جاہلیت کے دور میں حج کا جو تسلسل چلا آ رہا تھا اس میں حضورؐ نے کچھ اصلاحات فرمائیں۔ مثلاً پہلی تبدیلی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ مکہ مکرمہ، حرم پاک اور بیت اللہ شریف یہ فتح مکہ سے پہلے بتوں کی آماجگاہ تھے۔ وہاں سینکڑوں بت نصب تھے، مسجد حرام میں بھی، بیت اللہ کے اندر بھی، اور حرم کے ماحول میں بھی۔ لوگ بیت اللہ کا طواف بھی کرتے تھے، صفا و مروہ کی سعی بھی کرتے تھے، اور بتوں کے سامنے حاضری بھی دیتے تھے۔ حج کے دنوں میں دونوں کام ہوتے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے نظام میں پہلی تطہیر یا پہلی اصلاح یہ کی کہ فتح مکہ کے بعد بت وہاں سے ہٹا لیے بلکہ بت توڑ دیے صاف کر دیے، بیت اللہ کے اندر سے بھی، مسجد حرام سے بھی، حرم کی حدود سے بھی، بلکہ پورے جزیرۃ العرب میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں اور بت خانوں کو صاف کر دیا اور جزیرۃ العرب کو بت خانوں سے اور بتوں سے بالکل پاک کر دیا۔ تو یہ بڑی تبدیلی تھی کہ بیت اللہ کا اور حرم کا ماحول بتوں سے پاک ہوا، اور وہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ، اللہ کے گھر کی حاضری کے ساتھ جو بتوں کی شرکت ہوتی تھی وہ ختم ہو گئی اور خالص اللہ کے لیے حج ہو گیا۔
اسی طرح حرم کی حدود میں وہاں بت پرستی کے ساتھ ساتھ مذہبی حوالے سے جوا اور لاٹری کا سسٹم بھی جاری تھا۔ مختلف پہلوؤوں سے وہاں بتوں کے ذریعے، بتوں کی موجودگی میں ان کے سائے میں لاٹری کھیلتے تھے جوا کھیلتے تھے، اس کی مختلف شکلیں احادیث میں تاریخ میں مذکور ہیں۔ حتٰی کہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ کے بت توڑے تو بیت اللہ سے جو بت نکالے گئے تھے ان میں ایک بت حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کا بھی تھا، اور بت اس طریقے سے بنائے گئے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں تیر پکڑائے گئے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا ’’قاتلھم اللہ‘‘ اللہ ان کا بیڑا غرق کرے مشرکین نے ان بزرگوں کے ہاتھ میں بھی لاٹری کے تیر پکڑا دیے حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ ان بزرگوں نے کبھی زندگی میں لاٹری نہیں کھیلی کبھی جوا نہیں کھیلا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح بتوں کو وہاں سے صاف کیا اسی طرح یہ لاٹری، جوا اور یہ تیر نکالنا جوے کے اور ازلام وغیرہ یہ حضورؐ نے وہاں سے ختم فرمائے۔