اسلامی جمہوریہ پاکستان یا صرف پاکستان؟

   
۱۷ فروری ۲۰۰۰ء

بارہ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کی طرف سے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ملک کا نظم و نسق سنبھالنے اور ۱۹۷۳ء کا دستور معطل کرنے کے اعلان کے بعد ملک کے دینی حلقے مسلسل ایک تشویش سے دوچار ہیں اور مختلف حوالوں سے اس کا اظہار ہو رہا ہے کہ دستور کی معطلی کے بعد دستور کی اسلامی دفعات بالخصوص قرارداد مقاصد اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ سے متعلقہ شقوں کی کیا حیثیت باقی رہ گئی ہے؟

یہ تشویش اس پس منظر میں اور زیادہ شدت اختیار کر جاتی ہے کہ بین الاقوامی سیکولر لابیاں اور ادارے ایک عرصہ سے دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کے خلاف رائے کا اظہار کرتے آرہے ہیں اور پاکستان پر بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے جن مسائل کے حوالہ سے دباؤ موجود ہے ان میں دستور پاکستان کی اسلامی دفعات اور بعض مروجہ اسلامی قوانین کے علاوہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے دستوری فیصلہ کی شقیں بھی شامل ہیں۔ جبکہ قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا طاہر احمد گزشتہ پندرہ برس سے لندن میں بیٹھے دستور پاکستان کے خلاف زہر افشانی کر رہے ہیں اور کئی بار کھلے بندوں کہہ چکے ہیں کہ انہیں اس دستور کے خاتمہ کا انتظار ہے۔

۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات کے بارے میں دینی حلقوں کی تشویش کے اس پس منظر کے ساتھ ساتھ بارہ اکتوبر کے بعد پیش آنے والے بعض واقعات بھی ایسے ہیں جن سے اس تشویش میں اضافہ ہوا ہے اور اب اس میں اضطراب کا پہلو نمایاں ہوتا جا رہا ہے، مثلاً:

  • بارہ اکتوبر کے اس اعلان کے بعد ملک میں قادیانیوں کی سرگرمیوں اور این جی اوز کے دائرہ کار میں وسعت دکھائی دے رہی ہے اور یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ یہ دونوں حلقے دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کے خلاف ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں۔
  • اسی طرح چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے ملک کا نظام چلانے کے لیے جو ٹیم بنائی ہے اس کے متعدد افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق اسی قسم کے بین الاقوامی اداروں، لابیوں اور این جی اوز سے ہے جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
  • جبکہ بعض حضرات کے قادیانی ہونے کے بارے میں بھی افواہیں منظر عام پر آرہی ہیں۔
  • اور حال ہی میں اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان سے پی سی او کے تحت جو نیا حلف لیا گیا ہے اس میں ملک کے دستوری نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی بجائے صرف ’’پاکستان‘‘ کی وفاداری کا حلف شامل ہے اور حلف نامہ سے ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں جس سے ملک کی نظریاتی اسلامی حیثیت بظاہر مشکوک ہو کر رہ گئی ہے۔

اس صورتحال پر غور و خوض کے لیے ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن آف پاکستان کے چیئرمین چوہدری ظفر اقبال ایڈووکیٹ نے چھ فروری کو لاہور میں چند دینی جماعتوں کے رہنماؤں اور قانونی ماہرین کا ایک مشاورتی اجلاس طلب کیا جس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی جبکہ دیگر شرکاء میں مولانا سید عطاء المہیمن شاہ بخاری، چوہدری نذیر احمد غازی ایڈووکیٹ، ملک رب نواز ایڈووکیٹ، مولانا سید کفیل شاہ بخاری، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی، حاجی عبد اللطیف خالد چیمہ، چوہدری ثناء اللہ بھٹہ اور دیگر حضرات بھی شامل ہیں۔

اجلاس میں شرکاء کی طرف سے جن خدشات کا اظہار کیا گیا ان میں سے بعض کا تذکرہ قارئین کی معلومات کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے۔

مثلاً ایک قانون دان دوست نے کہا کہ ملک کی پچاس سالہ دستوری جدوجہد کے نتیجے میں جن امور پر قوم کا اجماع منعقد ہوا ہے ان میں یہ بات شامل ہے کہ ملک کے سربراہ یعنی صدر مملکت اور وزیراعظم دونوں مسلمان ہوں گے اور وہ اپنے عہدہ کا حلف اٹھاتے ہوئے حلف نامہ میں عقیدہ ختم نبوت سے وفاداری کا اظہار کریں گے۔ جبکہ چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے عملاً وزیراعظم کا منصب چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے سنبھال لیا ہے اور یہ مقام انہیں چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر حاصل ہوا ہے جس کے لیے مسلمان ہونا شرط نہیں ہے اور انہوں نئی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے کوئی نیا حلف بھی نہیں لیا۔ اس لیے ملک کے منتظم اعلیٰ کا مسلمان ہونا اور عقیدہ ختم نبوت کے ساتھ اس کا وفادار ہونا مشکوک ہو کر رہ گیا ہے۔

اسی طرح اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے حلف نامہ میں ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کا جملہ ملک کے نام سے الگ کر دیا گیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پی سی او کی رو سے پاکستان کی حیثیت ایک سیکولر ملک کی ہوگئی ہے اور اس حوالہ سے بین الاقوامی حلقوں کی خواہش کم از کم پی سی او کی حد تک پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ ۱۹۷۷ء میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے دستور کو معطل کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جس پر ملک کے دینی حلقوں نے جنرل موصوف کو توجہ دلائی تو انہوں نے دستور کی اسلامی دفعات اور ختم نبوت سے متعلقہ شقوں کو معطل ہونے سے مستثنیٰ قرار دے دیا تھا۔ بلکہ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے تو آئین میں ترمیم کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اسلامی دفعات کو اور زیادہ مضبوط کیا تھا جس کے تحت قراردادِ مقاصد کو دستور کے دیباچہ کی بجائے واجب العمل حصہ قرار دیا گیا، مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی اور عقیدہ ختم نبوت کے دستوری فیصلے پر عملدرآمد کے لیے امتناع قادیانیت آرڈیننس نافذ کیا گیا۔

اجلاس کے بعض شرکاء کی رائے میں اب بھی اسی نوعیت کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور اس کا حل بھی وہی ہے کہ چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف ملک کے دینی حلقوں کی اس تشویش و اضطراب کو محسوس کریں اور پی سی او کے ایک مستقل فرمان کے ذریعے ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات بالخصوص قرارداد مقاصد، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی دفعات اور ملک کے دستوری نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی بحالی کا اعلان کریں تاکہ اس سلسلہ میں پائے جانے والے شبہات کا خاتمہ ہو۔

اجلاس کے شرکاء نے ملک کی دینی جماعتوں کے قائدین سے یہ گزارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس مسئلہ کی اہمیت کا احساس کریں اور ملک کی اسلامی نظریاتی حیثیت اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے مشترکہ طور پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کریں۔ امید ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور ملک کے دینی حلقے دونوں اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے قوم کو اعتماد میں لیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter