آج طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے حوالہ سے کچھ لکھنا چاہ رہا تھا کہ مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم خان کی وفات کی خبر نے قلم روک لیا۔ اور یہ خبر دل کو غم و اندوہ کی گہرائیوں میں لے گئی کہ تحریک آزادیٔ کشمیر کے نامور راہنما اور پاکستان کی قومی سیاست کے ایک اہم نظریاتی کردار سردار محمد عبد القیوم خان طویل علالت کے بعد ۹۱ برس کی عمر میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سردار صاحب کے ساتھ میرا بہت قریبی تعلق رہا ہے اور میں ان کی تحریکی اور سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کے مختلف مراحل کا عینی گواہ ہوں، بلکہ بعض مراحل میں شریک کار بھی رہا ہوں۔ میں نے پہلی بار انہیں کم و بیش نصف صدی قبل اس وقت دیکھا جب انہوں نے آزادیٔ کشمیر کے لیے ’’مجاہد فورس‘‘ کے نام سے رضا کاروں کی بھرتی کے لیے مہم شروع کر رکھی تھی۔ گوجرانوالہ میں ایک تقریب اسی سلسلہ میں انعقاد پذیر تھی، سردار صاحب مرحوم اس کے مہمان خصوصی تھے، ان کے ایک سرگرم رفیق کار مولانا عبد العزیز راجوروی مرحوم مختلف دینی و سیاسی تحریکات میں ہمارے رفقاء کار میں سے تھے اور ہم جیل کے ساتھی بھی رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے سردار محمد عبد القیوم خان سے خصوصی ملاقات کا موقع ملا، یہ ان کی بھرپور جوانی کا دور تھا، سرمئی رنگ کے ملیشیا کے سوٹ میں ملبوس ان کی سادہ شخصیت نے دل پر اثر کیا، جبکہ ان کی نظریاتی گفتگو نے یہ رنگ گہرا کر دیا، جس کی گہرائی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان کے دور حکومت میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے سردار محمد ایوب خان مرحوم کی تحریک پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو سردار محمد عبد القیوم خان اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ساتھ قلبی محبت دوچند ہوگئی۔
پھر انہیں باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ ’’آئین شریعت کانفرنس‘‘ میں سنا تو ان کے خطاب سے اندازہ ہوا کہ وہ آزادیٔ کشمیر کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ کے نفاذ و ترویج میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کا عملی اظہار انہوں نے اپنے مختلف ادوارِ حکومت میں ریاست آزاد جموں و کشمیر میں نظام اسلام کے نفاذ کے لیے مؤثر اقدامات کے ذریعہ کیا جس کے اثرات آج بھی موجود و مستحکم ہیں۔ آزاد کشمیر میں نفاذ شریعت کے لیے سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم کی جدوجہد، اقدامات اور ان کے اثرات پر ایک مستقل تحقیقی اور تجزیاتی مقالہ کی ضرورت ہے جو صحیح طور پر مرتب ہو جائے تو نفاذ شریعت کی جدوجہد کے کارکنوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کا کوئی باذوق اسکالر اس کام کا بیڑا اٹھائے اور مشاورت کے درجہ میں میری بھی اس میں تھوڑی بہت شرکت ہو جائے۔
سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم کی سیاست آزاد ریاست جموں و کشمیر تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ پاکستان کی قومی سیاست کا بھی ایک متحرک کردار رہے ہیں۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے بانی و قائد چودھری غلام عباس مرحوم کی طرح ان کے جانشین کی حیثیت سے سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم بھی پاکستان کی قومی سیاست میں سرگرم رہے ہیں اور اس طور پر ۱۹۷۷ء میں پاکستان قومی اتحاد کے مرکزی راہنما کی حیثیت سے ان کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ اور یہ دور ان کے ساتھ میری رفاقت کا دور ہے، وہ پاکستان قومی اتحاد کے ’’نو ستاروں‘‘ میں سے تھے۔ یہ اصطلاح پاکستان قومی اتحاد میں شامل نو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی جن میں سردار صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔ جبکہ مجھے پنجاب میں پاکستان قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کئی سال تک خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا۔ اس دوران خلوت و جلوت کی بہت سی ملاقاتوں اور چھوٹے بڑے پروگراموں میں شرکت کے باعث سردار صاحب مرحوم کی شخصیت کے اور بہت سے پہلو سامنے آئے جن کے تذکرہ کا یہ مختصر کالم متحمل نہیں ہے۔ البتہ اس کی ایک جھلکی کے طور پر صرف ایک واقعہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
چند سال قبل آنے والے خوفناک زلزلہ میں ان کے بھائی اور بہت سے دیگر حضرات شہید ہوگئے تھے۔ میں سردار صاحب مرحوم سے تعزیت کے لیے ضلع باغ میں ان کی رہائش گاہ غازی آباد میں حاضر ہوا تو زلزلہ کے نقصانات اور اثرات کا ذکر کرتے ہوئے سردار صاحب یہ کہہ کر رونے لگ گئے کہ زلزلہ کے بھاری جانی و مالی نقصانات پر تو غم و دکھ ہوا ہی ہے، مگر میرے لیے یہ بات زیادہ غم اور رنج کا باعث بنی ہے کہ اتنی بڑی خدائی تنبیہ کے بعد دلوں میں نرمی اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کی جو صورت حال پیدا ہونی چاہیے تھی وہ نظر نہیں آرہی، اور اس قدر خوفناک زلزلہ سے بھی ہمارے معاشرتی رویوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
وہ عمر میں مجھ سے دو عشرے آگے تھے لیکن ان کی دوستانہ بے تکلفی کے باعث میں انہیں اپنا ’’بزرگ دوست‘‘ کہا کرتا تھا۔ اور بعض اہم معاملات میں ان سے مشورہ بھی لیا کرتا تھا۔ گزشتہ سال ان کی بیمار پرسی کے لیے راولپنڈی کے ’’مجاہد ہاؤس‘‘ میں حاضر ہوا تو علالت و کمزوری کے باوجود خاصی دیر گفتگو کرتے رہے۔ سخت جسمانی کمزوری کے عالم میں ان کے ذہنی استحضار اور مضبوط یادداشت نے بہت متاثر کیا۔ مختلف دینی و قومی مسائل پر تبادلہ خیالات ہوا، ان کی خواہش تھی کہ میں کچھ دیر ان کے ساتھ رہوں بلکہ وہ دن ان کے ساتھ گزاروں جس کے لیے وہ بار بار کہتے رہے۔ مگر مجھے ایک اگلے طے شدہ پروگرام پر جانا تھا اس لیے اجازت لے کر روانہ ہوگیا۔
ان کی وفات کی خبر کو عام طور پر اسی حوالہ سے پڑھا جائے گا کہ ایک محب وطن سیاسی راہنما اور سرکردہ کشمیری لیڈر دنیا سے رخصت ہوگیا ہے، لیکن مجھ سے پوچھا جائے تو میرا تاثر یہ ہے کہ عالمی فورم پر کشمیریوں کا ایک جرأت مند اور با شعور ترجمان دنیا سے منہ موڑ گیا ہے۔ اور پاکستان کی قومی سیاست ایک نظریاتی، مدبر، غیرت مند اور حوصلہ مند راہنما سے محروم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور ان کے فرزند و جانشین سردار عتیق احمد خان کو اپنے خاندان و رفقاء کے ہمراہ اپنے عظیم باپ کی روایات کو زندہ رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔