برطانیہ میں بیس دن گزارنے کے بعد پاکستان واپس آتے ہوئے ۲۳ ستمبر کو رات دس بجے جدہ ایئرپورٹ پر اترا اور بحمد اللہ تعالیٰ ایک بجے شب عمرہ کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کے دروازے تک پہنچ گیا۔ برطانیہ میں قیام کے دوران ۲۰ ستمبر کو ویمبلے سنٹر لندن میں منعقد ہونے والی تیسری سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے علاوہ دو اور تقریبات میں بھی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک دارالعلوم ہولکمب بری کی وسیع اور خوبصورت جامع مسجد کے افتتاح کی تقریب تھی اور دوسری برمنگھم کے قریب کڈرمنسٹر کے مقام پر لڑکیوں کے لیے رہائشی دینی درسگاہ کی تعمیر کے لیے سنگِ بنیاد کی تقریب تھی۔
دارالعلوم ہولکمب مانچسٹر کے قریب بری نامی چھوٹے شہر کے ساتھ ہولکمب ہل پر چند سال قبل قائم ہونے والا ایک دینی مدرسہ ہے جو ہمارے ہاں کے معیاری دینی اداروں کی طرز کا ایک بڑا ادارہ ہے۔ اس مقام پر کچھ عرصہ قبل ٹی بی ہسپتال تھا۔ ٹی بی پر قابو پانے کے بعد اس عمارت کو فروخت کے لیے پیش کیا گیا تو شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ مجاز اور ایک متحرک و باعمل عالم دین مولانا محمد یوسف متالا نے اسے دینی مدرسہ کے لیے خرید لیا اور دارالعلوم کے نام سے درسِ نظامی کا ادارہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ میں درسِ نظامی کا یہ مدرسہ دہریت اور لادینیت کی اس فضا میں خوشگوار ہوا کا ایک ایسا جھونکا ثابت ہوا جس نے اہلِ نظر کے دلوں میں مسلمانوں کی نئی نسل کے بارے میں مایوسیوں کو امید سے بدل دیا۔
دارالعلوم ہولکمب بری میں درسِ نظامی کے نصاب کو چھ سال میں سمیٹ لیا گیا ہے۔ ذریعۂ تعلیم انگلش ہے، دورۂ حدیث بھی انگریزی میں ہوتا ہے۔ مولانا محمد یوسف متالا دارالعلوم کے مہتمم اور شیخ الحدیث ہیں۔ گزشتہ سال دس طلباء نے دورۂ حدیث مکمل کر کے سندِ فراغت حاصل کی جن میں ایک نوجوان جناب محمد شعیب ڈیسائی سے ملاقات ہوئی۔ گجرات (بھارت)کے رہنے والے ہیں، اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ ازہر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آئندہ پروگرام کے بارے میں اس نوجوان نے یہ عزم ظاہر کیا کہ وہ قاہرہ میں عربی زبان کی معیاری تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس برطانیہ آ کر دینی تعلیم و تبلیغ کے سلسلہ کو وسیع کرنے کی کوشش کریں گے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ دارالعلوم میں طلبہ کی دینی و روحانی تربیت کا بطور خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ پانچ وقت نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ تہجد، ذکر و اذکار اور اسلامی اخلاق و اقدار کی خصوصیت کے ساتھ تلقین کی جاتی ہے۔ دارالعلوم کے طلبہ لمبے کرتوں، خوبصورت ڈاڑھیوں اور سفید پگڑیوں کے ساتھ برطانوی معاشرہ میں پہلی نظر دیکھنے سے یوں محسوس ہوتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے اس ملک میں کوئی اور مخلوق اتار دی ہے۔
دارالعلوم کی ایک تقریب میں مجھے بھی شرکت اور خطاب کا موقع ملا۔ میں نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تو اچانک میرے ذہن کی اسکرین پر لارڈ میکالے کا نام بار بار ابھرنے لگا۔ میں نے اس نام کو جھٹکنے کی بہت کوشش کی مگر بالآخر اس کا نام میری زبان پر آہی گیا اور یوں گزارش کی کہ میرا جی چاہتا ہے کہ برطانیہ کے کسی شہر کے چوک میں نصب کیا ہوا لارڈ میکالے کا مجسمہ تلاش کروں اور اس کے سامنے کھڑا ہو کر اسے مخاطب کر کے کہوں کہ میکالے! قال اللہ و قال الرسولؐ کی جن درسگاہوں کی بساط لپیٹنے کے لیے تم نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں ایک نئے نظامِ تعلیم کی تدوین پر اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کر دی تھیں وہ درسگاہیں آج بھی زندہ ہیں بلکہ خود تمہارے ملک میں ایک نئے فکری و معاشرتی انقلاب کی نوید بن کر ہولکمب بری کے مقام سے تاریخ کے ایک نئے سفر کا آغاز کر چکی ہیں۔
دارالعلوم کے ساتھ مولانا محمد یوسف متالا اور ان کے رفقاء نے ایک بڑی مسجد تعمیر کی ہے جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ لندن کی ریجنٹ پارک کی جامع مسجد سے ہولکمب بری کی اس مسجد کا ہال زیادہ بڑا ہے۔ وسعت کے علاوہ خوبصورتی کے لحاظ سے بھی یہ مسجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ۱۵ ستمبر کو دارالعلوم میں جانا ہوا تو مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں بہت سے مراحل باقی تھے لیکن تعمیراتی کام کی تیز رفتاری نے حیران کر دیا کہ ۱۸ ستمبر کو مسجد مکمل تھی اور جمعہ کی نماز ادا کر کے مسجد کا باقاعدہ افتتاح بھی ہوگیا۔ جمعہ کا خطبہ جمعیۃ العلماء ہند کے سربراہ مولانا سید اسعد مدنی نے ارشاد فرمایا اور نماز پڑھائی۔ اس تقریب میں پاکستان سے حضرت مولانا خان محمد، مولانا غلام حبیب نقشبندی، مولانا محمد ضیاء القاسمی، مولانا فداء الرحمان درخواستی، مولانا حافظ عبد الرشید ارشد، مکہ مکرمہ سے مولانا عبد الحفیظ مکی، کینیڈا سے مولانا ڈاکٹر محمد اسماعیل اور بھارت سے مولانا ارشد مدنی کے علاوہ برطانیہ سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں اور علماء نے شرکت کی۔ اجتماع اس قدر پرہجوم تھا کہ مسجد کی تمام تر وسعت کے باوجود قریب ایک اور جگہ پر الگ نماز جمعہ کا بھی اہتمام کیا گیا تاکہ رہ جانے ولے حضرات نمازِ جمعہ ادا کر سکیں۔
۱۹ ستمبر کو برمنگھم کے قریب مدینۃ العلوم الاسلامیہ کے نام سے ایک اور دینی ادارہ کے سنگِ بنیاد کی تقریب تھی۔ یہ ادارہ بھی مولانا محمد یوسف متالا قائم کر رہے ہیں اور اس کا مقصد مسلم بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے لیے رہائشی درسگاہ قائم کرنا ہے۔ برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ انتہائی نازک صورت اختیار کر چکا ہے۔ برطانوی نظامِ تعلیم میں تربیت پانے والے نوجوانوں کی دینی یا مشرقی اقدار سے وابستگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جس سے ذی شعور مسلمان بے حد پریشان ہیں اور برطانوی معاشرہ میں سہولتوں سے پر زندگی گزارنے کا ثمرہ اپنی اولاد کی بے راہ روی اور دین سے کلیتاً دوری کی صورت میں سامنے دیکھ کر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ مگر بے بسی کے عالم میں ہیں کہ نہ اس پر آسائش زندگی سے دستبرداری کا تصور کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولاد بالخصوص جوان لڑکیوں کو انگریزوں، ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مخلوط سوسائٹیوں او رمجلسوں میں مغربی تہذیب و معاشرت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اس وقت مغربی معاشرہ میں مقیم مسلمانوں کی حالت اس کوے کی سی نظر آرہی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ہنس کی چال چلنے کی کوشش کی تو اپنی چال بھی بھول گیا۔ اس پس منظر میں مولانا محمد یوسف متالا نے مسلمانوں کو ان کی اپنی چال پر باقی رکھنے کی جو مہم شروع کی ہے اس نے ذی شعور مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی ہے ورنہ بہت سے خاندان صرف اس لیے برطانیہ چھوڑ چکے ہیں کہ ان سے اپنی اولاد کی اس قدر ’’آزادی‘‘ دیکھی نہیں جاتی۔
۱۹۸۵ء میں دارالعلوم بری کی سالانہ تقریب کے موقع پر بھی مجھے حاضری کا موقع ملا تھا۔ اس وقت مولانا سید اسعد مدنی نے اپنے خطاب میں برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں سے دوٹوک بات کی تھی جسے اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو مسلمان اپنی اولاد کو دین پر قائم نہیں رکھ سکتے اور اسے مغربی معاشرت میں رنگے جانے سے نہیں بچا سکتے ان کے لیے اس معاشرہ میں رہنا حرام ہے، ان کا ایک ایک لمحہ گناہ میں گزر رہا ہے۔ غالباً اسی پیغام کا اثر تھا کہ دارالعلوم ہولکمب بری کے علاوہ اب برمنگھم کے قریب کڈرمنسٹر کے مقام پر لڑکیوں کی دینی تعلیم کا ادارہ ’’مدینۃ العلوم الاسلامیۃ‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ مولانا محمد یوسف متالا نے اس ادارہ کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم مسلمان بچیوں کو اس حد تک دینی تعلیم دینا چاہتے ہیں کہ وہ گھروں میں قرآن و سنت کے ساتھ نئی نسل کی نظریاتی اور عملی وابستگی کو برقرار رکھنے میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
مدینۃ العلوم الاسلامیۃ کے سنگِ بنیاد کی تقریب کے موقع پر ایک جلسۂ عام بھی ہوا جس سے مولانا سید اسعد مدنی، مولانا سید ارشد مدنی، مولانا فضل الرحمان، مولانا سید عبد القادر آزاد، مولانا عزیز الرحمان ہزاروی اور دیگر سرکردہ علماء کے علاوہ راقم الحروف کو بھی خطاب کی سعادت حاصل ہوئی۔ دارالعلوم ہولکمب بری کے بعض طلباء نے انگلش میں خطاب کیا۔ تقریب میں کڈرمنسٹر کی خاتون میئر اور مقامی محکمۂ تعلیم کے بعض افسران موجود تھے۔ دارالعلوم بری کے ایک نوجوان طالب علم نے ان سب کی موجودگی میں سورہ مریم کے پہلے دو رکوع کی انگلش میں تشریح کی اور حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اسلامی عقائد و موقف کی وضاحت کی۔ بارش کے باوجود ہزاروں مسلمان جمع تھے اور ان کے چہروں سے بشاشت ٹپک رہی تھی۔ ایک بزرگ سے پوچھا کہ آپ اس قدر خوش کیوں ہیں تو جواب دیا کہ آج ہمارے اس ملک میں رہنے کا جواز پیدا ہوگیا ہے اور یہ امید بندھ گئی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو نہ صرف یہ کہ مغربی معاشرت کے رنگ میں رنگے جانے سے بچا سکیں گے بلکہ مغربی معاشرت کی نئی نسل کو بھی ایک نئی اور پرکشش معاشرت کا نمونہ دکھا سکیں گے جو اپنی معاشرت کے کھوکھلے پن سے مایوس ہو کر منشیات میں سکون تلاش کر رہی ہے۔
برطانیہ میں بیس روزہ قیام کے دوران عالمی ختم نبوت کانفرنس کے علاوہ دارالعلوم ہولکمب بری کی جامع مسجد کی افتتاحی تقریب اور مدینۃ العلوم الاسلامیہ کڈر منسٹر برمنگھم کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت اس سفر کے یادگار مراحل تھے جن سے سفر کی مقصدیت دوچند ہوگئی۔