عالمی استعمار کے ایجنڈے کا ایک حصہ یہ ہے کہ پاکستان میں ’’صوفی اسلام‘‘ اور ’’مولوی کا اسلام‘‘ کے نام سے خودساختہ تفریق کو اجاگر کر کے قومی معاملات میں دیوبندی مکتب فکر کو کارنر کرنے کی کوشش کی جائے اور دیوبندی علماء کو عام مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول اور اچھوت بنا دیا جائے۔ اس سلسلہ میں برطانوی استعمار کے نوآبادیاتی دور کا یہ پس منظر تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ دیوبندی علماء کو گستاخ رسولؐ قرار دے کر بدنام کیا گیا اور عام سوسائٹی کے ساتھ ان کے تعلق کو توڑ دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس مہم کی ایک پوری تاریخ ہے جو محققین اور مؤرخین کی تحقیقات کے ذخیرے میں بکھری پڑی ہے اور اب امریکہ بہادر اسی روایت کو دہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ ’’دیوبندی گستاخ ہیں ‘‘کے پرانے فتوؤں کی گرد جھاڑ کر انہیں پھر سے خطبوں، مواعظ اور بیانات کا موضوع بنایا جا رہا ہے بلکہ بزرگان دین کے مزارات پر خودکش حملوں کے سلسلہ میں لگائے جانے والے الزامات میں دیوبندی حلقوں کو نمایاں کر کے منافرت اور کردارکشی کی ایک نئی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
یقیناً اس مہم کا نتیجہ بھی برطانوی دور کی مہم سے مختلف نہیں ہو گا اور دیوبندی مکتبِ فکر ان شاء اللہ تعالیٰ اس آزمائش میں پہلے سے زیادہ سرخرو ہو کر دنیا کے سامنے آئے گا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہو گا کہ کچھ اور چہرے بے نقاب ہو کر تاریخ کا حصہ بنیں گے بلکہ تاریخ کے تیز رفتار عمل نے اس کے لیے مستقبل کا انتظار بھی ضروری نہیں سمجھا اور اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے، جس کی ایک جھلک روزنامہ نوائے وقت لاہور میں شائع ہونے والی اس خبر میں دیکھی جا سکتی ہے جو ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو اس قومی اخبار کی زینت بنی ہے۔
’’لاہور (خصوصی رپورٹ) سنی اتحاد کونسل کو سیاسی پلیٹ فارم بنانے کے اعلان کے بعد کونسل میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔اتوار کے روز کانفرنس ہال میں ہی نماز کا وقفہ نہ کرنے اور امریکی سفیر سے ملاقاتوں کے معاملے پر اختلافات پیدا ہو گئے جب جماعت اہلسنت کے سربراہ مولانا سید ریاض شاہ نے اپنی تقریر میں سنی اتحاد کی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پینٹاگون جانے والوں کو سنی اتحاد سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ قاری زوار بہادر نے کہا کہ امریکی فنڈز سے بریلوی دیوبندی جھگڑا کرانے کی کوشش ہو رہی ہے جبکہ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ میں امریکہ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ اتحاد کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ سنی تنظیمات اس اتحاد میں مزارات کے تقدس کی پامالی کے حوالے سے شامل ہوئی تھیں تاکہ ایک پریشر قائم کر کے حکومت کو مزارات کے تحفظ پر متوجہ کیا جا سکے۔ مگر ثروت اعجاز قادری اور صاحبزادہ فضل کریم کی طرف سے اسے دیوبندی بریلوی تنازع کی شکل دینے کے سبب پہلے بھی بعض اہم رہنما اتحاد کے اسٹیج پر آنے سے انکار کر چکے ہیں جن میں نمایاں ترین نام مفتی منیب الرحمن کا ہے۔ ان کے علاوہ بھی جے یو پی نورانی گروپ اور جے یو پی نیازی گروپ کے بہت سے قائدین سنی اتحاد میں شامل نہیں بلکہ اس کی مذمت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘
اگرچہ مولانا مفتی منیب الرحمن نے بعد میں شائع ہونے والے ایک اخباری بیان میں خود سے منسوب ان تاثرات کی تردید کی ہے مگر ہمارے خیال میں اس سے صورتحال میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی کیونکہ یہ خبریں اس کے علاوہ اور ذرائع سے بھی قومی پریس کے ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں کہ پاکستان میں دیوبندی بریلوی تصادم کی فضا پیدا کرنے کی منصوبہ بندی مبینہ طور پر پینٹاگون میں کی گئی ہے جس کے لیے بہت سے پاکستانی علماء کرام کی وہاں میزبانی کا اہتمام کیا گیا اور پاکستان میں امریکی سفیر کی سرگرمیاں بھی اس حوالہ سے اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔
بریلوی مکتب فکر ہمارے ملک کا ایک بڑا مذہبی مکتب فکر ہے جس کے ساتھ ہمارے اختلافات گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے چلے آرہے ہیں مگر مختلف قومی اور دینی تحریکات میں ہم نے اکٹھے کام کیا ہے۔ اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گا کہ اختلافات بھی موجود رہیں گے، ان کا کہیں نرمی اور کہیں گرمی سے اظہار بھی دونوں طرف سے ہوتا رہے گا جبکہ مشترکہ قومی اور دینی معاملات میں ہم دونوں اکٹھے بھی ہوتے رہیں گے۔ لیکن دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کو آپس میں گتھم گتھا کرنے کی کوئی کوشش نہ پہلے کامیاب ہوئی اور نہ آئندہ اس کا کوئی امکان موجود ہے۔
جہاں تک اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے مزارات کی حرمت اور تقدس کی بات ہے سب لوگ جانتے ہیں کہ ان مزارات پر روزمرہ ہونے والی بہت سی سرگرمیوں سے شدید اختلاف کے باوجود مزارات کی حرمت اور ان میں مدفون اولیائے کرام ؒ کے تقدس کے احترام میں دیوبندی علماء اور عوام کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اور حضرت سید علی ہجویریؒ اور حضرت سید عبد اللہ شاہ غازیؒ کے مزارات پر خودکش حملوں کی صورت میں جو شرمناک حرکات ہوئی ہیں ان پر دکھ اور صدمہ کے اظہار اور ایسی کاروائیوں کی مذمت میں دیوبندی علماء اور عوام باقی عام برادران اسلام کے ساتھ برابر کے شریک ہیں، بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف دیوبندی نہیں بلکہ کوئی عام مسلمان بھی اس قسم کی شرمناک حرکت کا تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کی آڑ میں عالمی استعمار کے عزائم کو راستہ دینا اور ملک میں آباد دو بڑے مذہبی مکاتب فکر کے درمیان تصادم کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنا بھی بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے جس پر تمام سنجیدہ حلقوں کو توجہ دینی چاہیے۔
ہمیں معلوم ہے کہ بریلوی مکتبِ فکر کے بہت سے سنجیدہ علماء کرام اور مشائخ عظام اس صورتحال پر مضطرب ہیں اور وہ مختلف صورتوں میں اس اضطراب کے اظہار کی راہیں بھی نکال رہے ہیں جو ان کے مثبت قومی اور ملی جذبات کی عکاسی کرتی ہیں، ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ مثبت کوششوں اور سنجیدہ مساعی میں انہیں ہماری بھرپور حمایت اور تعاون حاصل رہے گا لیکن اس کے ساتھ ہم یہ بھی عرض کر دینا چاہتے ہیں کہ دیوبندیوں کے بارے میں یہ تصور بھی کسی کے ذہن میں نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی صاحب امریکی ڈالروں کے سائے میں دو چار ریلیاں نکال کر اور چند جلسوں میں الٹی سیدھی باتیں کر کے دیوبندیوں کو کارنر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دیوبندیوں کو عالمی سطح پر کارنر کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والے اب اپنی تھکاوٹ اور جھنجھلاہٹ کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے تو پاکستان میں انہیں قومی منظر سے پیچھے دھکیلنے کے خواہش مندوں کو اپنے اس خواب سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھنے کے سوا آخر اور کیا حاصل ہو گا؟