خدیو مصر اور خدیو پنجاب

   
۱۰ اکتوبر ۱۹۹۹ء

میاں شہباز شریف صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے بھائی ہیں۔ ان کے بیرونی دوروں کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے خدشات اور شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک سیاسی راہنما نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی یہ حق دیا جائے کہ وہ بیرونی دورے کریں اور اپنی ذمہ داری پر بیرونی اداروں کے ساتھ معاملات طے کریں۔

سیاسی رہنماؤں کے خیالات اور چھوٹے صوبوں کے خدشات اپنی جگہ مگر مجھے اسماعیل پاشا یاد آرہے ہیں جو خلافت عثمانیہ کی طرف سے اس کے ایک صوبے مصر پر حکمران تھے اور ’’خدیو مصر‘‘ کہلاتے تھے۔ سوا صدی پہلے کی بات ہے کہ خلیفہ عثمانی سلطان عبد العزیز مرحوم سے انہوں نے یہ اجازت لی کہ وہ مصر کے لیے بیرونی ممالک سے اپنے طور پر بھی مالی اور تجارتی معاملات طے کر سکتے ہیں۔ سلطان مرحوم نے اجازت دے دی جس کے بعد خدیو مصر کے وارے نیارے ہوگئے۔ اسماعیل پاشا نے مغربی ممالک سے بے تحاشا قرضے لیے اور انہیں بلڈنگوں اور سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ سرکاری نمود و نمائش اور اللّوں تللّوں میں اڑا دیا۔ حتیٰ کہ صرف مصر کے بیرونی قرضوں کی مقدار دولت عثمانیہ کے مجموعی قرضوں کے برابر پہنچ گئی اور خلافت عثمانیہ کو وہ قرضے ادا کرنے کے لیے مغربی ممالک میں اپنے اثاثے بیچنے پڑے۔

وہ زمانہ گزرا اور سلطان عبد الحمید مرحوم کا زمانہ آگیا۔ اس وقت برطانیہ اور فرانس دونوں مصر پر نظریں جمائے بیٹھے تھے اور دونوں کی فوجی قوت مصر کے دائیں بائیں موجود تھی۔ بیرونی قرضوں اور اثاثوں کی فروخت کے باعث مصر کے اندر بحران پیدا ہوگیا۔ خدیو مصر نے اپنی کابینہ میں برطانوی اور فرانسیسی لابیوں کی نمائندگی کرنے والے دو غیر مسلم وزیر شامل کر لیے جس کے نتیجے میں مصر کی فوج کی تعداد نصف سے بھی کم کر دی گئی اور ہزاروں افسروں اور سپاہیوں کو فارغ کر دیا گیا۔ اس سے مصر کا اندرونی بحران شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا اور بات بغاوت تک جا پہنچی۔ برطانیہ اور فرانس نے عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید سے مطالبہ کیا کہ وہ مصر کی بغاوت اور خلفشار پر قابو پانے کے لیے فوج کشی کریں۔ سلطان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ خلیفۃ المسلمین ہیں اور اپنی ہی مسلم رعایا کے خلاف فوج کشی نہیں کر سکتے۔ چنانچہ مصر کے اندرونی حالات کا بہانہ بنا کر برطانیہ نے مصر میں فوجیں داخل کر دیں اور قاہرہ پر قبضہ کر لیا۔

میں نے مصر پر برطانوی قبضے کے پس منظر کو اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے مگر اس میں اور بھی بہت سی اندرونی کہانیاں ہیں جن کی بازگشت ہمیں آج کے حالات میں بھی اپنے اردگرد صاف طور پر سنائی دے رہی ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے بیرونی دوروں کو میں اسی پس منظر میں دیکھ رہا تھا مگر میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کر کے اس کے ایک پہلو کو خود ہی نمایاں کر دیا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کا رشتہ طالبان کی اسلامی مملکت کے ساتھ جوڑ کر جو کچھ کہا ہے اس سے ان کے دورۂ امریکہ اور امریکی حکام کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کے مقاصد کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہا۔ وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی یہ لہر فرقہ وارانہ کشمکش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ بیرونی ایجنسیوں بالخصوص ’’را‘‘ کی کارستانی ہے۔ گورنر پنجاب نے یہی بات زیادہ وضاحت کے ساتھ کہی ہے۔ مگر میاں شہباز شریف کا اصرار ہے کہ یہ سب کچھ طالبان نے کرایا ہے اور اس کے حوالے سے انہوں نے طالبان کے خلاف باقاعدہ سرکاری مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے۔

میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ افغانستان میں عسکری تربیت کے اڈے ہیں جہاں نوجوانوں کو فوجی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ مگر انہیں یہ یاد نہیں رہا کہ یہ تربیتی مراکز وہی ہیں جن میں تربیت حاصل کر کے نوجوانوں نے روسی استعمار کے خلاف پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑی ہے اور فوجی ٹریننگ کے یہ اڈے وہی ہیں جہاں سے تربیت پانے والے نوجوان کشمیر میں اپنے مجاہد کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ مصروف جہاد ہیں۔ بلکہ بوسنیا، چیچنیا، داغستان اور کوسووو کے مجاہدین بھی انہی مراکز کے تربیت یافتہ ہیں۔ ان تربیتی مراکز میں یقیناً کچھ ایسے لوگوں نے بھی ٹریننگ حاصل کی ہوگی جنہوں نے اس ٹریننگ سے غلط فائدہ اٹھایا ہے، مگر چند افراد کے غلط کردار کے باعث اگر میاں شہباز شریف افغانستان میں موجود عسکری تربیت کے مراکز کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے رہے ہیں تو انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ یہ کہہ کر جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر دونوں کی نفی کر رہے ہیں، اور روس و بھارت کے سیاسی موقف کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردوں کی وارداتیں مذموم ہیں اور اس امکان کو بھی ہم رد نہیں کرتے کہ دہشت گردی کے مرتکب کچھ افراد نے افغانستانی کیمپوں میں تربیت حاصل کی ہوگی۔ مگر اس کی آڑ میں مجاہدین کو تربیت دینے والے عسکری مراکز کی کردار کشی اور ان کے خلاف مہم جوئی پاکستان کا نہیں بلکہ امریکہ کا ایجنڈا ہے۔ کیونکہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ ایشیا کے اس خطہ میں طالبان کا کردار آگے نہ بڑھے اور وہ اس سر زمین کو آزادی کے ساتھ اسلامی قوتوں کو چین کے خلاف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکے جس کی وہ ایک عرصہ سے خواہش رکھتا ہے۔

اس پس منظر میں ہم میاں شہباز شریف صاحب سے با ادب یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ جو کردار ادا کرنا چاہیں بڑے شوق سے کریں، انہیں ہر رول ادا کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن تاریخ میں ہر کردار کے لیے ایک مخصوص باب ہوتا ہے، اس کا مطالعہ بھی کر لیں۔ اور بطور خاص ’’خدیو مصر‘‘ اسماعیل پاشا کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں۔ اگر انہیں کہیں اور سے اس سلسلہ میں معلومات میسر نہ ہوں تو تاریخ کے اس حصہ کے بارے میں مستند لٹریچر ہم ان کی خدمت میں پیش کر سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ خدیو مصر کی پالیسیوں کے نتیجہ میں تو برطانیہ کی فوجیں مصر پر قابض ہوئی تھیں، لیکن ’’خدیو پنجاب‘‘ کے منصوبوں میں یہ کردار کس ملک کی فوج کے لیے تجویز کیا گیا ہے؟ میاں صاحب خود ہی وضاحت فرما دیں تو ان کا بے حد کرم ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter