متحدہ مجلسِ عمل کی کامیابی اور ذمہ داری

   
نومبر ۲۰۰۲ء

حالیہ انتخابات میں دینی جماعتوں کے مشترکہ محاذ ’’متحدہ مجلسِ عمل‘‘ نے خلافِ توقع کامیابی حاصل کی ہے اور وہ قومی اسمبلی میں تیسری بڑی سیاسی قوت کی حیثیت مل جانے کے علاوہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اکثریتی پارٹی کی پوزیشن سے بھی بہرہ ور ہو گئی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ متحدہ مجلسِ عمل کو یہ کامیابی افغانستان کے حوالے سے اس کے جرأتمندانہ موقف اور دینی جماعتوں کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جانے کی وجہ سے ملی ہے۔

متحدہ مجلسِ عمل نے ملک کی روایتی سیاسی قوتوں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے جداگانہ سیاسی تشخص کی بنیاد پر یہ مشترکہ محاذ قائم کیا ہے، اور افغانستان پر امریکی حملہ کی شدید مذمت کے ساتھ پاکستان کے داخلی امور میں امریکہ کی مسلسل اور بے جا مداخلت پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے تحفظ اور قومی خودمختاری کی بحالی کے عزم کا اظہار کیا ہے، اور اسی نعرہ پر دینی جماعتوں کے اس متحدہ محاذ کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس قدر پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے عوام کے دلی جذبات و احساسات کیا ہیں اور وہ جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی عزائم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

ہم اس کامیابی پر متحدہ مجلسِ عمل کے قائدین کو مبارکباد دیتے ہوئے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ کامیابی ان کے لیے ایک عظیم امتحان کی حیثیت بھی رکھتی ہے اور ان پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ

  • وہ اپنے منشور اور انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لیے سنجیدگی کے ساتھ محنت کریں،
  • باہمی اتحاد کو قائم رکھتے ہوئے اپنے عمل اور کردار کے ساتھ واضح کر دیں کہ دینی قیادت قوم کی سیاسی قیادت اور نظامِ حکومت چلانے کی اہلیت بھی رکھتی ہے، اور اسلام کے عادلانہ نظام کو آج کے دور میں اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت متحدہ مجلسِ عمل کی قیادت اور منتخب ارکان کو اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق دیں، اور اپنے عمل و کردار کے ساتھ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو کامیابی کی طرف آگے بڑھانے کے مواقع اور اسباب مہیا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter