خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

   
۸ و ۹ مارچ ۲۰۰۶ء

برصغیر کے نامور محقق و مؤرخ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے اپنے مقالہ ’’تعصب اور اسلام‘‘ میں ایک مسیحی مؤرخ کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب مسلمانوں نے مصر کا مشہور شہر سکندریہ فتح کیا تو وہاں کی مسیحی آبادی سے یہ معاہدہ طے پایا کہ ان کی عبادت گاہوں سے تعرض نہیں کیا جائے گا اور کنیساؤں میں جو بت اور مجسمے نصب ہیں انہیں بھی نہیں چھیڑا جائے گا۔ لیکن اس کے تھوڑے عرصے بعد ایسا ہوا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ایک مجسمے یا تصویر پر کسی نے نشانہ بازی کر کے اس کی ایک آنکھ پھوڑ دی۔ اس پر مسیحی آبادی میں ہیجان پیدا ہوا اور مسیحی رہنماؤں نے اس کے بدلے کا مطالبہ کیا۔ مجسمے یا تصویر کی آنکھ میں تیر مارنے والے شخص کا علم نہ ہو سکا کہ وہ کون ہے، اس لیے حضرت عمرو بن العاصؓ نے امیر لشکر کی حیثیت سے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مسیحی رہنماؤں سے کہا کہ وہ اس کی ہر طرح تلافی کے لیے تیار ہیں۔ مسیحی رہنماؤں نے کہا کہ اس کی تلافی اسی طرح ہو سکتی ہے کہ حضرت محمدؐ کی اسی طرح کی تصویر یا مجسمہ بنایا جائے اور ہم اس کی آنکھ پھوڑ دیں، بدلے کی یہی صورت ممکن ہے۔

حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ ایسا تو ہرگز نہیں ہو سکتا، البتہ وہ اس کے عوض اپنی آنکھ کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا خنجر ایک مسیحی رہنما کے ہاتھ میں دیا اور اپنی آنکھ آگے کر دی۔ روایت کے مطابق اس مسیحی رہنما نے خنجر اٹھایا اور ہاتھ آگے بڑھایا مگر عین وقت پر اس کا ہاتھ کپکپایا اور خنجر اس کے ہاتھ سے نیچے گر گیا جس پر مسیحی رہنماؤں نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔

کسی مسلمان نے یہ حرکت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے لیے (معاذ اللہ) نہیں کی تھی اس لیے کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسٰیؑ بھی اسی طرح قابل احترام اور مرکزِ عقیدت ہیں جس طرح جناب رسول اللہؐ کی حرمت و تقدس مسلمانوں کے عقیدے کا حصہ ہے۔ البتہ مجسمہ اور تصویر چونکہ مسلمانوں کے نزدیک جائز نہیں ہے، خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے کسی پیغمبر کی تصویر یا مجسمہ بنانا پیغمبرانِ خدا کی توہین شمار ہوتی ہے اس لیے اس نے اپنے خیال میں تصویر یا مجسمے کو بے حرمتی تصور کرتے ہوئے یہ کارروائی کی ہوگی۔ لیکن اس سے چونکہ مسیحی آبادی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے اور انہیں اس حرکت پر غصہ آیا تھا اس لیے حضرت عمرو بن العاصؓ نے ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف امیر لشکر ہونے کی حیثیت سے س کی ذمہ داری کو قبول کیا بلکہ انہیں ان کے خیال کے مطابق انصاف مہیا کرنے کے لیے اپنی آنکھ کی قربانی دینے کو تیار ہوگئے۔

لیکن آج جب ڈنمارک کے ایک اخبار ’’جولینڈر پوسٹن‘‘ کی طرف سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر پورا عالم اسلام سراپا احتجاج ہے اور دنیا کے طول و عرض میں مسلمان اپنے غم و غصے او رجذبات کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں تو انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا بلند آہنگی کے ساتھ دعویٰ کرنے والا مغرب سرے سے اسے جرم تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں ہے۔ اور اظہار رائے کی آزادی کے پر فریب نعرے کے پردے میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی مذموم حرکت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بلکہ الٹا مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے کہ وہ برداشت سے کام نہیں لے رہے اور ضرورت سے زیادہ جذبات کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

جہاں تک برداشت یا عدم برداشت کا تعلق ہے، اپنے محبوب پیغمبرؐ اور نجات دہندہ کی توہین اور گستاخی کو گوارا نہ کرنے کو ’’عدم برداشت‘‘ سے تعبیر کرنا فریب کاری اور مغالطہ آفرینی کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ یہ طعنہ دینے والے خود بہت سے معاملات میں ’’عدم برداشت‘‘ کا شکار ہیں اور ان کے ہاں بھی اظہارِ رائے کو اس درجے کی آزادی حاصل نہیں ہے کہ جس کا جب جی چاہے کسی کی عزت اور جذبات کی پروا کیے بغیر جو چاہے کہہ دے اور جو چاہے لکھ دے۔ یہ آزادی ڈنمارک سمیت کسی بھی ملک میں کسی کو حاصل نہیں ہے اور ہر ملک میں ایسے قوانین موجود ہیں جو بہت سی شخصیات، اداروں اور علامات کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

کسی ملک کے دستور کو چیلنج کرنے، قومی پرچم کی بے حرمتی کرنے، قومی ہیروز کا تمسخر اڑانے اور ملکی وقار و عزت کو مذاق کا نشانہ بنانے کی کہیں بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ عدالت کی توہین پر سزا کے قوانین موجود ہیں، حتیٰ کہ ایک عام شہری کو اگر کسی کی بات یا حرکت سے اپنی عزت مجروح ہوتی محسوس ہو تو اسے ہتکِ عزت کی تلافی کے لیے عدالت سے رجوع کا حق ہوتا ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ان تمام حرمتوں اور عزتوں کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کے باوجود اگر ڈنمارک اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں کو کسی شخصیت کی ہتکِ عزت پر قانون کو حرکت میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ اور اگر کسی قوم کے جذبات کے احترام کو قانونی تحفظ دینے کو ان کا سسٹم قبول نہیں کرتا تو وہ مسلمان قوم ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حالانکہ خود یورپی ممالک کے قوانین اور یورپی عدالتوں کے متعدد فیصلوں میں مذہبی جذبات کے احترام اور انہیں مجروح کرنے کو جرم تسلیم کیا گیا ہے اور کسی بھی قوم کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کے جذبات کا احترام کیا جائے گا اور اس کی دل آزاری سے گریز کیا جائے گا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق وزیرخارجہ جناب آغا شاہی نے ایک حالیہ مضمون میں ایسے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیا ہے جن میں سے ایک کیس بعنوان ’’ڈیوبوسکا اور سکپ بنام پولینڈ‘‘ میں عدالت کے فیصلے کا یہ اقتباس نقل کیا گیا ہے کہ

’’جن باتوں کو مذہب یا عقیدے کی رو سے مقدس یا قابل تعظیم سمجھا جاتا ہو ان کی متشدد اور اشتعال انگیز تصویر کشی کو دفعہ ۹ کے تحت حاصل شدہ حقوق کی نفی اور خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔ حکومت کا یہ مثبت فرض یا مثبت ذمہ داری ہے کہ اقلیتوں کے پختہ مذہبی عقائد کے تحفظ کا اہتمام کرے اور انہیں ہر قسم کے حملوں سے بچائے۔ قانون کے تحت حاصل شدہ کسی بھی مذہبی حق کا استعمال اگر کسی فرد کے عقائد کی توہین کرتا ہو تو اس کی حدود کا تعین کرنے کے لیے ریاست کی مداخلت جائز ہوگی۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کے باہمی تعلقات میں مذہبی عقائد کے حق کے احترام کو بھی یقینی بنائے، اور عوام اور ریاستی حکام کے باہمی مراسم کے تناظر میں بھی آزادیٔ مذہب کے حق کو محترم جانے۔ اس ریاستی فرض کا ادراک برطانیہ میں ۔۔۔ کے مذاہب کے فروغ میں (یورپی) کنونشن کو ممد بنا سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ مذکورہ فروغ کے عمل میں (یورپی) کنونشن کو اہم کردار سونپا جا سکتا ہے۔‘‘

یہ ایک یورپی عدالت کے ریمارکس ہیں جن کی رو سے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کی مقدس شخصیات اور امور کے احترام کو یقینی بنائے۔ اور اگر کسی کا مذہبی حق کسی دوسرے شخص کے عقائد کی توہین کا باعث بنتا ہو تو اس میں مداخلت کر کے اپنا فرض ادا کرے۔ ایک عدالتی فیصلے کا حصہ ہونے کے علاوہ یہ بات ’’کامن سینس‘‘ کی بھی ہے کہ کسی حکومت کی صرف یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کچھ لوگوں کی آزادی اور حقوق کا تحفظ کرے بلکہ یہ بھی اس کے فرائض میں شامل ہے کہ اگر کچھ افراد کی آزادی دوسرے لوگوں کے حقوق اور آزادی پر اثر انداز ہو رہی ہے تو اس میں مداخلت کرے اور ان میں توازن برقرار رکھے۔

اس لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی مذموم اشاعت پر ڈنمارک کی حکومت کا طرزِ عمل صرف مسلمانوں کے جذبات اور عقائد کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہی نہیں بلکہ مسلمہ حکومتی ذمہ داریوں اور یورپی قوانین سے بھی انحراف ہے۔ دنیا بھر کی مسلم حکومتوں اور عالم اسلام کے بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کا نوٹس لیں اور ڈنمارک اور اس کی ہمنوا یورپی حکومتوں کو اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کے لیے آمادہ کرنے کی ہرممکن صورت اختیار کریں۔

دنیا بھر میں مسلمانوں نے آنحضرتؐ کے ناموس و حرمت کے تحفظ اور بعض یورپی اخبارات کی بے ہودگی کی مذمت کے لیے جو مظاہرے کیے ہیں وہ ان کا فطری حق اور جناب رسول اکرمؐ کے ساتھ ان کی قلبی محبت کا تقاضا ہیں جس سے ایک بار پھر دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس دور میں بھی مسلمان اپنے محبوب پیغمبرؐ او رنجات دہندہ کے ساتھ نہ صرف عقیدت و محبت رکھتے ہیں بلکہ ان کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ یہ صرف جذباتیت نہیں بلکہ اپنے ایمان اور عقیدے کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ کا اظہار ہے۔ اور یہ بے لچک کمٹمنٹ صرف مسلمانوں کا خاصا نہیں بلکہ ہر قوم کی کسی نہ کسی کے ساتھ اس درجے کی کمٹمنٹ موجود ہے۔ آج امریکہ دنیا میں جو کچھ کر رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے اور امریکہ کو اس پر ہر طرف سے جس مخالفت اور طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ یہ سب کچھ امریکہ کے لیے کر رہے ہیں اور وہ کسی کی مخالفت یا طعنہ زنی کی پروا کیے بغیر امریکہ اور امریکی قوم کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

یہ ’’کسی مقصد کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے‘‘ کا جذبہ اور کمٹمنٹ امریکہ کے پاس بھی ہے، دیگر اقوام بھی اس میں کسی سے پیچھے نہیں، اور یہی جذبہ و کمٹمنٹ مسلمانوں کے پاس بھی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دوسری قوموں کی کمٹمنٹ اور جذباتیت قوم و ملک کے حوالے سے ہے مگر مسلمانوں کی یہی عقیدت و جذباتیت اپنے دین اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبرؐ کے ساتھ ہے، جو مغربی اقوام کو اس لیے ہضم نہیں ہو رہی کہ ان کے خیال میں مسلمانوں کو بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے خدا، رسول، دین اور وحیٔ آسمانی سے دست بردار ہوجانا چاہیے۔ جس کے لیے مغرب کی دو صدیوں کی طویل محنت اور ہر ممکن تگ و دو کے باوجود مسلمان تیار نہیں ہو پا رہے اور مغرب اس پر جھنجھلا کر جناب رسول اکرمؐ کی کھلم کھلا توہین اور مسلمانوں کے دینی عقائد اور جذبات کا مذاق اڑانے پر اتر آیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب اگر وحیٔ آسمانی اور پیغمبروں کی تعلیمات کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہوا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ آسمانی تعلیمات کا کوئی مستند اور محفوظ ذخیرہ اس کے پاس موجود نہیں تھا جس کے نتیجے میں چرچ اور پوپ کو مذہب کی نمائندگی اور تشریح میں فیصلہ کن اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ جبکہ مغرب کے مظلوم عوام پر صدیوں تک بادشاہ اور جاگیرداروں کے مظالم و درندگی کے خلاف عوام کا ساتھ دینے کی بجائے چرچ اور پوپ نے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھی اور پشت پناہ کا کردار اختیار کر لیا تھا۔ چنانچہ جب مغرب کے مظلوم عوام نے بادشاہ اور جاگیردار کے جبر و تشدد اور وحشیانہ مظالم سے نجات حاصل کی تو اس کے ساتھ ہی ان کے ساتھی اور پشت پناہ مذہب کا جوا بھی گلے سے اتار پھینکا۔ لیکن اس معاملے میں مسلمانوں کو اپنے اوپر قیاس کر کے مغرب خوفناک غلطی کر رہا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات و ارشادات مستند اور محفوظ حالت میں موجود ہیں جس کی وجہ سے ان میں کسی پوپ کے جنم لینے کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے۔

مسلمانوں میں آج بھی دین کی تشریح میں فیصلہ کن اتھارٹی کی حیثیت اشخاص و افراد کی بجائے دلیل و استدلال کو حاصل ہے۔ پھر مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کوئی مرحلہ ایسا نہیں آیا جب حکمران اس درجے کے ظالم ہوگئے ہوں جیسے یورپ کے قرونِ مظلمہ کے مطلق العنان بادشاہ تھے اور مذہب نے عوام کا ساتھ دینے کی بجائے ظالم حکمرانوں کی پشت پناہی کا کردار قبول کر لیا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس مسلمانوں کے دینی رہنماؤں اور علمائے کرام کی ایسی عظیم روایات تاریخ کا ایک شاندار باب ہیں کہ انہوں نے حق کی حفاظت اور عوام کے حقوق کے لیے قربانیاں پیش کیں اور جیلوں کو آباد کرنے کے ساتھ ساتھ جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے۔ اس لیے مغرب اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے تاریک ماضی کا حوالہ دے کر ان کے روشن ماضی سے دست برداری کے لیے تیار کر لے گا تو یہ اس کی غلط فہمی اور بھول ہے۔

بہرحال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ کے بعض اخبارات میں جناب رسول اللہؐ کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور اس پر مغربی حکومتوں کا طرزِ عمل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی اس فکری اور ثقافتی یلغار کا حصہ ہے جس کا مقصد مسلمان کو ان کے دین سے دستبرداری اور مغربی فکر و ثقافت کو قبول کرنے پر تیار کرنا ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے مسلم دانشوروں سے ہماری یہ گزارش ہے کہ وہ اس صورتحال کا صحیح طور پر ادراک کریں اور اپنے دین و ثقافت کے تحفظ کے لیے مؤثر عملی کردار ادا کریں۔

  • مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغرب کے نظام و فلسفے کے لیے نرم گوشہ ترک کر کے اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی کے لیے خود کو تیار کریں اور اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس طلب کر کے اس کے لیے ٹھوس لائحہ عمل طے کریں۔
  • اربابِ علم و دانش کا فرض ہے کہ وہ مغرب کی اس فکری و ثقافتی یلغار کا دلائل اور حقائق کی روشنی میں تجزیہ کر کے مسلمان عوام کی اس سلسلے میں راہنمائی کریں اور علم و دانش کے ساتھ مغربی فلسفے کا مقابلہ کریں۔
  • علماء کرام، خطباء اور ذرائع ابلاغ کے دیگر طبقات کو چاہیے کہ وہ مسلم عوام کو صحیح معلومات اور دینی و عقلی دلائل سے بہرہ ور کریں اور انہیں معاملات سے باخبر رکھیں۔
  • یونیورسٹیوں، کالجوں، سکولوں اور دینی مدارس کے اساتذہ نئی نسل کو شعوری مسلمان اور جدید ضروریات و تقاضوں سے باخبر شہری کے طور پر تیار کریں۔
  • سیاسی جماعتیں مغرب کے خلاف مسلمانوں کی بیداری اور عوامی دباؤ کو منظم کرنے کے لیے کام کریں اور اس کے لیے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دیں۔
  • تاجروں اور صنعت کاروں کو چاہیے کہ وہ مسلمان ممالک کے ساتھ تجارت کو بڑھائیں اور اپنی تجارت و صنعت کے معیار کو اس حد تک بہتر بنائیں کہ عالمی تجارت میں صحیح مقام حاصل کر سکیں۔
  • مسلم ممالک سائنس و ٹیکنالوجی، خاص طور پر عسکری ٹیکنالوجی اور وسائل کے حوالے سے مغرب اور اس کے ہمنوا گنتی کے چند ممالک کی اجارہ داری کو تحفظ دینے والے نام نہاد بین الاقوامی قوانین کو چیلنج کریں اور مغرب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیش رفت کی حکمت عملی طے کریں۔

ہمیں امید ہے کہ اگر عالم اسلام کے تمام طبقات اپنے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر پہچانتے ہوئے انہیں ادا کرنے کی کوششیں کریں گے تو یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت و عقیدت کا صحیح اظہار ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter