ابلاغیات اور ہماری اخلاقی ذمہ داریاں

   
مرکز صیانۃ المسلمین، لاہور
۲۳ مارچ ۲۰۱۳ء

(مرکز صیانۃ المسلمین لاہور میں مجلس صیانۃ المسلمین پاکستان کے سالانہ روحانی اجتماع کی ایک نشست سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجلس صیانۃ المسلمین پاکستان کے سالانہ اجتماع میں حاضری میرے لیے سعادت کی بات ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی نسبت اتنی بلند و بالا ہے کہ نسبتیں بھی اس کے سامنے سر نیاز خم کر دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نسبتوں پر قائم رہنے کی توفیق دیں اور دنیا و آخرت میں ان نسبتوں کی برکات سے فیضیاب کریں، آمین یا رب العالمین۔

حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی محنت انسان کی روح، قلب اور نفس پر ہوتی ہے اور وہ انسان کی اخلاقی، دینی اور روحانی تربیت کر کے اسے انسانی معاشرے کا ایک اچھا فرد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصلاحِ نفس تصوف و سلوک کی دنیا کا سب سے بڑا محاذ ہے اور یہ ہر دور میں انسانی معاشرے کی اہم ضرورت رہا ہے۔ آج کی یہ مجلس بھی اسی حوالہ سے ہے اس لیے میں اپنی اصلاح کے لیے اور آپ حضرات کو توجہ دلانے کے لیے معاشرے کی ایک اہم خرابی اور انسانی اخلاقیات کی ایک بڑی بیماری کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہے خواہ مخواہ بدگمانی کرنا اور سنی سنائی بات کو تحقیق کے بغیر آگے چلا دینا۔ ان دونوں باتوں سے معاشرے میں فساد پھیلتا ہے، جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔ یہ بیماریاں ہمارے معاشرے میں ہر دور میں رہی ہیں اور آج بھی موجود ہیں بلکہ بڑھتی جا رہی ہیں لیکن دو حوالوں سے آج ان کا تذکرہ آج بطور خاص کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

  • ایک یہ کہ بدگمانی اور سنی سنائی بات کو پھیلانا پہلے بھی موجود رہا ہے لیکن اب ان کا دائرہ اس لحاظ سے زیادہ پھیل رہا ہے کہ میسج سسٹم اور پٹی سسٹم نے بات کو پھیلانے کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ نجی دائرے میں موبائل میسج سسٹم اور اجتماعی ماحول میں ٹی وی کے پٹی سسٹم نے ابلاغ کے امکانات بہت سے زیادہ پھیلا دیا ہے، اس لیے ان معاشرتی خرابیوں کے نقصانات اور تباہ کاریوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک شخص کو موبائل پر کوئی میسج موصول ہوا ہے تو اس نے یہ نہیں دیکھنا کہ اس میں بتائی گئی بات درست بھی ہے یا نہیں، بلکہ اگر بات اس کے مزاج اور ذوق کے مطابق ہے تو اس نے کسی تحقیق اور سوچ بچار کے بغیر اسے آگے بیس تیس افراد کو بھجوا دینا ہے، اور پھر اس سے آگے سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اسی طرح کسی ٹی وی چینل کے نیوز ایڈیٹر کے پاس کوئی خبر آئی ہے تو وہ یہ تحقیق کیے بغیر کہ اس خبر کی حقیقت کیا ہے، اسے پٹی کی صورت میں چلا دے گا جس سے وہ خبر ملک بھر میں بلکہ بسا اوقات دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے اور کئی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک پٹی ٹی وی پر چلی ہے اور اس پر بہت کچھ ہو گیا ہے بعد میں پتہ چلا یہ کہ خبر درست نہیں تھی (یا حقیقت میں بات کچھ اور تھی)۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں پاکستان میں بدگمانی، الزام تراشی، سنی سنائی باتوں کو پھیلانے اور جھوٹ کو عام کرنے کا سیزن شروع ہو گیا ہے۔ میں انتخابات کو جھوٹ، بہتان طرازی، الزام تراشی اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے کے کاروبار کا سیزن کہتا ہوں۔ ہر کاروبار کا کوئی نہ کوئی سیزن ہوتا ہے اسی طرح اس کاروبار کا بھی سیزن ہے۔ جیسے رمضان المبارک نیکیوں کا سیزن ہے، رحمتوں کا سیزن ہے اور برکتوں کا سیزن ہے، اسی طرح الیکشن اور انتخابی مہم باہمی الزام تراشیوں کا سیزن ہے، جھوٹ اور بہتان کا سیزن ہے اور ایک دوسرے کو بدنام کرنے کا سیزن ہے۔

اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالہ سے اسلامی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسوۂ سے راہنمائی کی کچھ باتیں عرض کر دی جائیں اور اس سلسلہ میں چند واقعاتی جھلکیاں آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

بخاری شریف کی روایت ہے، امیر المؤمنین حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبویؐ سے فاصلہ پر مدینہ منورہ کے بلائی علاقے میں رہائش پذیر تھا، میرے پڑوس میں ایک انصاری صحابیؓ رہتے تھے، ہم دونوں نے آپس میں باری تقسیم کر رکھی تھی، ایک دن وہ اپنے کام کاج میں جاتے تھے اور میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد نبوی میں حاضری دیتا تھا اور شام کو واپس آ کر اس انصاری صحابیؓ کو دن بھر کے واقعات اور حضور علیہ السلام کے ارشادات و ہدایات سے آگاہ کر دیتا تھا۔ جبکہ دوسرے روز میں اپنے کاروبار میں جاتا تھا اور وہ مسجد نبویؐ میں حاضری دے کر شام کو مجھے اس دن کے واقعات بتا دیتا تھا۔ اس طرح ہم اپنا کام کاج بھی کر لیتے تھے اور جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضری کا تسلسل بھی قائم رہتا تھا۔ ایک دن شام کو میرے وہ پڑوسی واپس آئے اور زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ آواز بھی دیتے جاتے تھے کہ ’’اثم ھو أنا ئم ھو؟‘‘ کیا وہ اندر ہے؟ کیا وہ سو تو نہیں گیا؟ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں گھبرایا ہوا باہر نکلا، ان دنوں ہمیں خبریں مل رہی تھیں کہ غسانی قبیلہ کے لوگ مدینہ منورہ پر حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں، میں نے دروازہ کھولتے ہی پوچھا، ’’أجاء الغسان؟‘‘ کیا غسانی قبیلے نے حملہ کر دیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ اس سے بھی بڑا حادثہ ہو گیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے۔ یہ واقعتاً ایک بڑے حادثے کی خبر تھی اور میرے لیے یہ دوہرا حادثہ تھا کہ ان ازواج میں میری بیٹی حضرت حفصہؓ بھی تھیں۔ بڑی مشکل سے رات گزاری، صبح میں سب سے پہلے بیٹی کے گھر گیا، وہ اپنے حجرے میں بیٹھی رو رہی تھیں، میں نے پوچھا کیا نبی اکرمؐ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اکرمؐ اپنے بالا خانے میں بیٹھے ہیں اور ناراض ضرور ہیں مگر یہ معلوم نہیں کہ طلاق دے دی ہے یا نہیں؟

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں مسجد میں گیا تو وہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور منبر کے اردگرد بیٹھے لوگ رو رہے تھے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بالا خانے میں تھے، دروازہ بند تھا اور باہر ایک خادم بیٹھا تھا۔ میں نے اس خادم سے عرض کیا کہ اندر جا کر عرض کرو کہ عمرؓ آیا ہے، اس نے جا کر عرض کیا اور واپس آ کر بتایا کہ آپؐ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں مسجد میں جا کر منبر کے پاس بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں بے چینی بڑھی تو پھر میں نے خادم سے کہا وہ اندر گیا اور باہر آ کر کہا کہ حضورؐ نے خاموشی اختیار فرمائی ہے۔ تین بار ایسا ہوا کہ خادم نے میرے لیے اجازت طلب کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ میں پھر آ کر منبر کے پاس بیٹھ گیا، اتنے میں اس خادم نے آ کر کہا حضورؐ آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں حجرے میں گیا تو نبی اکرمؐ ایک تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے آرام فرما رہے تھے، میں نے سلام عرض کیا اور کھڑے کھڑے سوال کیا کہ ’’أطلقت نسائک؟‘‘ کیا آپ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’لا‘‘۔ میں نے وہیں سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور لوگوں کو بتایا کہ یہ خبر غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو طلاق دے دی ہے، پھر میں نے آپؐ سے کچھ اور باتیں بھی کہیں۔

مسلم شریف کی روایت کے مطابق حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب لوگوں کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں، اگر وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر ذمہ دار لوگوں کے سامنے پیش کریں تو ’’لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم‘‘ تحقیق و استنباط والے حضرات اس خبر کی حقیقت کو معلوم کریں۔

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ’’أنا استنبطت‘‘ میں نے اس خبر کی تحقیق کی اور لوگوں کو بتایا کہ جس خبر نے ساری رات مدینہ منورہ کے لوگوں کو پریشان کیے رکھا ہے اور جس خبر کی وجہ سے صبح سے مسجد نبویؐ میں بیٹھے لوگ رو رہے ہیں وہ خبر درست نہیں ہے۔ اس لیے قرآن کریم کی ہدایت ہے کہ کسی خبر کو آگے چلانے سے پہلے اس کی تحقیق کرنی چاہیے اور اس کی حقیقت معلوم کر لینی چاہیے تاکہ بلا وجہ پریشانی سے دوچار نہ ہونا پڑے۔

قرآن کریم میں ایک اور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس کا تذکرہ بخاری شریف میں موجود ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ و عشرہ وغیرہ وصول کرنے کے لیے حضرت ولید بن عقبہؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا۔ وہاں لوگوں کو پتہ چلا تو وہ اپنی روایات کے مطابق ہتھیار بند ہو کر باہر استقبال کے لیے نکلے، ولید بن عقبہؓ نے انہیں ہتھیار سنبھالے ہوئے دور سے دیکھا تو غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ شاید یہ مجھے قتل کرنے کے لیے کھڑے ہیں، وہ انہیں دیکھتے ہی واپس پلٹ گئے اور مدینہ منورہ جا کر لوگوں سے کہا کہ وہ مجھے قتل کرنے لگے تھے میں جان بچا کر وہاں سے آگیا ہوں۔ مدینہ منورہ میں کہرام مچ گیا اور بنو مصطلق سے اس توہین کا بدلہ لینے کے لیے ٹولیاں تیار ہونے لگیں۔ اتنے میں قبیلے کے سردار حضرت حارث بن ضرارؓ جو نبی کریمؐ کے خُسر بزرگوار اور ام المؤمنین حضرت جویریہؓ کے والد محترم تھے، ایک وفد کے ہمراہ یہ معلوم کرنے کے لیے مدینے پہنچے کہ آنحضرتؐ کا نمائندہ ہمیں دیکھ کر واپس کیوں آگیا ہے؟ ان کے آنے سے یہ حقیقت کھلی کہ حضرت ولید بن عقبہؓ کو مغالطہ ہوا تھا اور وہ استقبال کے لیے ہتھیار بکف باہر نکلنے والے لوگوں کے بارے میں یہ سمجھے کہ وہ انہیں قتل کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ اس طرف حضرت حارث بن ضرارؓ کے بر وقت مدینہ منورہ آجانے سے لوگوں کو اطمینان ہوا ورنہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر بنو مصطلق کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہی تھی۔ اس پر سورۃ الحجرات کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ اے ایمان والو! جب اس قسم کی کوئی خبر آئے تو تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ ’’ان تصیبوا قومًا بجہالۃ فتصبحوا علٰی ما فعلتم نادمین‘‘ تم بے خبری میں کسی قوم کے خلاف کاروائی کر بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر تمہیں خود ندامت ہو۔

قرآن کریم کے ان ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی خبر کو پھیلانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ اس کی تحقیق کر لی جائے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ خبر کی صرف تصدیق کر لینا کافی نہیں ہے اور خبر کو عام کرنے کے لیے صرف اس کا صحیح ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس خبر کی اشاعت معاشرے میں خرابی اور نقصان کا باعث تو نہیں ہوگی؟

بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب ایک یہودی لبید بن اعصم نے جادو کیا اور اس کے اثرات بھی بعض معاملات میں محسوس ہونے لگے تو اللہ رب العزت نے خواب کے ذریعہ آپؐ کو اس سے آگاہ فرمایا کہ لبید بن اعصم نے کنگھی اور بالوں کے ایک گچھے پر جادو کر کے اسے بیرذی اروان میں چھپا دیا ہے۔ نبی کریمؐ چند ساتھیوں کے ہمراہ وہاں گئے، کنگھی اور بالوں کا گچھا برآمد کیا اور وہیں کسی جگہ دفن کر دیا۔ واپسی پر ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو سارا واقعہ بتایا تو انہوں نے پوچھا کہ ’’ھلا انتشرت؟ ھلا استخرجت؟‘‘ آپ اس کو وہیں دفن کیوں کر آئے ہیں، اسے نکال کر لوگوں کو دکھا یا کیوں نہیں؟ حضورؐ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس جادو کے شر سے بچا لیا ہے اور ’’خشیت أن أثور علیہم شرًا‘‘ مجھے خدشہ ہوا کہ میں اس کو عام کر کے کہیں لوگوں میں شر نہ ابھار دوں اس لیے میں نے اسے وہیں دفن کر دیا ہے۔

یہ خبر بالکل درست تھی اور وحی کے ذریعے معلوم ہوئی تھی، واردات جناب رسول اللہ کے ساتھ ہوئی تھی جو پکڑی گئی تھی، امر واردات بھی برآمد ہو گیا تھا، اور ملزم بلکہ مجرم کی نشاندہی بھی ہو گئی تھی۔ آج کا دور ہوتا تو تین چار دن تک پٹیاں اور میسج چلتے رہتے لیکن جناب نبی اکرمؐ نے معاشرے میں شر اور فساد پھیلنے کے خدشہ کے پیش نظر اسے وہیں دبا دیا۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ کسی خبر کو نشر کرنے کے لیے صرف اس کا صحیح ہونا کافی نہیں بلکہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ سوسائٹی پر اس خبر کے اثرات کیا مرتب ہوں گے؟ اگر اس سے شر اور فساد پھیلنے کا خدشہ ہو تو اسے دبا دینا اور عام نہ کرنا ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔

اسی طرح ایک دوسرے کے بارے میں بلا وجہ بدگمانی کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بخاری شریف کی ایک روایت کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ ایک انصاری صحابی حضرت عتبان بن مالکؓ اپنے قبیلہ کی مسجد کے امام تھے، ایک دفعہ حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں اپنے محلہ کی مسجد کا امام ہوں، میرا گھر وادی کے ایک جانب ہے جبکہ مسجد دوسری طرف ہے، بسا اوقات بارش ہونے کی وجہ سے وادی میں پانی بہنے لگتا ہے اور میری نظر بھی کمزور ہونے لگی ہے، اس لیے بعض اوقات نماز کے لیے مسجد میں جانا مشکل ہو جاتا ہے، میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لا کر کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اسے گھر میں مصلیٰ بنا لوں اور بوقت ضرورت وہاں نماز پڑھ لیا کروں۔

یہ ’’مسجدِ بیت‘‘ بھی ہماری روایات کا حصہ رہی ہے اور سنت ہے۔ پرانے زمانے میں ہمارے گھروں کی تعمیر کے لیے زنان خانہ، مردان خانہ اور مسجدِ بیت گھر کی ڈیزائننگ کے لیے بنیاد ہوا کرتے تھے۔ اب تو ہمارا کلچر ہی بدل گیا ہے، زنان خانہ اور مردان خانہ کا فرق مٹ گیا ہے اور مسجد بیت کی جگہ ٹی وی لاؤنج نے لے لی ہے۔ کوئی انجینئر مکان ڈیزائن کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے ٹی وی لاؤنج کی فکر ہوتی ہے پھر اس کے اردگرد وہ باقی گھر کی ترتیب سیٹ کرتا ہے، جبکہ مسجد بیت آج بھی ہمارے گھروں کی ایک اہم ضرورت اور سنت نبویؐ کی حیثیت رکھتی ہے۔

بہرحال حضرت عتبانؓ کی درخواست پر جناب نبی اکرمؐ حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے اور گھر میں ایک جگہ نماز پڑھائی جسے انہوں نے مسجد بیت بنا لیا۔ اس موقع پر آپؐ کی تشریف آوری کی خبر ملنے پر قبیلہ کے لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے اور تھوڑی دیر میں ان کا گھر لوگوں سے بھر گیا۔ وہاں ایک بدری صحابی حضرت مالک بن دخشنؓ بھی قریب رہتے تھے، وہ نہیں آ سکے۔ کسی نے پوچھا کہ مالک بن دخشنؓ کیوں نہیں آئے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ چھوڑو وہ منافق ہے اس لیے نہیں آیا۔ یہ بھی ہمارا معاشرتی مزاج بن گیا ہے کہ چار دوست اکٹھے ہوں اور کوئی صاحب غیر حاضر ہو تو وہ نہ صرف موضوع بحث بن جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہم لوگ جو حشر کرتے ہیں وہ قابل رحم ہوتا ہے۔ مالک بن دخشنؓ کے بارے میں تبصرے ہوئے حضورؐ نے ٹوک دیا کہ ایسی باتیں نہ کرو۔ آپؐ کے ٹوکنے پر بھی بعض حضرات نے کہا کہ یا رسول اللہ! اس کا میل جول منافقوں کے ساتھ زیادہ ہے اسی وجہ سے وہ نہیں آیا ورنہ آپؐ ہمارے محلہ میں تشریف لائے ہیں تو وہ کیوں نہیں آیا؟ آپؐ نے اس طرز عمل پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ کسی مسلمان بھائی کے لیے ایسی باتیں مت کیا کرو اور وہ تو پھر بدری صحابی ہے۔

حضرات محترم! یہ باتیں ہمارے معاشرے میں عام ہوتی جا رہی ہیں اور ہمارے کلچر کا حصہ بن گئی ہیں حالانکہ یہ سب باتیں شرعاً کبیرہ گناہ کے درجے کی باتیں ہیں مگر ہم سرے سے انہیں گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ اور چونکہ ان باتوں کا سیزن شروع ہو گیا ہے، ۱۱ مئی کو ہمارے عام انتخابات ہوں گے اور اس وقت تک ہمارے ماحول میں ہر طرف انہی باتوں کا چلن عام ہو گیا ہے، اس لیے میں نے اپنی اصلاح کے لیے اور آپ دوستوں کو یاددہانی کے لیے چند باتیں عرض کر دی ہیں۔

اس کے ساتھ ایک اور بات بھی عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹی خبر عام کرنے والوں کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی بھی ہم سب کے پیش نظر رہنا چاہیے جو بخاری شریف میں موجود ہے کہ ایک خواب میں یا معراج کے سفر میں حضورؐ کو آخرت میں کچھ لوگوں کو عذاب دیے جانے کے مناظر دکھائے گئے جس میں سے ایک منظر یہ ہے کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا شخص درانتی لیے اس کے سر پر کھڑا ہے۔ وہ درانتی سے اس کی باچھ کو گدی تک چیر دیتا ہے، پھر دوسری طرف آ کر دوسری باچھ کو چیرتا ہے تو پہلی ٹھیک ہو جاتی ہے، وہ اسے پھر سے چیر دیتا ہے اور اس طرح باری باری اس کی باچھوں کو چیرتا رہتا ہے۔ فرشتوں نے جناب نبی اکرمؐ کے استفسار پر بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جو جھوٹ کی بات کرتا تھا اور ’’یبلغ بہ الآفاق’’ اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دیتا تھا۔ جھوٹ بول کر اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دینے کی بات شاید آج سے ایک صدی قبل تک لوگوں کی سمجھ میں نہ آتی ہو لیکن آج یہ منظر ہم شب و روز دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹی خبر کی پٹی چلتی ہے اور آناً فاناً دنیا کے کناروں تک پہنچ جاتی ہے، بسا اوقات جس شہر کے بارے میں بات ہو اس شہر کے لوگوں کو بعد میں پتہ چلتا ہے لیکن امریکہ، روس اور برطانیہ تک خبر پہلے پہنچ جاتی ہے۔ یہ وبا پھیلتی جا رہی ہے اور اس کے نقصانات بڑھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter