جنرل پرویز مشرف کے دورِ صدارت کا آغاز

   
جولائی ۲۰۰۱ء

چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ روز جناب محمد رفیق تارڑ کو عہدۂ صدارت سے سبکدوش کر کے خود صدارت کا منصب سنبھال لیا ہے۔ اور اب وہ بھارت کے دورہ کی تیاری کر رہے ہیں جس کی دعوت انہیں بھارتی حکومت نے دی ہے، اور جس کے بارے میں صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ وہ اس دورۂ بھارت میں مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

جناب محمد رفیق تارڑ ملک میں دستور کی آخری علامت کے طور پر باقی رہ گئے تھے، جن کے اپنے منصب سے ہٹ جانے اور قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو جانے کے بعد سے دستور کی کوئی علامت ملک میں موجود نہیں ہے۔ اور اب صدر پرویز مشرف ملک کا نظام اس عبوری آئینی آرڈر (پی سی او) کے تحت چلا رہے ہیں جس میں تمام اختیارات کا سرچشمہ صرف ان کی ذات ہے۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان سے پی سی او کے تحت جو حلف لیا گیا تھا وہ بھی شخصی وفاداری کا عہد تھا۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان کے طاقتور ترین حکمران کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔

اس معاملہ کے خالص سیاسی پہلوؤں سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے ہم صدر جنرل پرویز مشرف سے صرف ایک بات اس موقع پر عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حالات نے انہیں اس مقام پر فائز کر دیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو جس طرح چاہیں استعمال کر سکتے ہیں، اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ بھی بظاہر نظر نہیں آ رہی، تو وہ اپنی اس پوزیشن کو

  • پاکستان کے مقصدِ قیام کی تکمیل،
  • غیر ملکی مداخلت سے نجات،
  • بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تسلط سے گلو خلاصی،
  • اور غریب عوام کی معاشی حالت سدھارنے

کے لیے استعمال کریں، اس سے دنیا میں بھی انہیں عزت ملے گی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخروئی نصیب ہو گی۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ ان مقاصد کے حصول کے لیے قرآن و سنت سے رجوع کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات و احکام کی روشنی میں پیشرفت کریں گے تو انہیں دینی حلقوں کی حمایت اور بے شمار اللہ والوں کی دعائیں ملیں گی۔ لیکن اگر خدانخواستہ اپنے پیشروؤں کی طرح انہوں نے بھی اقتدار اور قوت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے غریب بندوں کے لیے استعمال کرنے کی بجائے ذاتی خواہشات کی تکمیل اور بین الاقوامی اداروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام میں لانے کی روش اختیار کی تو انہیں اپنے پیشروؤں کے انجام پر بھی نظر رکھنی چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے اور اس کا قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter