہ کی راسخ الاعتقادی کا تحفظ کیا۔
  • فرنگی تہذیب اور یورپی ثقافت کی طوفانی یلغار کا سامنا کرتے ہوئے دینی مسلم ثقافت کو ایک حد تک بچانے اور بطور نمونہ باقی رکھنے میں ان مدارس نے کامیابی حاصل کی۔
  • قرآن و سنت کے علوم، عربی زبان اور دینی لٹریچر کو نہ صرف زمانہ کی دستبرد سے بچا کر رکھا بلکہ ملک میں ان علوم کے حاملین اور مستفیدین کی ایک بڑی تعداد پیدا کر کے اگلی نسلوں تک انہیں من و عن پہنچانے کا اہتمام کیا۔
  • دینی مدارس کے اس نظام نے تحریک آزادی کو شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا حسین احمدؒ مدنی، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا عبد الرحیم پوپلزئیؒ، مولانا تاج محمودؒ امروٹی، مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، مولانا عبد القادر قصوریؒ اور صاحبزادہ سید فیض الحسن، جبکہ تحریک پاکستان کو علامہ شبیر احمدؒ عثمانی، مولانا ظفر احمدؒ عثمانی، مولانا اطہر علیؒ، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی، اور مولانا محمد ابراہیمؒ سیالکوٹی جیسے بے باک، مخلص اور جری راہنماؤں کی صورت میں ایک مضبوط نظریاتی قیادت مہیا کی جن کے ایثار، قربانی اور جدوجہد نے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کیا۔
  • اور اب افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں کمیونزم کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا جائزہ لے لیا جائے جس نے روسی افواج کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کرنے کے علاوہ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں میں دینی بیداری کی لہر دوڑا دی ہے اور روسی استعمار کے آہنی پنجے کو ڈھیلا کر کے مشرقی یورپ پر کمیونزم کی گرفت کو کمزور کر دیا ہے۔ افغانستان کے غیور مسلمانوں کے اس عظیم جہاد کی قیادت کا ایک بڑا اور فیصلہ کن حصہ انہی دینی مدارس کا تربیت یافتہ ہے۔ اور اس طرح افغانستان کو روسی کمیونزم کے لیے ’’پانی پت‘‘ کا میدان بنا دینے کا کریڈٹ دینی مدارس کے اسی نظام کے حصہ میں آتا ہے۔

الغرض دینی مدارس کی یہ عظیم جدوجہد اور اس کے نتائج و ثمرات تاریخ کے صفحات پر اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ کوئی ذی شعور اور منصف مزاج شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ فرنگی اقتدار کے تسلط، مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار اور صلیبی عقائد و تعلیم کی ترویج کے دور میں یہ مدارس ملی غیرت اور دینی حمیت کا عنوان بن کر سامنے آئے اور انہوں نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں سیاست، تعلیم، معاشرت، عقائد اور تہذیب و ثقافت کے محاذوں پر فرنگی سازشوں کا جرأت مندانہ مقابلہ کر کے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کو اسپین بننے سے بچا لیا ۔ اور یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آج اس خطہ زمین میں مذہب کے ساتھ وابستگی اور اسلام کے ساتھ وفاداری کے جن مظاہر نے کفر کی پوری دنیا کو لرزہ براندام کر رکھا ہے، عالم اسباب میں اس کا باعث صرف اور صرف یہ دینی مدارس ہیں۔

تصویر کا دوسرا رخ:

ہمارے دینی مدارس — توقعات، ذمہ داریاں اور مایوسی

   
2016ء سے
Flag Counter